مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عبادہؓ نے کہا، ہم نے نبی کریم ﷺ سے اس بات کی بیعت کی تھی کہ لوٹ مار نہیں کیا کریں گے۔
2475.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’زنا کرنے والا جس وقت زنا کرتا ہے وہ مومن نہیں ہوتا۔ شراب پینے والا جب شراب نوشی کرتا ہے تو ایماندار نہیں رہتا اور جو چور جس وقت چوری کرتا ہے اس وقت مومن نہیں ہوتا اور لوٹنے والا جب کوئی ایسی چیز لوٹتا ہے جس کی طرف لوگ آنکھ کو اٹھا کر دیکھتے ہیں تو اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا۔‘‘ سعید اور ابو سلمہ نے بھی حضرت ابو ہریرہ ؓ سے، انھوں نے نبی ﷺ سے ایسی ہی روایت بیان کی ہے لیکن اس میں لوٹ مار کا ذکر نہیں۔ فربری کہتے ہیں۔ میں نے ابو جعفر کے خط کی عبارت بایں الفاظ پائی ہے۔ ابو عبد اللہ (امام بخاری) فرماتے ہیں کہ ایسے انسان سے نورایمان سلب کر لیا جاتاہے۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے لوٹ مار کرنے کی سنگینی کا پتہ چلتا ہے کہ اس قسم کی جسارت سے انسان ایمان جیسی نعمت سے محروم ہو جاتا ہے اور جب تک توبہ نہ کر لے اس نعمت سے محروم ہی رہتا ہے۔ ایسا انسان اگر اسلام کا دعوے دار ہے تو اسے جھوٹا قرار دیا جائے گا۔ (2) اسلام میں ڈاکوؤں اور راہزنوں کے لیے انتہائی سخت سزائیں ہیں تاکہ انسانی معاشرہ امن کے ساتھ زندگی بسر کر سکے۔ انہی قوانین کی برکت ہے کہ آج بھی حکومت سعودیہ کا امن ساری دنیا کے لیے ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے جبکہ بزعم خویش مہذب حکومتوں کا ڈاکا زنی کے لیے مختلف صورتیں رائج ہیں اور چوری ایک پیشے کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ ہماری فوج اور پولیس ایسے جرائم پیشہ لوگوں کے سامنے بےبس اور لاچار نظر آتی ہے۔ بہرحال امام بخاری ؒنے اس جرم کی سنگینی بیان کرنے کے لیے مذکورہ عنوان اور احادیث پیش کی ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2391
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2475
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2475
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2475
تمہید کتاب
مظالم، مظلمة کی جمع ہے۔ مظلمة، مصدر میمی ہے جس کے معنی ہیں: حد سے تجاوز کرنا۔ شرعی طور پر ظلم، لوگوں پر ناحق زیادتی کرنے، کسی چیز کو بلا استحقاق لے لینے کو کہتے ہیں۔ مظلمہ اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو ناحق لے لی جائے۔ اس سے ملتا جلتا ایک لفظ غصب ہے جس کے معنی کسی کا مال زبردستی لینے کے ہیں۔ قرآن و حدیث میں ظلم اور غصب کے متعلق سخت وعید بیان ہوئی ہے۔ اگر کسی نے دوسرے پر ظلم کیا یا اس کا مال زبردستی چھین لیا تو اسے دنیا میں بھی سخت سزا دی جا سکتی ہے اور آخرت میں بھی اسے دردناک عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ غصب، ظلم ہی کی ایک بدترین قسم ہے۔ یہ اس حیثیت سے بھی ظلم ہے کہ غاصب ایک کمزور انسان کا مال ناحق استعمال کرتا ہے۔ اس سلسلے میں چند اصطلاحات حسب ذیل ہیں: ٭ غاصب: زبردستی مال چھیننے والے کو کہا جاتا ہے۔ ٭ مغصوب: وہ مال جو زبردستی چھینا گیا ہو۔ ٭ مغصوب منه: اس شخص کو کہتے ہیں جس سے مال چھینا گیا ہو۔قیامت کے دن غصب کرنے والے سے غصب کردہ مال واپس کرنے کے متعلق کہا جائے گا، وہاں اس کے پاس کوئی چیز نہیں ہو گی، لہذا اس کی نیکیوں میں سے کچھ حصہ اس شخص کو دے دیا جائے گا جس کا حق اس نے دبایا تھا۔ اگر غاصب کے نامۂ اعمال میں کوئی نیکی نہ ہوئی تو مغصوب منہ کے گناہوں کا کچھ حصہ اس کے نامۂ اعمال میں جمع کر دیا جائے گا۔ یہ اس وقت ہو گا جب ظلم کے بدلے میں ظلم نہ کیا گیا ہو اور غصب کے بدلے کوئی غصب نہ کیا گیا ہو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں ظلم و غصب کی برائی اپنے اسلوب میں بیان کی ہے اور ان سے متعلقہ مسائل و احکام واضح کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس مرفوع احادیث ذکر کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیالیس موصول ہیں۔ ان میں اٹھائیس مکرر اور بیس خالص ہیں۔ چھ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے سات آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے پینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے ظلم و غصب سے متعلق بیسیوں مسائل سے بھی آگاہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ پیش نظر رہنا چاہیے: (وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ ﴿٤٧﴾) "اور ہم قیامت کے دل عدل و انصاف پر مبنی ترازو قائم کریں گے، لہذا کسی کی کچھ بھی حق تلفی نہیں ہو گی۔ اگر ظلم رائی کے دانے کے برابر بھی ہوا تو ہم اسے بھی سامنے لائیں گے اور حساب لینے کے لیے ہم کافی ہیں۔ (الانبیاء47:21)قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ انتہائی غوروفکر سے اور سوچ سمجھ کر احادیث کا مطالعہ کریں، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
تمہید باب
اس روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی کتاب المناقب، حدیث: 3893 کے تحت متصل سند سے بیان کیا ہے۔
اور عبادہؓ نے کہا، ہم نے نبی کریم ﷺ سے اس بات کی بیعت کی تھی کہ لوٹ مار نہیں کیا کریں گے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’زنا کرنے والا جس وقت زنا کرتا ہے وہ مومن نہیں ہوتا۔ شراب پینے والا جب شراب نوشی کرتا ہے تو ایماندار نہیں رہتا اور جو چور جس وقت چوری کرتا ہے اس وقت مومن نہیں ہوتا اور لوٹنے والا جب کوئی ایسی چیز لوٹتا ہے جس کی طرف لوگ آنکھ کو اٹھا کر دیکھتے ہیں تو اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا۔‘‘ سعید اور ابو سلمہ نے بھی حضرت ابو ہریرہ ؓ سے، انھوں نے نبی ﷺ سے ایسی ہی روایت بیان کی ہے لیکن اس میں لوٹ مار کا ذکر نہیں۔ فربری کہتے ہیں۔ میں نے ابو جعفر کے خط کی عبارت بایں الفاظ پائی ہے۔ ابو عبد اللہ (امام بخاری) فرماتے ہیں کہ ایسے انسان سے نورایمان سلب کر لیا جاتاہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے لوٹ مار کرنے کی سنگینی کا پتہ چلتا ہے کہ اس قسم کی جسارت سے انسان ایمان جیسی نعمت سے محروم ہو جاتا ہے اور جب تک توبہ نہ کر لے اس نعمت سے محروم ہی رہتا ہے۔ ایسا انسان اگر اسلام کا دعوے دار ہے تو اسے جھوٹا قرار دیا جائے گا۔ (2) اسلام میں ڈاکوؤں اور راہزنوں کے لیے انتہائی سخت سزائیں ہیں تاکہ انسانی معاشرہ امن کے ساتھ زندگی بسر کر سکے۔ انہی قوانین کی برکت ہے کہ آج بھی حکومت سعودیہ کا امن ساری دنیا کے لیے ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے جبکہ بزعم خویش مہذب حکومتوں کا ڈاکا زنی کے لیے مختلف صورتیں رائج ہیں اور چوری ایک پیشے کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ ہماری فوج اور پولیس ایسے جرائم پیشہ لوگوں کے سامنے بےبس اور لاچار نظر آتی ہے۔ بہرحال امام بخاری ؒنے اس جرم کی سنگینی بیان کرنے کے لیے مذکورہ عنوان اور احادیث پیش کی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عبادہ بن صامت ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ کے ہاتھ پر اس امر کے متعلق بیعت کی کہ لوٹ کھسوٹ نہیں کریں گے۔ (ڈاکہ نہیں ڈالیں گے۔ )
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابوبکر بن عبدالرحمن نے، ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، زانی مومن رہتے ہوئے زنا نہیں کرسکتا۔ شراب خوار مومن رہتے ہوئے شراب نہیں پی سکتا۔ چور مومن رہتے ہوئے چوری نہیں کرسکتا۔ اور کوئی شخص مومن رہتے ہوئے لوٹ اور غارت گری نہیں کرسکتا کہ لوگوں کی نظریں اس کی طرف اٹھی ہوئی ہوں اور وہ لوٹ رہا ہو، سعید اور ابوسلمہ کی بھی ابوہریرہ ؓ سے بحوالہ نبی کریم ﷺ اسی طرح روایت ہے۔ البتہ ان کی روایت میں لوٹ کا تذکرہ نہیں ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غارت گری کرنے والا، چوری کرنے والا، لوٹ مار کرنے والا اگر یہ مدعیان اسلام ہیں تو سراسر اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں۔ ایسے افعال کا مرتکب ایمان کے دعویٰ میں جھوٹا ہے، یہی حال زنا کاری، شراب خوری کا ہے۔ ایسے لوگ دعویٰ اسلام و ایمان میں جھوٹے مکار فریبی ہیں۔ مسلمان صاحب ایمان سے اگر کبھی کوئی غلط کام ہو بھی جائے تو حد درجہ پشیمان ہو کر پھر ہمیشہ کے لیے تائب ہو جاتا ہے اور اپنے گناہ کے لیے استغفار میں منہمک رہتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "When an adulterer commits illegal sexual intercourse, then he is not a believer at the time, he is doing it, and when a drinker of an alcoholic liquor drinks it, then he is not a believer at the time of drinking it, and when a thief steals, then he is not a believer at the time of stealing, and when a robber robs, and the people look at him, then he is not a believer at the time of doing robbery.