Sahi-Bukhari:
Representation, Authorization, Business by Proxy
(Chapter: To depute a person to repay debts)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2306.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے پاس ایک شخص قرض کی ادائیگی کا تقاضا کرتے ہوئے آیا اور اس سلسلے میں اس نے کچھ سخت لہجہ اختیار کیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے چاہا کہ اسے دبوچ لیں لیکن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایسا نہ کرو، اسے نظر انداز کردوکیونکہ حق دار کو اس انداز سے بات چیت کرنے کا حق حاصل ہے۔‘‘ پھرآپ نے فرمایا: ’’اس کو اس کے اونٹ جیسا اونٹ دے دو۔‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !ہمارے ہاں اس کے اونٹ سے بہتر اونٹ موجود ہے؟ آپ نے فرمایا: ’ٗ’وہی دے دو۔‘‘ تم میں سے اچھے وہی لوگ ہیں جو واجبات خوبی کے ساتھ ادا کریں۔‘‘
تشریح:
(1) حق طلب کرنے میں سخت رویہ اختیار کرنا اس وقت روا ہے جب فریق ثانی ٹال مٹول سے کام لے اور واجبات کی ادائیگی میں اچھا رویہ اختیار نہ کرے لیکن جو شخص انصاف پسند اور معاملات کا اچھا ہو اور اگر پاس نہ ہو تو معذرت کرے، ایسے شخص کے ساتھ سخت کلامی درست نہیں۔ (2) اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کریمانہ کا پتہ چلتا ہے کہ آپ نے قرض خواہ کی سخت کلامی کا مطلقاً کوئی اثر نہیں لیا بلکہ خندہ پیشانی سے قبل از وقت اس کا قرض ادا کردیا۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو یہ اخلاق حسنہ اپنانے کی توفیق دے۔ (3) حافظ ابن حجر ؓ نے شارح بخاری ابن منیر کے حوالے سے اس عنوان کی فقاہت بایں الفاظ بیان کی ہے:قرض کی ادائیگی بروقت کرنا ضروری ہے اس بنا پر اعتراض ہوسکتا ہے کہ اس میں وکالت صحیح نہیں کیونکہ مؤکل کی طرف سے وکیل اختیارکرنے میں دیر ہوسکتی ہے،اس اعتراض کو دور کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے کہ ایسا کرنا جائز ہے اور یہ ممانعت ٹال مٹول کے قبیل سے نہیں ہے۔ (فتح الباري609/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2232
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2306
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2306
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2306
تمہید کتاب
وکالت کے لغوی معنی نگرانی، حفاظت اور سپرد کرنے کے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی ایک صفت" وکیل" بھی ہے کیونکہ وہ ہمارے تمام کاموں کا نگران اور محافظ ہے۔شریعت کی اصطلاح میں " کسی آدمی کا دوسرے کو اپنا کام سپرد کرنا وکالت کہلاتا ہے۔"آدمی کو زندگی میں بے شمار ایسے کاموں سے واسطہ پڑتا ہے جن کو وہ خود انجام نہیں دیتا یا نہیں دے سکتا۔اس کی مختلف صورتیں ہیں:٭کبھی یہ ہوتا ہے کہ آدمی کو کسی کام کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کام کو خود انجام دینے کی اس میں اہلیت نہیں ہوتی۔٭ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خودایک کام میں مشغول ہوتا ہے،اس دوران میں کوئی دوسرا کام پیش آجاتا ہے ایسے کام کی انجام دہی کےلیے کسی دوسرے سے مدد لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔٭بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ کام اتنا وسیع اور پھیلا ہوتا ہے کہ اسے سرانجام دینا ایک آدمی کے بس میں نہیں ہوتا، اس لیے دوسروں کو شریک کرنا پڑتا ہے ،الغرض جو کام انسان خود کرلیتا ہے یا کرسکتا ہے اسے دوسروں سے بھی کراسکتا ہے۔شریعت میں اس کی اجازت ہے اور اسی کو وکالت کہتے ہیں۔اس کے لیے ضروری ہے کہ دوسرا آدمی اس کام کو بجالانے کی استعداد ولیاقت رکھتا ہو۔اس کے متعلق چند ایک اصطلاحات حسب ذیل ہیں:٭ جوشخص کسی دوسرے کو اپنا کام سپرد کرتا ہے یا ذمہ دار بناتا ہے اسے مؤکل کہتے ہیں۔٭ جو آدمی کام کی ذمہ داری قبول کرتا ہے یا اسے کام سونپا جاتا ہے وہ وکیل کہلاتا ہے۔٭ جس کام کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے اسے مؤکل بہ کہا جاتا ہے۔٭ دوسرے کی جگہ کام کی انجامددہی کو وکالت کہتے ہیں۔وکالت کا لفظ ہماری زبان میں عام طور پر اس پیشے پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعے سے حق کو ناحق اور سچ کو جھوٹ بتایا جاتا ہے۔اس کے ذریعے سے قاتلوں، ڈاکوؤں اور رہزنوں کو چھڑایا جاتا ہے۔اور وکیل اس شخص کو کہتے ہیں جو غیر اسلامی قانون کے ذریعے سے لوگوں کے جھوٹے سچے مقدمات کی پیروی اور نمائندگی کرے۔یہی وجہ ہے کہ جرائم میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور جرائم پیشہ لوگ شرفاء کی عزتوں سے کھیلتے نظر آتے ہیں۔شریعت میں اس قسم کا پیشہ اختیار کرنے کی ممانعت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا ﴿١٠٥﴾) آپ کو بددیانت لوگوں کی حمایت میں جھگڑا نہیں کرنا چاہیے۔"( النساء:105:4)امام بخاری رحمہ اللہ نے وکالت کے متعلق عنوان قائم کرکے اس کی حدودو شرائط کو متعین کیا ہے اور اس کے احکام ومسائل کو قرآن وحدیث کی صریح نصوص سے ثابت کیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے کل چھبیس احادیث پیش کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیس موصول ہیں۔ان میں بارہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے چھ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریباً سولہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں کچھ حسب ذیل ہیں:٭ تقسیم اور دیگر کاموں میں ایک شریک کا دوسرے شریک کو وکیل بنانا۔٭ مسلمان کے لیے جائز ہے کہ وہ دارالحرب یا داراالاسلام میں کسی حربی کو اپنا وکیل بنائے۔٭موجود اور غیر حاضر آدمی کو وکیل بنانا۔٭ کسی عورت کا حاکم وقت کو نکاح کےلیے وکیل بنانا۔٭ وقف اور اس کے اخراجات میں وکیل کا دائرۂ کار۔٭حدود کے معاملے میں وکالت۔٭قربانی کے جانوروں کی نگہداشت کےلیے وکیل بنانا۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بندوں کے مفادات اور مصالح کے پیش نظر وکالت کے متعلق متعدد احکام ذکر کیے ہیں،دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر صدق دل سے عمل کی توفیق دے ۔آمين.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے پاس ایک شخص قرض کی ادائیگی کا تقاضا کرتے ہوئے آیا اور اس سلسلے میں اس نے کچھ سخت لہجہ اختیار کیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے چاہا کہ اسے دبوچ لیں لیکن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایسا نہ کرو، اسے نظر انداز کردوکیونکہ حق دار کو اس انداز سے بات چیت کرنے کا حق حاصل ہے۔‘‘ پھرآپ نے فرمایا: ’’اس کو اس کے اونٹ جیسا اونٹ دے دو۔‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !ہمارے ہاں اس کے اونٹ سے بہتر اونٹ موجود ہے؟ آپ نے فرمایا: ’ٗ’وہی دے دو۔‘‘ تم میں سے اچھے وہی لوگ ہیں جو واجبات خوبی کے ساتھ ادا کریں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) حق طلب کرنے میں سخت رویہ اختیار کرنا اس وقت روا ہے جب فریق ثانی ٹال مٹول سے کام لے اور واجبات کی ادائیگی میں اچھا رویہ اختیار نہ کرے لیکن جو شخص انصاف پسند اور معاملات کا اچھا ہو اور اگر پاس نہ ہو تو معذرت کرے، ایسے شخص کے ساتھ سخت کلامی درست نہیں۔ (2) اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کریمانہ کا پتہ چلتا ہے کہ آپ نے قرض خواہ کی سخت کلامی کا مطلقاً کوئی اثر نہیں لیا بلکہ خندہ پیشانی سے قبل از وقت اس کا قرض ادا کردیا۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو یہ اخلاق حسنہ اپنانے کی توفیق دے۔ (3) حافظ ابن حجر ؓ نے شارح بخاری ابن منیر کے حوالے سے اس عنوان کی فقاہت بایں الفاظ بیان کی ہے:قرض کی ادائیگی بروقت کرنا ضروری ہے اس بنا پر اعتراض ہوسکتا ہے کہ اس میں وکالت صحیح نہیں کیونکہ مؤکل کی طرف سے وکیل اختیارکرنے میں دیر ہوسکتی ہے،اس اعتراض کو دور کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے کہ ایسا کرنا جائز ہے اور یہ ممانعت ٹال مٹول کے قبیل سے نہیں ہے۔ (فتح الباري609/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن کہیل نے بیان کیا، انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے سنا اور انھوں نے ابوہریرہ ؓ سے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ سے (اپنے قرض کا) تقاضا کرنے آیا، اور سخت سست کہنے لگا۔ صحابہ کرام غصہ ہو کر اس کی طرف بڑھے لیکن آپ نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو۔ کیوں کہ جس کا کسی پر حق ہو تو وہ کہنے سننے کا بھی حق رکھتا ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اس کے قرض والے جانور کی عمر کا ایک جانور اسے دے دو۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس سے زیادہ عمر کا جانور تو موجود ہے۔ (لیکن اس عمر کا نہیں) آپ نے فرمایا کہ اسے وہی دے دو۔ کیوں کہ سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو دوسروں کا حق پوری طرح ادا کردے۔
حدیث حاشیہ:
یہیں سے باب کا مطلب نکلتا ہے کیوں کہ آپ نے جو حاضر تھے دوسروں کو اونٹ دینے کے لیے وکیل کیا۔ اور جب حاضر کو وکیل کرنا جائز ہوا حالانکہ وہ خود کام کرسکتا ہے تو غائب کو بطریق اولیٰ وکیل کرنا جائز ہوگا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے ایسا ہی فرمایا ہے اور علامہ عینی ؒ پر تعجب ہے کہ انہوں نے ناحق حافظ صاحب ؒ پر اعتراض جمایا کہ حدیث سے غائب کی وکالت نہیں نکلتی، اولیت کا تو کیا ذکر ہے، حالانکہ اولیت کی وجہ خود حافظ صاحب کے کلام میں مذکور ہے۔ حافظ صاحب نے انتقاض الاعتراض میں کہا جس شخص کے فہم کا یہ حال ہو اس کو اعتراض کرنا کیا زیب دیتا ہے۔ نعوذ باللّٰہ من التعصب و سوءالفهم۔ (وحیدی) اس حدیث سے اخلاق محمدی پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ قرض خواہ کی سخت گوئی کا مطلق اثر نہیں لیا، بلکہ وقت سے پہلے ہی اس کا قرض احسن طور پر ادا کرادیا۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو یہ اخلاق حسنہ عطا کرے۔ آمین
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): A man came to the Prophet (ﷺ) demanding his debts and behaved rudely. The companions of the Prophet (ﷺ) intended to harm him, but Allah's Apostle (ﷺ) said (to them), "Leave him, for the creditor (i.e. owner of a right) has the right to speak." Allah's Apostle (ﷺ) then said, "Give him a camel of the same age as that of his." The people said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! There is only a camel that is older than his." Allah's Apostle (ﷺ) said, "Give (it to) him, for the best amongst you is he who pays the rights of others handsomely."