Sahi-Bukhari:
Oppressions
(Chapter: The breaking of the cross and the killing of the pigs)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2476.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی حتی کہ تم میں ابن مریم ایک منصف حاکم بن کر نمودار ہو جائیں۔ وہ صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے، نیز جزیہ ختم کردیں گے۔ اس وقت مال کی بہتات ہوگی یہاں تک کہ اسے کوئی قبول کرنے والا نہیں ہوگا۔‘‘
تشریح:
(1) صلیب، نصرانیوں کا شعار اور ان کی مذہبی علامت ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ کا جب ظہور ہو گا تو وہ دین محمدی پر عمل کریں گے اور غیر اسلامی نشانات ختم کر دیں گے۔ ان حالات میں اگر کوئی صلیب توڑ ڈالے اور خنزیر قتل کر دے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہو گا۔ اس وقت تمام عیسائی اور یہودی مسلمانوں سے برسر پیکار ہوں گے۔ خلافت اسلامیہ کے ساتھ جب دوسری قومیں جنگ و قتال پر اتر آئیں اور انہیں نقصان پہنچانے کے لیے کوشاں ہوں تو حربی اقوام کے ساتھ ایسا برتاؤ جائز ہے۔ اگر وہ عیسائی ہوں تو ان کے ساتھ بھی یہی معاملہ کیا جائے گا۔ امن پسند غیر مسلم اقوام اور ذمی حضرات کی جان و مال اور عزت و آبرو اور ان کے مذہب کو اسلام نے پوری پوری آزادی عطا فرمائی ہے۔ (2) اسلام میں اگرچہ اہل کتاب سے جزیہ قبول کر لیا جاتا ہے اور انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جاتا لیکن یہ حکم حضرت عیسیٰ ؑ کے نزول کے وقت ختم ہو جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی فرمایا ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2392
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2476
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2476
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2476
تمہید کتاب
مظالم، مظلمة کی جمع ہے۔ مظلمة، مصدر میمی ہے جس کے معنی ہیں: حد سے تجاوز کرنا۔ شرعی طور پر ظلم، لوگوں پر ناحق زیادتی کرنے، کسی چیز کو بلا استحقاق لے لینے کو کہتے ہیں۔ مظلمہ اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو ناحق لے لی جائے۔ اس سے ملتا جلتا ایک لفظ غصب ہے جس کے معنی کسی کا مال زبردستی لینے کے ہیں۔ قرآن و حدیث میں ظلم اور غصب کے متعلق سخت وعید بیان ہوئی ہے۔ اگر کسی نے دوسرے پر ظلم کیا یا اس کا مال زبردستی چھین لیا تو اسے دنیا میں بھی سخت سزا دی جا سکتی ہے اور آخرت میں بھی اسے دردناک عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ غصب، ظلم ہی کی ایک بدترین قسم ہے۔ یہ اس حیثیت سے بھی ظلم ہے کہ غاصب ایک کمزور انسان کا مال ناحق استعمال کرتا ہے۔ اس سلسلے میں چند اصطلاحات حسب ذیل ہیں: ٭ غاصب: زبردستی مال چھیننے والے کو کہا جاتا ہے۔ ٭ مغصوب: وہ مال جو زبردستی چھینا گیا ہو۔ ٭ مغصوب منه: اس شخص کو کہتے ہیں جس سے مال چھینا گیا ہو۔قیامت کے دن غصب کرنے والے سے غصب کردہ مال واپس کرنے کے متعلق کہا جائے گا، وہاں اس کے پاس کوئی چیز نہیں ہو گی، لہذا اس کی نیکیوں میں سے کچھ حصہ اس شخص کو دے دیا جائے گا جس کا حق اس نے دبایا تھا۔ اگر غاصب کے نامۂ اعمال میں کوئی نیکی نہ ہوئی تو مغصوب منہ کے گناہوں کا کچھ حصہ اس کے نامۂ اعمال میں جمع کر دیا جائے گا۔ یہ اس وقت ہو گا جب ظلم کے بدلے میں ظلم نہ کیا گیا ہو اور غصب کے بدلے کوئی غصب نہ کیا گیا ہو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں ظلم و غصب کی برائی اپنے اسلوب میں بیان کی ہے اور ان سے متعلقہ مسائل و احکام واضح کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس مرفوع احادیث ذکر کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیالیس موصول ہیں۔ ان میں اٹھائیس مکرر اور بیس خالص ہیں۔ چھ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے سات آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے پینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے ظلم و غصب سے متعلق بیسیوں مسائل سے بھی آگاہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ پیش نظر رہنا چاہیے: (وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ ﴿٤٧﴾) "اور ہم قیامت کے دل عدل و انصاف پر مبنی ترازو قائم کریں گے، لہذا کسی کی کچھ بھی حق تلفی نہیں ہو گی۔ اگر ظلم رائی کے دانے کے برابر بھی ہوا تو ہم اسے بھی سامنے لائیں گے اور حساب لینے کے لیے ہم کافی ہیں۔ (الانبیاء47:21)قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ انتہائی غوروفکر سے اور سوچ سمجھ کر احادیث کا مطالعہ کریں، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
تمہید باب
خلافت اسلامی سے جب غیر قومیں برسرپیکار ہوں اور اسلام اور مسلمانوں کونقصان پہنچانے کے لیے کوشاں ہوں اور اللہ پاک مسلمانوں کو غلبہ نصیب کرے تو حربی قوموں کے ساتھ ایسے برتاؤ جائز ہیں۔ اگر وہ عیسائی ہیں تو ان کے ساتھ یہ معاملہ کیا جائے گا۔ امن پسند غیر مسلموں اور ذمیوں کی جان مال اور ان کے مذہب کو اسلام نے پوری پوری آزادی عطا فرمائی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی حتی کہ تم میں ابن مریم ایک منصف حاکم بن کر نمودار ہو جائیں۔ وہ صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے، نیز جزیہ ختم کردیں گے۔ اس وقت مال کی بہتات ہوگی یہاں تک کہ اسے کوئی قبول کرنے والا نہیں ہوگا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) صلیب، نصرانیوں کا شعار اور ان کی مذہبی علامت ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ کا جب ظہور ہو گا تو وہ دین محمدی پر عمل کریں گے اور غیر اسلامی نشانات ختم کر دیں گے۔ ان حالات میں اگر کوئی صلیب توڑ ڈالے اور خنزیر قتل کر دے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہو گا۔ اس وقت تمام عیسائی اور یہودی مسلمانوں سے برسر پیکار ہوں گے۔ خلافت اسلامیہ کے ساتھ جب دوسری قومیں جنگ و قتال پر اتر آئیں اور انہیں نقصان پہنچانے کے لیے کوشاں ہوں تو حربی اقوام کے ساتھ ایسا برتاؤ جائز ہے۔ اگر وہ عیسائی ہوں تو ان کے ساتھ بھی یہی معاملہ کیا جائے گا۔ امن پسند غیر مسلم اقوام اور ذمی حضرات کی جان و مال اور عزت و آبرو اور ان کے مذہب کو اسلام نے پوری پوری آزادی عطا فرمائی ہے۔ (2) اسلام میں اگرچہ اہل کتاب سے جزیہ قبول کر لیا جاتا ہے اور انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جاتا لیکن یہ حکم حضرت عیسیٰ ؑ کے نزول کے وقت ختم ہو جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی فرمایا ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی، انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے سنا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا، قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک ابن مریم کا نزول ایک عادل حکمران کی حیثیت سے تم میں نہ ہو لے۔ وہ صلیب کو توڑ دیں گے، سوروں کو قتل کردیں گے اور جزیہ قبول نہیں کریں گے۔ (اس دور میں) مال و دولت کی اتنی کثرت ہو جائے گی کہ کوئی قبول نہیں کرے گا۔
حدیث حاشیہ:
یہ نہایت صحیح اور متصل حدیث ہے اور اس کے راوی سب ثقہ اور امام ہیں۔ ا س میں صاف لفظوں میں یہ مذکور ہے کہ قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ ؑ دنیا میں نازل ہوں گے۔ اس سے صاف معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ ؑ آسمان پر زندہ موجود ہیں اور حق تعالی ٰنے ان کو زندہ آسمان کی طر ف اٹھا لیا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں مذکور ہے۔ صلیب اور تثلیت نصرانیوں کی مذہبی علامت ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ آخر زمانہ میں آسمان سے دنیا میں آکر دین محمدی پر عمل کریں گے اور غیر اسلامی نشانات کو ختم کر ڈالیں گے۔ اس باب کو منعقد کرنے اور اس حدیث کو یہاں لانے سے حضرت امام بخاری ؒ کی غرض یہ ہے کہ اگر کوئی صلیب کو توڑ ڈالے یا سور کو مار ڈالے تو اس پر ضمان نہ ہوگا۔ قسطلانی ؒنے کہا کہ یہ جب ہے کہ وہ حربیوں کا مال ہو، اگر ذمی کا مال ہو جس نے اپنی شرائط سے انحراف نہ کیا ہو اور عہد پر قائم ہو تو ایسا کرنا درست نہیں ہے کیوں کہ ذمیوں کے مذہبی حقوق اسلام نے قائم رکھے ہیں اور ان کے مال و جان اور مذہب کی حفاظت کے لیے پوری گارنٹی دی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "The Hour will not be established until the son of Mary (i.e. Jesus) descends amongst you as a just ruler, he will break the cross, kill the pigs, and abolish the Jizya tax. Money will be in abundance so that nobody will accept it (as charitable gifts).