باب : اونچے اور پست بالاخانوں میں چھت وغیرہ پر رہنا جائز ہے نیز جھروکے اور روشندان بنانا
)
Sahi-Bukhari:
Oppressions
(Chapter: Looking or not looking upon other houses)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2469.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے قسم اٹھائی تھی کہ ایک مہینہ اپنی بیویوں کے قریب نہیں جائیں گے، اور آپ کے پاؤں کا جوڑ نکل گیا، آپ اپنے بالاخانے میں بیٹھ گئے، حضرت عمرفاروق ؓ آئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں لیکن میں نے ان کے پاس ایک ماہ کے لیے نہ جانے کی قسم اٹھائی ہے۔‘‘ چنانچہ آپ انتیس روز وہاں ٹھہرے، پھر اس بالاخانے سے اتر کر اپنی بیویوں کے پاس آئے۔
تشریح:
(1) اس روایت میں عُليه کا لفظ آیا ہے جو بالاخانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ پچھلی روایت میں مشربه کا لفظ آیا تھا جو مکان کے سامنے پینے پلانے کے کمرے کو کہتے ہیں، اسے بالاخانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اب ان کے درمیان امتیازی خصوصیت ختم ہو گئی ہے، اسے ہر کمرے کے لیے استعمال کیا جانے لگا ہے جو مہمانوں کے بیٹھنے کے لیے بنایا جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب اپنی بیویوں سے ناراض ہو کر ان سے علیحدگی اختیار کی تو اس بالاخانے میں قیام فرمایا جس کا حدیث میں ذکر ہے۔ یہ واقعہ نو ہجری کو پیش آیا لیکن راوی نے غلط فہمی کی بنا پر اس میں پاؤں میں موچ آنے کا ذکر بھی کر دیا ہے۔ پاؤں میں موچ آنے کا واقعہ پانچ ہجری کا ہے جب رسول اللہ ﷺ گھوڑے سے گِر پڑے تھے۔ ان دونوں واقعات میں چار سال کا فاصلہ ہے۔ حضرت انس ؓ سے جب حمید طویل بیان کرتے ہیں تو وہ بعض اوقات ان دونوں واقعات کو اکٹھا کر دیتے ہیں، دیگر راوی صرف قسم اٹھانے کے واقعے کو بیان کرتے ہیں۔ (2) رسول اللہ ﷺ کو جب چوٹ لگی تو اس وقت بھی آپ نے اسی بالا خانے میں آرام فرمایا تھا۔ صحابۂ کرام ؓ آپ کی تیمارداری کے لیے تشریف لاتے اور آپ اسی کمرے میں نمازیں ادا کرتے تھے۔ بہرحال امام بخاری ؒ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مکان کی چھت پر بالاخانہ بنانا جائز ہے بشرطیکہ پڑوسیوں کے حقوق متاثر نہ ہوں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2385
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2469
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2469
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2469
تمہید کتاب
مظالم، مظلمة کی جمع ہے۔ مظلمة، مصدر میمی ہے جس کے معنی ہیں: حد سے تجاوز کرنا۔ شرعی طور پر ظلم، لوگوں پر ناحق زیادتی کرنے، کسی چیز کو بلا استحقاق لے لینے کو کہتے ہیں۔ مظلمہ اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو ناحق لے لی جائے۔ اس سے ملتا جلتا ایک لفظ غصب ہے جس کے معنی کسی کا مال زبردستی لینے کے ہیں۔ قرآن و حدیث میں ظلم اور غصب کے متعلق سخت وعید بیان ہوئی ہے۔ اگر کسی نے دوسرے پر ظلم کیا یا اس کا مال زبردستی چھین لیا تو اسے دنیا میں بھی سخت سزا دی جا سکتی ہے اور آخرت میں بھی اسے دردناک عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ غصب، ظلم ہی کی ایک بدترین قسم ہے۔ یہ اس حیثیت سے بھی ظلم ہے کہ غاصب ایک کمزور انسان کا مال ناحق استعمال کرتا ہے۔ اس سلسلے میں چند اصطلاحات حسب ذیل ہیں: ٭ غاصب: زبردستی مال چھیننے والے کو کہا جاتا ہے۔ ٭ مغصوب: وہ مال جو زبردستی چھینا گیا ہو۔ ٭ مغصوب منه: اس شخص کو کہتے ہیں جس سے مال چھینا گیا ہو۔قیامت کے دن غصب کرنے والے سے غصب کردہ مال واپس کرنے کے متعلق کہا جائے گا، وہاں اس کے پاس کوئی چیز نہیں ہو گی، لہذا اس کی نیکیوں میں سے کچھ حصہ اس شخص کو دے دیا جائے گا جس کا حق اس نے دبایا تھا۔ اگر غاصب کے نامۂ اعمال میں کوئی نیکی نہ ہوئی تو مغصوب منہ کے گناہوں کا کچھ حصہ اس کے نامۂ اعمال میں جمع کر دیا جائے گا۔ یہ اس وقت ہو گا جب ظلم کے بدلے میں ظلم نہ کیا گیا ہو اور غصب کے بدلے کوئی غصب نہ کیا گیا ہو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں ظلم و غصب کی برائی اپنے اسلوب میں بیان کی ہے اور ان سے متعلقہ مسائل و احکام واضح کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس مرفوع احادیث ذکر کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیالیس موصول ہیں۔ ان میں اٹھائیس مکرر اور بیس خالص ہیں۔ چھ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے سات آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے پینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے ظلم و غصب سے متعلق بیسیوں مسائل سے بھی آگاہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ پیش نظر رہنا چاہیے: (وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ ﴿٤٧﴾) "اور ہم قیامت کے دل عدل و انصاف پر مبنی ترازو قائم کریں گے، لہذا کسی کی کچھ بھی حق تلفی نہیں ہو گی۔ اگر ظلم رائی کے دانے کے برابر بھی ہوا تو ہم اسے بھی سامنے لائیں گے اور حساب لینے کے لیے ہم کافی ہیں۔ (الانبیاء47:21)قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ انتہائی غوروفکر سے اور سوچ سمجھ کر احادیث کا مطالعہ کریں، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے قسم اٹھائی تھی کہ ایک مہینہ اپنی بیویوں کے قریب نہیں جائیں گے، اور آپ کے پاؤں کا جوڑ نکل گیا، آپ اپنے بالاخانے میں بیٹھ گئے، حضرت عمرفاروق ؓ آئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں لیکن میں نے ان کے پاس ایک ماہ کے لیے نہ جانے کی قسم اٹھائی ہے۔‘‘ چنانچہ آپ انتیس روز وہاں ٹھہرے، پھر اس بالاخانے سے اتر کر اپنی بیویوں کے پاس آئے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس روایت میں عُليه کا لفظ آیا ہے جو بالاخانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ پچھلی روایت میں مشربه کا لفظ آیا تھا جو مکان کے سامنے پینے پلانے کے کمرے کو کہتے ہیں، اسے بالاخانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اب ان کے درمیان امتیازی خصوصیت ختم ہو گئی ہے، اسے ہر کمرے کے لیے استعمال کیا جانے لگا ہے جو مہمانوں کے بیٹھنے کے لیے بنایا جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب اپنی بیویوں سے ناراض ہو کر ان سے علیحدگی اختیار کی تو اس بالاخانے میں قیام فرمایا جس کا حدیث میں ذکر ہے۔ یہ واقعہ نو ہجری کو پیش آیا لیکن راوی نے غلط فہمی کی بنا پر اس میں پاؤں میں موچ آنے کا ذکر بھی کر دیا ہے۔ پاؤں میں موچ آنے کا واقعہ پانچ ہجری کا ہے جب رسول اللہ ﷺ گھوڑے سے گِر پڑے تھے۔ ان دونوں واقعات میں چار سال کا فاصلہ ہے۔ حضرت انس ؓ سے جب حمید طویل بیان کرتے ہیں تو وہ بعض اوقات ان دونوں واقعات کو اکٹھا کر دیتے ہیں، دیگر راوی صرف قسم اٹھانے کے واقعے کو بیان کرتے ہیں۔ (2) رسول اللہ ﷺ کو جب چوٹ لگی تو اس وقت بھی آپ نے اسی بالا خانے میں آرام فرمایا تھا۔ صحابۂ کرام ؓ آپ کی تیمارداری کے لیے تشریف لاتے اور آپ اسی کمرے میں نمازیں ادا کرتے تھے۔ بہرحال امام بخاری ؒ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مکان کی چھت پر بالاخانہ بنانا جائز ہے بشرطیکہ پڑوسیوں کے حقوق متاثر نہ ہوں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، کہا ہم سے مروان بن معاویہ فزاری نے بیان کیا، ان سے حمید نے اور ان سے انس ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج کے پاس ایک مہینہ تک نہ جانے کی قسم کھائی تھی، اور (ایلاءکے واقعہ سے پہلے ۵ھ میں) آپ ﷺ کے قدم مبارک میں موچ آگئی تھی۔ اور آپ اپنے بالا خانہ میں قیام پذیر ہوئے تھے۔ (ایلاءکے موقع پر) حضرت عمر ؓ آئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ! کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ البتہ ایک مہینے کے لیے ان کے پاس نہ جانے کی قسم کھا لی ہے۔ چنانچہ آپ انتیس دن تک بیویوں کے پاس نہیں گئے (اور انتیس تاریخ کو ہی چاند ہوگیا تھا) اس لیے آپ بالا خانے سے اترے اور بیویوں کے پاس گئے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): Allah's Apostle (ﷺ) took an oath that he would not go to his wives for one month as his foot had been sprained. He stayed in an upper room when 'Umar went to him and said, "Have you divorced your wives?" He said, "No, but I have taken an oath that I would not go to them for one month." The Prophet (ﷺ) stayed there for twenty-nine days, and then came down and went to his wives.