باب: اگر کسی نے اپنے وکیل سے کہا کہ جہاں مناسب جانو اسے خرچ کرو، اور وکیل نے کہا کہ جو کچھ تم نے کہا ہے میں نے سن لیا
)
Sahi-Bukhari:
Representation, Authorization, Business by Proxy
(Chapter: If a person tells his deputy, "Spend it as Allah directs you.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2318.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ حضرت ابو طلحہ ؓ مدینہ طیبہ کے انصار میں سے سب سے زیادہ مال دار تھے۔ اور ان کے نزدیک ان کا بہترین مال ان کا باغ بیرحاء تھا۔ اور وہ مسجد نبوی کے بالکل سامنے واقع تھا۔ رسول اللہ ﷺ وہاں تشریف لے جایا کرتے اور اس کا شریں پانی نوش فرماتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی۔ ﴿لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ﴾ ’’تم بھلائی ہر گز نہیں حاصل کر سکتے حتیٰ کہ اپنی محبوب چیز خرچ کرو۔‘‘ تو ابو طلحہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے۔ ﴿لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ﴾ ’’تم پوری نیکی ہر گز نہیں حاصل کر سکتے جب تک اپنا پسندیدہ مال خرچ نہ کرو۔‘‘ اور میرا محبوب ترین مال یہ باغ بیرحاءہے تو وہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے۔ میں اللہ کے ہاں اس کی نیکی اور ثواب کا امیدوار ہوں۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ !آپ جہاں چاہیں اسے خرچ کریں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بہت خوب !یہ مال تو چلا جانے والا ہے۔ یہ مال تو چلا جانےوالا ہے۔ بہر حال اس کے متعلق جو تم نے کہا اسے میں نے سن لیا ہے تاہم میری رائے ہے کہ تم اسے اپنے قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کرو۔‘‘ انھوں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !میں ایسا ہی کروں گا۔ پھر حضرت ابو طلحہ ؓ نے اپنے قریبی رشتہ داروں اور چچا کے بیٹوں میں اسے تقسیم کردیا۔ اسماعیل نے مالک سے روایت کرنے میں یحییٰ بن یحییٰ کی متابعت کی ہے اور (راوی حدیث) روح نے امام مالک سے ("رائح"کے بجائے لفظ "رابح"بیان کیا ہے۔) (اس کے معنی ہیں کہ یہ مال تو بہت نفع بخش ہے۔)
تشریح:
(1) اس عنوان كا مقصد یہ ہے کہ وکالت کا معاملہ اس وقت تک پورا نہیں ہوتا جب تک وکیل اس وکالت کو قبول نہ کرلے۔ ’’جو تونے کہا اسے میں نے سن لیا ہے۔‘‘ اس سے مراد وکیل کا قبول کرنا اور اس کا اظہار آمادگی ہے۔ حضرت ابو طلحہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو بیر حاء کے متعلق اپنا وکیل ٹھہرایا تو آپ نے اس وکالت کو قبول فرمایا۔ آپ نے اسے رائے دی کہ اسے اپنی قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کردیں۔ چونکہ رشتہ داروں کا حق مقدم ہے اور وہی وراثت میں حصہ پاتے ہیں، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ان کے حق کو ترجیح دی۔ یہ رسول اللہ ﷺ کی دور اندیشی تھی۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ عقد وکالت اس وقت مکمل ہوگا جب وکیل اسے قبول کرلے۔ (فتح الباري:621/4)والله أعلم. (3) اسماعیل کی متابعت کو امام بخاری ؒ نے خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4554) ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو طلحہ ؓ نے وہ باغ حضرت حسان بن ثابت اور ابی بن کعب ؓ میں تقسیم کیا۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ مجھے اس باغ سے کچھ نہیں ملا۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4555)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2242
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2318
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2318
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2318
تمہید کتاب
وکالت کے لغوی معنی نگرانی، حفاظت اور سپرد کرنے کے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی ایک صفت" وکیل" بھی ہے کیونکہ وہ ہمارے تمام کاموں کا نگران اور محافظ ہے۔شریعت کی اصطلاح میں " کسی آدمی کا دوسرے کو اپنا کام سپرد کرنا وکالت کہلاتا ہے۔"آدمی کو زندگی میں بے شمار ایسے کاموں سے واسطہ پڑتا ہے جن کو وہ خود انجام نہیں دیتا یا نہیں دے سکتا۔اس کی مختلف صورتیں ہیں:٭کبھی یہ ہوتا ہے کہ آدمی کو کسی کام کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کام کو خود انجام دینے کی اس میں اہلیت نہیں ہوتی۔٭ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خودایک کام میں مشغول ہوتا ہے،اس دوران میں کوئی دوسرا کام پیش آجاتا ہے ایسے کام کی انجام دہی کےلیے کسی دوسرے سے مدد لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔٭بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ کام اتنا وسیع اور پھیلا ہوتا ہے کہ اسے سرانجام دینا ایک آدمی کے بس میں نہیں ہوتا، اس لیے دوسروں کو شریک کرنا پڑتا ہے ،الغرض جو کام انسان خود کرلیتا ہے یا کرسکتا ہے اسے دوسروں سے بھی کراسکتا ہے۔شریعت میں اس کی اجازت ہے اور اسی کو وکالت کہتے ہیں۔اس کے لیے ضروری ہے کہ دوسرا آدمی اس کام کو بجالانے کی استعداد ولیاقت رکھتا ہو۔اس کے متعلق چند ایک اصطلاحات حسب ذیل ہیں:٭ جوشخص کسی دوسرے کو اپنا کام سپرد کرتا ہے یا ذمہ دار بناتا ہے اسے مؤکل کہتے ہیں۔٭ جو آدمی کام کی ذمہ داری قبول کرتا ہے یا اسے کام سونپا جاتا ہے وہ وکیل کہلاتا ہے۔٭ جس کام کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے اسے مؤکل بہ کہا جاتا ہے۔٭ دوسرے کی جگہ کام کی انجامددہی کو وکالت کہتے ہیں۔وکالت کا لفظ ہماری زبان میں عام طور پر اس پیشے پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعے سے حق کو ناحق اور سچ کو جھوٹ بتایا جاتا ہے۔اس کے ذریعے سے قاتلوں، ڈاکوؤں اور رہزنوں کو چھڑایا جاتا ہے۔اور وکیل اس شخص کو کہتے ہیں جو غیر اسلامی قانون کے ذریعے سے لوگوں کے جھوٹے سچے مقدمات کی پیروی اور نمائندگی کرے۔یہی وجہ ہے کہ جرائم میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور جرائم پیشہ لوگ شرفاء کی عزتوں سے کھیلتے نظر آتے ہیں۔شریعت میں اس قسم کا پیشہ اختیار کرنے کی ممانعت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا ﴿١٠٥﴾) آپ کو بددیانت لوگوں کی حمایت میں جھگڑا نہیں کرنا چاہیے۔"( النساء:105:4)امام بخاری رحمہ اللہ نے وکالت کے متعلق عنوان قائم کرکے اس کی حدودو شرائط کو متعین کیا ہے اور اس کے احکام ومسائل کو قرآن وحدیث کی صریح نصوص سے ثابت کیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے کل چھبیس احادیث پیش کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیس موصول ہیں۔ان میں بارہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے چھ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریباً سولہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں کچھ حسب ذیل ہیں:٭ تقسیم اور دیگر کاموں میں ایک شریک کا دوسرے شریک کو وکیل بنانا۔٭ مسلمان کے لیے جائز ہے کہ وہ دارالحرب یا داراالاسلام میں کسی حربی کو اپنا وکیل بنائے۔٭موجود اور غیر حاضر آدمی کو وکیل بنانا۔٭ کسی عورت کا حاکم وقت کو نکاح کےلیے وکیل بنانا۔٭ وقف اور اس کے اخراجات میں وکیل کا دائرۂ کار۔٭حدود کے معاملے میں وکالت۔٭قربانی کے جانوروں کی نگہداشت کےلیے وکیل بنانا۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بندوں کے مفادات اور مصالح کے پیش نظر وکالت کے متعلق متعدد احکام ذکر کیے ہیں،دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر صدق دل سے عمل کی توفیق دے ۔آمين.
تمہید باب
یعنی وکیل نے اپنی رائے سے اس مال کو کسی کام میں خرچ کیا تو یہ جائز ہے۔ آنحضرت ﷺ کو ابوطلحہ نے وکیل کیا کہ بئر حاء کو آپ جس کار خیر میں چاہیں صرف کریں۔ آپ نے ان کو یہ رائے دی کہ اپنے ہی ناتہ داروں کو بانٹ دیں۔(وحیدی)
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ حضرت ابو طلحہ ؓ مدینہ طیبہ کے انصار میں سے سب سے زیادہ مال دار تھے۔ اور ان کے نزدیک ان کا بہترین مال ان کا باغ بیرحاء تھا۔ اور وہ مسجد نبوی کے بالکل سامنے واقع تھا۔ رسول اللہ ﷺ وہاں تشریف لے جایا کرتے اور اس کا شریں پانی نوش فرماتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی۔ ﴿لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ﴾ ’’تم بھلائی ہر گز نہیں حاصل کر سکتے حتیٰ کہ اپنی محبوب چیز خرچ کرو۔‘‘ تو ابو طلحہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے۔ ﴿لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ﴾ ’’تم پوری نیکی ہر گز نہیں حاصل کر سکتے جب تک اپنا پسندیدہ مال خرچ نہ کرو۔‘‘ اور میرا محبوب ترین مال یہ باغ بیرحاءہے تو وہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے۔ میں اللہ کے ہاں اس کی نیکی اور ثواب کا امیدوار ہوں۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ !آپ جہاں چاہیں اسے خرچ کریں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بہت خوب !یہ مال تو چلا جانے والا ہے۔ یہ مال تو چلا جانےوالا ہے۔ بہر حال اس کے متعلق جو تم نے کہا اسے میں نے سن لیا ہے تاہم میری رائے ہے کہ تم اسے اپنے قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کرو۔‘‘ انھوں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !میں ایسا ہی کروں گا۔ پھر حضرت ابو طلحہ ؓ نے اپنے قریبی رشتہ داروں اور چچا کے بیٹوں میں اسے تقسیم کردیا۔ اسماعیل نے مالک سے روایت کرنے میں یحییٰ بن یحییٰ کی متابعت کی ہے اور (راوی حدیث) روح نے امام مالک سے ("رائح"کے بجائے لفظ "رابح"بیان کیا ہے۔) (اس کے معنی ہیں کہ یہ مال تو بہت نفع بخش ہے۔)
حدیث حاشیہ:
(1) اس عنوان كا مقصد یہ ہے کہ وکالت کا معاملہ اس وقت تک پورا نہیں ہوتا جب تک وکیل اس وکالت کو قبول نہ کرلے۔ ’’جو تونے کہا اسے میں نے سن لیا ہے۔‘‘ اس سے مراد وکیل کا قبول کرنا اور اس کا اظہار آمادگی ہے۔ حضرت ابو طلحہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو بیر حاء کے متعلق اپنا وکیل ٹھہرایا تو آپ نے اس وکالت کو قبول فرمایا۔ آپ نے اسے رائے دی کہ اسے اپنی قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کردیں۔ چونکہ رشتہ داروں کا حق مقدم ہے اور وہی وراثت میں حصہ پاتے ہیں، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ان کے حق کو ترجیح دی۔ یہ رسول اللہ ﷺ کی دور اندیشی تھی۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ عقد وکالت اس وقت مکمل ہوگا جب وکیل اسے قبول کرلے۔ (فتح الباري:621/4)والله أعلم. (3) اسماعیل کی متابعت کو امام بخاری ؒ نے خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4554) ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو طلحہ ؓ نے وہ باغ حضرت حسان بن ثابت اور ابی بن کعب ؓ میں تقسیم کیا۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ مجھے اس باغ سے کچھ نہیں ملا۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4555)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے یحییٰ بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے امام مالک کے سامنے قرات کی بواسطہ اسحاق بن عبداللہ کے کہ انہوں نے انس بن مالک ؓ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ ابوطلحہ ؓ مدینہ میں انصار کے سب سے مالدار لوگوں میں سے تھے۔ بیرحاء (ایک باغ) ان کا سب سے زیادہ محبوب مال تھا۔ جو مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا۔ رسول کریم ﷺ بھی وہاں تشریف لے جاتے اور اس کا نہایت میٹھا عمدہ پانی پیتے تھے۔ پھر جب قرآن کی آیت ﴿لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ﴾ اتری (تم نیکی ہرگز نہیں حاصل کرسکتے جب تک نہ خرچ کرو اللہ کی راہ میں وہ چیز جو تمہیں زیادہ پسند ہو) تو ابو طلحہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے ﴿لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ﴾ اور مجھے اپنے مال میں سب سے زیادہ پسند میرا یہی باغ بیر حاءہے۔ یہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے۔ اس کی نیکی اور ذخیرہ ثواب کی امید میں صرف اللہ تعالیٰ سے رکھتا ہوں۔ پس آپ جہاں مناسب سمجھیں اسے خرچ فر دیں۔ آپ نے فرمایا، واہ واہ ! یہ بڑا ہی نفع والا مال ہے۔ بہت ہی مفید ہے۔ اس کے بارے میں تم نے جو کچھ کہا وہ میں نے سن لیا۔ اب میں تو یہی مناسب سمجھتا ہوں کہ اسے تو اپنے رشتہ داروں ہی میں تقسیم کر دے۔ ابوطلحہ ؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ ! میں ایسا کروں گا۔ چنانچہ یہ کنواں انہوں نے پنے رشتہ داروں اور چچا کی اولاد میں تقسیم کر دیا۔ اس روایت کی متابعت اسماعیل نے مالک سے کی ہے۔ اور روح نے مالک سے (لفظ رائح کے بجائے) رابح نقل کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت ابوطلحہ ؓ نے بیر حاءکے بارے میں آنحضرت ﷺ کو وکیل ٹھہرایا اور آپ نے اسے انہی کے رشتہ داروں میں تقسیم کر دینے کا حکم فرمایا۔ اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا۔ چونکہ رشتہ داروں کا حق مقدم ہے اور وہی صاحب میراث بھی ہوتے ہیں۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے ان ہی کو ترجیح دی۔ جو رسول کریم ﷺ کی بہت ہی بڑی دور اندیشی کا ثبوت ہے۔ یہ کنواں مدینہ شریف میں حرم نبوی کے قریب اب بھی موجود ہے اور میں نے بھی وہاں حاضری کا شرف حاصل کیا ہے۔ و الحمد للہ علی ذلك۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Abu Talha was the richest man in Madinah amongst the Ansar and Beeruha' (garden) was the most beloved of his property, and it was situated opposite the mosque (of the Prophet.). Allah's Apostle (ﷺ) used to enter it and drink from its sweet water. When the following Divine Verse were revealed: 'you will not attain righteousness till you spend in charity of the things you love' (3.93), Abu Talha got up in front of Allah's Apostle (ﷺ) and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Allah says in His Book, 'You will not attain righteousness unless you spend (in charity) that which you love,' and verily, the most beloved to me of my property is Beeruha (garden), so I give it in charity and hope for its reward from Allah. O Allah's Apostle (ﷺ) ! Spend it wherever you like." Allah's Apostle (ﷺ) appreciated that and said, "That is perishable wealth, that is perishable wealth. I have heard what you have said; I suggest you to distribute it among your relatives." Abu Talha said, "I will do so, O Allah's Apostle." So, Abu Talha distributed it among his relatives and cousins. The sub-narrator (Malik) said: The Prophet (ﷺ) said: "That is a profitable wealth," instead of "perishable wealth".