باب : اس شخص کا بیان کہ جب اس نے جھگڑا کیا تو بد زبانی پر اتر آیا
)
Sahi-Bukhari:
Oppressions
(Chapter: The person who behaves impudently)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2459.
حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’چار باتیں ایسی ہیں کہ وہ جس کے اندرہوں وہ خالص منافق یا چار خصلتوں میں سے اگر ایک خصلت بھی ہو تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے یہاں تک کہ اس سے باز آجائے۔ جب بات کرے جھوٹ بولے۔ جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے۔ جب معاہدہ کرے تو بے وفائی کرے۔ اور جب کسی سے جھگڑا کرے تو بد زبانی کرے۔‘‘
تشریح:
(1) سچا مومن کبھی جھوٹ نہیں بولتا، اسی طرح وہ مخالفت کے اظہار میں بھی حدود کا پاس رکھتا ہے۔ آپے سے باہر ہو کر گالی گلوچ اور ناروا باتوں پر نہیں اترتا کہ وہ جھگڑے کے وقت بے لگام بن جائے اور جو منہ میں آئے بکنے لگے، کیونکہ ایسا کرنا منافقانہ خصلت ہے۔ (2) حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو مذکورہ خصلتوں پر اصرار کرتا ہے اور ان باتوں کا عادی بن چکا ہے تو ایسے شخص کو منافق کہنا بہتر ہے لیکن جو کبھی کبھار ان خصلتوں کا مرتکب ہوتا ہے اور کبھی انہیں ترک کر دیتا ہے وہ منافق نہیں، یا وہ عملی منافق ہے اعتقادی منافق نہیں۔ چونکہ یہ خصلتیں نفاق کی علامتیں ہیں، اس لیے بعض احادیث میں تین اور بعض میں چار کا ذکر ہوا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2375
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2459
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2459
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2459
تمہید کتاب
مظالم، مظلمة کی جمع ہے۔ مظلمة، مصدر میمی ہے جس کے معنی ہیں: حد سے تجاوز کرنا۔ شرعی طور پر ظلم، لوگوں پر ناحق زیادتی کرنے، کسی چیز کو بلا استحقاق لے لینے کو کہتے ہیں۔ مظلمہ اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو ناحق لے لی جائے۔ اس سے ملتا جلتا ایک لفظ غصب ہے جس کے معنی کسی کا مال زبردستی لینے کے ہیں۔ قرآن و حدیث میں ظلم اور غصب کے متعلق سخت وعید بیان ہوئی ہے۔ اگر کسی نے دوسرے پر ظلم کیا یا اس کا مال زبردستی چھین لیا تو اسے دنیا میں بھی سخت سزا دی جا سکتی ہے اور آخرت میں بھی اسے دردناک عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ غصب، ظلم ہی کی ایک بدترین قسم ہے۔ یہ اس حیثیت سے بھی ظلم ہے کہ غاصب ایک کمزور انسان کا مال ناحق استعمال کرتا ہے۔ اس سلسلے میں چند اصطلاحات حسب ذیل ہیں: ٭ غاصب: زبردستی مال چھیننے والے کو کہا جاتا ہے۔ ٭ مغصوب: وہ مال جو زبردستی چھینا گیا ہو۔ ٭ مغصوب منه: اس شخص کو کہتے ہیں جس سے مال چھینا گیا ہو۔قیامت کے دن غصب کرنے والے سے غصب کردہ مال واپس کرنے کے متعلق کہا جائے گا، وہاں اس کے پاس کوئی چیز نہیں ہو گی، لہذا اس کی نیکیوں میں سے کچھ حصہ اس شخص کو دے دیا جائے گا جس کا حق اس نے دبایا تھا۔ اگر غاصب کے نامۂ اعمال میں کوئی نیکی نہ ہوئی تو مغصوب منہ کے گناہوں کا کچھ حصہ اس کے نامۂ اعمال میں جمع کر دیا جائے گا۔ یہ اس وقت ہو گا جب ظلم کے بدلے میں ظلم نہ کیا گیا ہو اور غصب کے بدلے کوئی غصب نہ کیا گیا ہو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں ظلم و غصب کی برائی اپنے اسلوب میں بیان کی ہے اور ان سے متعلقہ مسائل و احکام واضح کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس مرفوع احادیث ذکر کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیالیس موصول ہیں۔ ان میں اٹھائیس مکرر اور بیس خالص ہیں۔ چھ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے سات آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے پینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے ظلم و غصب سے متعلق بیسیوں مسائل سے بھی آگاہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ پیش نظر رہنا چاہیے: (وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ ﴿٤٧﴾) "اور ہم قیامت کے دل عدل و انصاف پر مبنی ترازو قائم کریں گے، لہذا کسی کی کچھ بھی حق تلفی نہیں ہو گی۔ اگر ظلم رائی کے دانے کے برابر بھی ہوا تو ہم اسے بھی سامنے لائیں گے اور حساب لینے کے لیے ہم کافی ہیں۔ (الانبیاء47:21)قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ انتہائی غوروفکر سے اور سوچ سمجھ کر احادیث کا مطالعہ کریں، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’چار باتیں ایسی ہیں کہ وہ جس کے اندرہوں وہ خالص منافق یا چار خصلتوں میں سے اگر ایک خصلت بھی ہو تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے یہاں تک کہ اس سے باز آجائے۔ جب بات کرے جھوٹ بولے۔ جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے۔ جب معاہدہ کرے تو بے وفائی کرے۔ اور جب کسی سے جھگڑا کرے تو بد زبانی کرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) سچا مومن کبھی جھوٹ نہیں بولتا، اسی طرح وہ مخالفت کے اظہار میں بھی حدود کا پاس رکھتا ہے۔ آپے سے باہر ہو کر گالی گلوچ اور ناروا باتوں پر نہیں اترتا کہ وہ جھگڑے کے وقت بے لگام بن جائے اور جو منہ میں آئے بکنے لگے، کیونکہ ایسا کرنا منافقانہ خصلت ہے۔ (2) حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو مذکورہ خصلتوں پر اصرار کرتا ہے اور ان باتوں کا عادی بن چکا ہے تو ایسے شخص کو منافق کہنا بہتر ہے لیکن جو کبھی کبھار ان خصلتوں کا مرتکب ہوتا ہے اور کبھی انہیں ترک کر دیتا ہے وہ منافق نہیں، یا وہ عملی منافق ہے اعتقادی منافق نہیں۔ چونکہ یہ خصلتیں نفاق کی علامتیں ہیں، اس لیے بعض احادیث میں تین اور بعض میں چار کا ذکر ہوا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے بشر بن خالد نے بیان کیا کہا ہم کو محمد نے خبر دی شعبہ سے، انہیں سلیمان نے، انہیں عبداللہ بن مرہ نے، انہیں مسروق نے اور انہیں عبداللہ بن عمر ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا چار خصلتیں ایسی ہیں کہ جس شخص میں بھی وہ ہوں گی، وہ منافق ہوگا۔ یا ان چار میں سے اگر ایک خصلت بھی اس میں ہے تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے۔ یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے۔ جب بولے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، جب معاہدہ کرے تو بے وفائی کرے، اور جب جھگڑے تو بدزبانی پر اترآئے۔
حدیث حاشیہ:
جھگڑا بازی کرنا ہی برا ہے۔ پھر اس میں گالی گلوچ کا استعمال اتنا برا ہے کہ اسے نفاق (بے ایمانی) کی ایک علامت بتلایا گیا ہے۔ کسی اچھے مسلمان کا کام نہیں کہ وہ جھگڑے کے وقت بے لگام بن جائے اور جو بھی منہ پر آئے بکنے سے ذرا نہ شرمائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Amr (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Whoever has (the following) four characters will be a hypocrite, and whoever has one of the following four characteristics will have one characteristic of hypocrisy until he gives it up. These are: (1) Whenever he talks, he tells a lie; (2) whenever he makes a promise, he breaks it; (3) whenever he makes a covenant he proves treacherous; (4) and whenever he quarrels, he behaves impudently in an evil insulting manner." (See Hadith No. 33 Vol. 1)