باب:اس بارے میں کہ بڑے آدمی کو مسواک دینا (ادب کا تقاضا ہے)۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: To give Siwak to the oldest person of the group)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
246.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے اپنے آپ کو خواب میں مسواک کرتے دیکھا، پھر میرے پاس دو شخص آئے، ان میں ایک عمر میں دوسرے سے بڑا تھا۔ میں نے ان میں سے چھوٹے کو مسواک دے دی تو مجھے ہدایت کی گئی کہ بڑے کا لحاظ کرو، تب میں نے وہ مسواک بڑے کو دے دی۔‘‘ امام بخاری ؓ کہتے ہیں کہ نعیم نے ابن عمر ؓ سے بروایت ابن مبارک عن اسامہ عن نافع اس حدیث کو مختصر بیان کیا ہے۔
تشریح:
1۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے شرح تراجم ابواب بخاری میں لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب کوئی معمولی چیز آتی تو چھوٹوں کو عنایت فرماتے، چنانچہ جب آپ کے پاس کوئی نیا پھل آتا تو آپ وہ پھل پہلے بچوں میں تقسیم کرتے اور جب کوئی بڑی چیز آتی توبڑوں کو عنائیت فرماتے۔ اس بنا پر آپ نے مسواک کو چھوٹا خیال کیا اور چھوٹے کو دینی چاہی تو آپ کو بذریعہ وحی ہدایت کی گئی کہ بڑے کو دیجيے۔ معلوم ہوا کہ اللہ کے نزدیک بھی مسواک کی بہت فضیلت اور بڑائی ہے۔ 2۔ ابن بطال نے لکھا ہے کہ حاضرین میں سے اکابر کا حق اصاغر پر مقدم ہے اور کھانے، پینے، گفتگو وغیرہ میں بڑوں کو پہلے موقع دینا چاہیے، کیونکہ مسواک سے متعلق آپ کو حکم ہوا کہ بڑے کو دیجیے۔ ایک موقع پر آپ نے حویصہ اور محیصہ کو کہا تھا کہ بڑے کو گفتگو کا پہلے موقع دیا جائے اور یہ اسلامی آداب سے ہے، مہلب نے فرمایا کہ بڑی عمروالے کو ہر چیز میں مقدم کرنا چاہیے۔ اور یہ اس صورت میں ہے جب لوگ ترتیب سے نہ بیٹھے ہوں، جب ترتیب سے بیٹھے ہوں تو سنت کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے دائیں جانب سے آغاز کیا جائے۔ (شرح ابن بطال:364/1) 3۔ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسواک کر رہے تھے کہ آپ کے پاس دوشخص آئے جن میں سے ایک دوسرے سے بڑا تھا، اس وقت آپ کو بذریعہ وحی بتایا گیا کہ ان میں سے بڑے کو مسواک دیجيے۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث:50) حدیث الباب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ خواب کا ہے۔ اسے تعدد واقعات پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے کہ پہلے تو رسول اللہ ﷺ نے اس کو خواب میں دیکھا، پھر وہی واقعہ عالم بیداری میں پیش آیا جیسا کہ متعدد واقعات کے متعلق احادیث میں آیا ہے کہ پہلے انھیں خواب میں دیکھتے، پھر بیداری میں ان سے واسطہ پڑتا۔ (فتح الباري:464/1) 4۔ اس سے معلوم ہوا کہ دوسرے کی مسواک استعمال کرنا مکروہ نہیں، لیکن سنت یہ ہے کہ اسے دھوکر استعمال کیا جائے۔ حدیث میں حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ مجھے مسواک دیتے تاکہ میں اسے دھو دوں۔ میں اسے پہلے خود استعمال کرتی، پھر دھو کر رسول اللہ ﷺ کے حوالے کردیتی۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث:52 وعمدة القاري:694/1) اس موقع پر ارباب ’’تدبر‘‘نے بھی گوہرافشانی کی ہے، ملاحظہ فرمائیں:’’یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ اس خواب کو یہاں بیان کرنے کا موقع کیا ہے؟ اس سے یہ نتیجہ تو نہیں نکالا جاسکتا کہ آپ مسواک کررہے ہوں اور اگر کوئی دوآدمی کہیں کہ یہ ہمیں دے دوتو بڑے کو دیں اور چھوٹے کو نہ دیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ میری مسواک ہے، آپ اپنی مسواک حاصل کریں۔‘‘ (تدبرحدیث:336/1) در اصل منطقی اور فلسفی حضرات کی طرح ان ’’صاحبان تدبر‘‘ کی عقل پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ حدیث فہمی سے اللہ تعالیٰ نے انھیں محروم رکھا ہے۔ ﴿ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۖ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ﴾
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
248
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
246
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
246
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
246
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے اپنے آپ کو خواب میں مسواک کرتے دیکھا، پھر میرے پاس دو شخص آئے، ان میں ایک عمر میں دوسرے سے بڑا تھا۔ میں نے ان میں سے چھوٹے کو مسواک دے دی تو مجھے ہدایت کی گئی کہ بڑے کا لحاظ کرو، تب میں نے وہ مسواک بڑے کو دے دی۔‘‘ امام بخاری ؓ کہتے ہیں کہ نعیم نے ابن عمر ؓ سے بروایت ابن مبارک عن اسامہ عن نافع اس حدیث کو مختصر بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے شرح تراجم ابواب بخاری میں لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب کوئی معمولی چیز آتی تو چھوٹوں کو عنایت فرماتے، چنانچہ جب آپ کے پاس کوئی نیا پھل آتا تو آپ وہ پھل پہلے بچوں میں تقسیم کرتے اور جب کوئی بڑی چیز آتی توبڑوں کو عنائیت فرماتے۔ اس بنا پر آپ نے مسواک کو چھوٹا خیال کیا اور چھوٹے کو دینی چاہی تو آپ کو بذریعہ وحی ہدایت کی گئی کہ بڑے کو دیجيے۔ معلوم ہوا کہ اللہ کے نزدیک بھی مسواک کی بہت فضیلت اور بڑائی ہے۔ 2۔ ابن بطال نے لکھا ہے کہ حاضرین میں سے اکابر کا حق اصاغر پر مقدم ہے اور کھانے، پینے، گفتگو وغیرہ میں بڑوں کو پہلے موقع دینا چاہیے، کیونکہ مسواک سے متعلق آپ کو حکم ہوا کہ بڑے کو دیجیے۔ ایک موقع پر آپ نے حویصہ اور محیصہ کو کہا تھا کہ بڑے کو گفتگو کا پہلے موقع دیا جائے اور یہ اسلامی آداب سے ہے، مہلب نے فرمایا کہ بڑی عمروالے کو ہر چیز میں مقدم کرنا چاہیے۔ اور یہ اس صورت میں ہے جب لوگ ترتیب سے نہ بیٹھے ہوں، جب ترتیب سے بیٹھے ہوں تو سنت کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے دائیں جانب سے آغاز کیا جائے۔ (شرح ابن بطال:364/1) 3۔ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسواک کر رہے تھے کہ آپ کے پاس دوشخص آئے جن میں سے ایک دوسرے سے بڑا تھا، اس وقت آپ کو بذریعہ وحی بتایا گیا کہ ان میں سے بڑے کو مسواک دیجيے۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث:50) حدیث الباب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ خواب کا ہے۔ اسے تعدد واقعات پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے کہ پہلے تو رسول اللہ ﷺ نے اس کو خواب میں دیکھا، پھر وہی واقعہ عالم بیداری میں پیش آیا جیسا کہ متعدد واقعات کے متعلق احادیث میں آیا ہے کہ پہلے انھیں خواب میں دیکھتے، پھر بیداری میں ان سے واسطہ پڑتا۔ (فتح الباري:464/1) 4۔ اس سے معلوم ہوا کہ دوسرے کی مسواک استعمال کرنا مکروہ نہیں، لیکن سنت یہ ہے کہ اسے دھوکر استعمال کیا جائے۔ حدیث میں حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ مجھے مسواک دیتے تاکہ میں اسے دھو دوں۔ میں اسے پہلے خود استعمال کرتی، پھر دھو کر رسول اللہ ﷺ کے حوالے کردیتی۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث:52 وعمدة القاري:694/1) اس موقع پر ارباب ’’تدبر‘‘نے بھی گوہرافشانی کی ہے، ملاحظہ فرمائیں:’’یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ اس خواب کو یہاں بیان کرنے کا موقع کیا ہے؟ اس سے یہ نتیجہ تو نہیں نکالا جاسکتا کہ آپ مسواک کررہے ہوں اور اگر کوئی دوآدمی کہیں کہ یہ ہمیں دے دوتو بڑے کو دیں اور چھوٹے کو نہ دیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ میری مسواک ہے، آپ اپنی مسواک حاصل کریں۔‘‘ (تدبرحدیث:336/1) در اصل منطقی اور فلسفی حضرات کی طرح ان ’’صاحبان تدبر‘‘ کی عقل پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ حدیث فہمی سے اللہ تعالیٰ نے انھیں محروم رکھا ہے۔ ﴿ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۖ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ﴾
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عفان نے کہا کہ ہم سے صخر بن جویریہ نے نافع کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابن عمر ؓ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ (خواب میں) مسواک کر رہا ہوں تو میرے پاس دو آدمی آئے۔ ایک ان میں سے دوسرے سے بڑا تھا، تو میں نے چھوٹے کو مسواک دے دی۔ پھر مجھ سے کہا گیا کہ بڑے کو دو۔ تب میں نے ان میں سے بڑے کو دی۔ ابوعبداللہ بخاری کہتے ہیں کہ اس حدیث کو نعیم نے ابن المبارک سے، وہ اسامہ سے، وہ نافع سے، انھوں نے ابن عمر ؓ سے مختصر طور پر روایت کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ ایسے مواقع پر بڑے آدمی کا احترام ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہواکہ دوسرے آدمی کی مسواک بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
The Prophet (ﷺ) said, "I dreamt that I was cleaning my teeth with a Siwak and two persons came to me. One of them was older than the other and I gave the Siwak to the younger. I was told that I should give it to the older and so I did."