Sahi-Bukhari:
Distribution of Water
(Chapter: The dams of rivers)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2359.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تین شخص ایسے ہیں جنھیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نظر کرم سے نہیں دیکھے گا اور نہ ان کو پاک ہی کرے گا بلکہ ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا: ایک وہ شخص جس کے پاس لوگوں کےراستے میں فالتو پانی ہو اور وہ مسافروں کو نہ دے۔ دوسرا وہ شخص جو امام کی بیعت صرف حصول دنیا کے لیے کرے۔ اگر امام اسے کچھ دے تو اس سے راضی رہے اور اگر نہ دے تو اس سے ناراض ہوجائے۔ تیسرا وہ شخص جو اپنا سامان فروخت لے کر نماز عصر کے بعد بیٹھ جائے اور کہے: اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں! مجھے اس سامان کے عوض اتنا اتنا مال دیا جاتا ہے تو خریدار نے اس کی بات مان لی اور اس سے مال خرید لیا۔‘‘ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’بے شک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی جھوٹی قسموں کے عوض کچھ دنیوی مال حاصل کرلیتے ہیں (تو ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا)۔‘‘
تشریح:
(1) نہریں دو قسم کی ہوتی ہیں: مملوک اور غیر مملوک۔ جو غیر مملوک ہیں ان کی پھر دو قسمیں ہیں: ایک بڑے دریا جیسے راوی اور چناب وغیرہ اور دوسرے چھوٹے چھوٹے برساتی نالے جو بارش وغیرہ سے بہہ پڑتے ہیں۔ عنوان سے مراد برساتی اور قدرتی نالے ہیں۔ ان میں پانی محض اللہ کے فضل سے آتا ہے۔ اس میں کسی کی محنت کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اس میں عوام شریک ہوتے ہیں، بظاہر ان میں کسی کو کسی وقت رکاوٹ پیدا نہیں کرنی چاہیے۔ امام بخاری ؒ نے ان برساتی نالوں کے پانی کو ضرورت کے وقت روکنے کا جواز ثابت کیا ہے۔ (2) واضح رہے کہ "حرہ" پتھریلی زمین کو کہتے ہیں۔ مدینہ طیبہ کے مشرق و مغرب میں زمین آتش فشانی لاوے پر مشتمل ہے۔ اسی علاقے کو "حرہ" کہتے ہیں۔ وہاں ایک برساتی نالا بہتا تھا جس سے حضرت زبیر ؓ اپنی زمین سیراب کرتے تھے۔ ان کا باغ بالائی علاقے میں تھا اور ایک انصاری کا باغ نشیبی علاقے میں، اس لیے حضرت زبیر ؓ پانی روک کر اپنے باغ کو سیراب کرتے تھے جبکہ انصاری کا مطالبہ تھا کہ پانی روکا نہ جائے بلکہ اسے جاری رکھا جائے۔ اس سے آگے وہی تفصیل ہے جسے حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ (3) اس سے معلوم ہوا کہ بالائی علاقے پر واقع باغ کو سیراب کرنے کے لیے برساتی نالے کو روکا جا سکتا ہے تاکہ پانی پودوں کی جڑوں تک پہنچ جائے۔ جو ندی نالے وادیوں سے نکلیں یا بارش آنے سے بہہ پڑیں ان کے متعلق ضابطہ یہ ہے کہ جس کی زمین اوپر ہو گی، اس کا حق ہے کہ پانی روک کر اپنی زمین کو سیراب کرے، اس قدر بندش کرے کہ پانی فصل کی جڑوں تک کے لیے کافی ہو پھر نیچے والے کے لیے اسے چھوڑ دے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2279
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2359
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2359
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2359
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ مساقاۃ سقي سے بنا ہے۔ اس کے معنی پانی دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں اگر کوئی شخص اپنا تیار شدہ باغ یا درخت کسی شخص کو اس شرط پر دے کہ وہ اسے پانی دے گا اور دیکھ بھال کرے گا، جو پھل ہو گا اسے دونوں تقسیم کر لیں گے تو اس معاملے کو مساقات کہا جاتا ہے۔ مساقات دراصل مزارعت ہی کی ایک قسم ہے، فرق صرف یہ ہے کہ زراعت زمین میں ہوتی ہے اور مساقات باغات وغیرہ میں۔ مزارعت کی طرح یہ معاملہ بھی جائز ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح خیبر کے بعد وہاں کے باغات یہودیوں کو دے دیے تھے کہ ان باغات میں وہ کام کریں اور جو کچھ پھل ہوں گے ان میں سے نصف ان کو دے دیے جائیں گے۔ مساقات کے شرائط و ارکان وہی ہیں جو مزارعت کے ہیں لکن امام بخاری رحمہ اللہ نے مساقات کو مخصوص اصطلاحی معنوں میں استعمال نہیں کیا بلکہ آپ نے زمین کی آبادکاری کے لیے نظام آبپاشی کی افادیت و اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے کیونکہ غلے کی پیداوار پانی کی فراہمی اور مناسب آبپاشی پر موقوف ہے۔ جب زمین کو چشموں اور نہروں کے ذریعے سے پانی کی فراوانی حاصل ہوتی ہے تو اناج غذائیت سے بھرپور پیدا ہوتا ہے۔ آبپاشی کی اہمیت کے سلسلے میں ایک واقعہ قابل ذکر ہے۔ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ، ابن ضحاک کو اپنی زمین سے نہر نکالنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: تمہیں اجازت دے دینی چاہیے کیونکہ اس میں تمہارا بھی فائدہ ہے لیکن حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس پر آمادہ نہ ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! نہر ضرور نکالی جائے گی، خواہ تمہارے پیٹ پر سے ہو کر کیوں نہ گزرے، پھر آپ نے وہاں سے نہر نکالنے کا حکم دیا۔ (موطأ امام محمد) اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت راشدہ کے دور میں زمینوں کو آباد کرنے کے لیے آبپاشی کا بندوبست ہوتا تھا۔چونکہ مزارعت اور بٹائی کے لیے پانی کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے مساقات کو وسیع معنوں میں استعمال کیا ہے۔ انہوں نے مطلق طور پر اس عنوان کے تحت پانی وغیرہ کے مسائل بیان کیے ہیں۔ آپ نے اس میں کل چھتیس احادیث ذکر کی ہیں جن میں پانچ معلق اور اکتیس موصول ہیں۔ ان میں سترہ احادیث مکرر اور انیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی دو آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تقریباً سترہ عنوان قائم کیے ہیں۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:(1) پانی پلانے کے احکام۔ (2) اپنی زمین میں کنواں کھودنے والا کسی نقصان کا ضامن نہیں ہو گا۔ (3) مسافر کو پانی نہ پلانا گناہ ہے۔ (4) نہروں کی بندش کا بیان۔ (5) پانی پلانے کی فضیلت۔ (6) نہروں سے لوگوں اور جانوروں کا پانی پلانا۔ اس عنوان کے تحت بنجر زمین آباد کرنے اور جاگیر دینے کے مسائل بھی ذکر ہوئے ہیں۔واضح رہے کہ اہل مدینہ کی مخصوص اصطلاح میں مساقات کو معاملہ، مزارعت کو مخابرہ، اجارے کو بیع، مضاربت کو مقارضہ اور نماز کو سجدہ کہا جاتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوانات اور پیش کردہ احادیث قابل مطالعہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تین شخص ایسے ہیں جنھیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نظر کرم سے نہیں دیکھے گا اور نہ ان کو پاک ہی کرے گا بلکہ ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا: ایک وہ شخص جس کے پاس لوگوں کےراستے میں فالتو پانی ہو اور وہ مسافروں کو نہ دے۔ دوسرا وہ شخص جو امام کی بیعت صرف حصول دنیا کے لیے کرے۔ اگر امام اسے کچھ دے تو اس سے راضی رہے اور اگر نہ دے تو اس سے ناراض ہوجائے۔ تیسرا وہ شخص جو اپنا سامان فروخت لے کر نماز عصر کے بعد بیٹھ جائے اور کہے: اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں! مجھے اس سامان کے عوض اتنا اتنا مال دیا جاتا ہے تو خریدار نے اس کی بات مان لی اور اس سے مال خرید لیا۔‘‘ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’بے شک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی جھوٹی قسموں کے عوض کچھ دنیوی مال حاصل کرلیتے ہیں (تو ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا)۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) نہریں دو قسم کی ہوتی ہیں: مملوک اور غیر مملوک۔ جو غیر مملوک ہیں ان کی پھر دو قسمیں ہیں: ایک بڑے دریا جیسے راوی اور چناب وغیرہ اور دوسرے چھوٹے چھوٹے برساتی نالے جو بارش وغیرہ سے بہہ پڑتے ہیں۔ عنوان سے مراد برساتی اور قدرتی نالے ہیں۔ ان میں پانی محض اللہ کے فضل سے آتا ہے۔ اس میں کسی کی محنت کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اس میں عوام شریک ہوتے ہیں، بظاہر ان میں کسی کو کسی وقت رکاوٹ پیدا نہیں کرنی چاہیے۔ امام بخاری ؒ نے ان برساتی نالوں کے پانی کو ضرورت کے وقت روکنے کا جواز ثابت کیا ہے۔ (2) واضح رہے کہ "حرہ" پتھریلی زمین کو کہتے ہیں۔ مدینہ طیبہ کے مشرق و مغرب میں زمین آتش فشانی لاوے پر مشتمل ہے۔ اسی علاقے کو "حرہ" کہتے ہیں۔ وہاں ایک برساتی نالا بہتا تھا جس سے حضرت زبیر ؓ اپنی زمین سیراب کرتے تھے۔ ان کا باغ بالائی علاقے میں تھا اور ایک انصاری کا باغ نشیبی علاقے میں، اس لیے حضرت زبیر ؓ پانی روک کر اپنے باغ کو سیراب کرتے تھے جبکہ انصاری کا مطالبہ تھا کہ پانی روکا نہ جائے بلکہ اسے جاری رکھا جائے۔ اس سے آگے وہی تفصیل ہے جسے حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ (3) اس سے معلوم ہوا کہ بالائی علاقے پر واقع باغ کو سیراب کرنے کے لیے برساتی نالے کو روکا جا سکتا ہے تاکہ پانی پودوں کی جڑوں تک پہنچ جائے۔ جو ندی نالے وادیوں سے نکلیں یا بارش آنے سے بہہ پڑیں ان کے متعلق ضابطہ یہ ہے کہ جس کی زمین اوپر ہو گی، اس کا حق ہے کہ پانی روک کر اپنی زمین کو سیراب کرے، اس قدر بندش کرے کہ پانی فصل کی جڑوں تک کے لیے کافی ہو پھر نیچے والے کے لیے اسے چھوڑ دے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، ان سے لیث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عروہ نے اور ان سے عبداللہ بن زبیر ؓ نے بیان کیا کہ ایک انصاری مرد نے زبیر ؓ سے حرہ کے نالے میں جس کا پانی مدینہ کے لوگ کھجور کے درختوں کو دیا کرتے تھے، اپنے جھگڑے کو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ انصاری زبیر سے کہنے لگا پانی کو آگے جانے دو، لیکن زبیر ؓ کو اس سے انکار تھا۔ اور یہی جھگڑا نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش تھا۔ آنحضرت ﷺ نے زبیر ؓ سے فرمایا کہ (پہلے اپنا باغ) سینچ لے پھر اپنے پڑوسی بھائی کے لیے جلدی جانے دے۔ اس پر انصاری کو غصہ آگیا اور انہوں نے کہا، ہاں زبیر آپ کی پھوپھی کے لڑکے ہیں نا۔ بس رسول اللہ ﷺ کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا۔ آپ نے فرمایا اے زبیر ! تم سیراب کر لو، پھر پانی کو اتنی دیر تک روکے رکھو کہ وہ منڈیروں تک چڑھ جائے۔ زبیر ؓ نے کہا، اللہ کی قسم ! میرا تو خیال ہے کہ یہ آیت اسی باب میں نازل ہوئی ہے ”ہرگز نہیں، تیرے رب کی قسم ! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے جھگڑوں میںتجھ کو حاکم نہ تسلیم کرلیں۔“ آخر تک۔
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث اور آیت کریمہ اطاعت رسول کریم ﷺ کی فرضیت پر ایک زبردست دلیل ہے اور اس امر پر بھی کہ جو لوگ صاف صریح واضح ارشاد نبوی سن کر اس کی تسلیم میں پس و پیش کریں وہ ایمان سے محروم ہیں۔ قرآن مجید کی اور بھی بہت سے آیات میں اس اصول کو بیان کیا گیا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے ﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا﴾(الأحزاب36) کسی بھی مومن مرد اور عورت کے لیے یہ زیبا نہیں کہ جب وہ اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ سن لے تو پھر اس کے لیے اس بارے میں کچھ اور اختیار باقی رہے جائے۔ اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ کھلا ہوا گمراہ ہے۔ اب ان لوگوں کو خود فیصلہ کرنا چاہئے جو آیات قرانی و احادیث نبوی کے خلاف اپنی رائے اور قیاس کو ترجیح دیتے ہیں یا وہ اپنے اماموں، پیروں، مرشدوں کے فتاووں کو مقدم رکھتے ہیں۔ اور احادیث صحیحہ کو مختلف حیلوں بہانوں سے ٹال دیتے ہیں۔ ان کو خود سوچنا چاہئے کہ ایک انصاری مسلمان صحابی نے جب آنحضرت ﷺ کے ایک قطعی فیصلہ کے خلاف ناراضگی کا اظہار کیا تو اللہ پاک نے کس غضبناک لہجہ میں اسے ڈانٹا اور اطاعت نبو ی کے لیے حکم فرمایا۔ جب ایک صحابی انصاری کے لیے یہ قانون ہے، تو اور کسی مسلمان کی کیا وقعت ہے کہ وہ کھلے لفظوں میں قرآن و حدیث کی مخالفت کرے اور پھر بھی ایمان کا ٹھیکدار بنا رہے۔ اس آیت شریفہ میں منکرین حدیث کو بھی ڈانٹا گیا ہے اور ان کو بتلایا گیا ہے کہ رسول کریم ﷺ جو بھی امور دینی میں ارشاد فرمائیں آپ کا وہ ارشاد بھی وحی الٰہی میں داخل ہے جس کا تسلیم کرنا اسی طرح واجب ہے جیسا کہ قرآن مجید کا تسلیم کرنا واجب ہے۔ جو لوگ حدیث نبوی کا انکار کرتے ہیں وہ قرآن مجید کے بھی منکر ہیں، قرآن و حدیث میں باہمی طور پر جسم اور روح کا تعلق ہے۔ اس حقیقت کا انکاری اپنی عقل و فہم سے دشمنی کا اظہار کرنے والا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Az-Zubair (RA): An Ansari man quarrelled with Az-Zubair in the presence of the Prophet (ﷺ) about the Harra Canals which were used for irrigating the date-palms. The Ansari man said to Az-Zubair, "Let the water pass' but Az-Zubair refused to do so. So, the case was brought before the Prophet (ﷺ) who said to Az-Zubair, "O Zubair! Irrigate (your land) and then let the water pass to your neighbor." On that the Ansari got angry and said to the Prophet, "Is it because he (i.e. Zubair) is your aunt's son?" On that the color of the face of Allah's Apostle (ﷺ) changed (because of anger) and he said, "O Zubair! Irrigate (your land) and then withhold the water till it reaches the walls between the pits round the trees." Zubair said, "By Allah, I think that the following verse was revealed on this occasion": "But no, by your Lord They can have No faith Until they make you judge In all disputes between them." (4.65)