Sahi-Bukhari:
Partnership
(Chapter: Division of sheep)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2488.
حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ مقام ذوالحلیفہ میں تھے۔ اس دوران میں لوگوں کو بھوک نے ستایا تو انھیں کچھ اونٹ اور بکریاں ہاتھ لگے۔ راوی کہتا ہے کہ اس وقت نبی ﷺ لوگوں سے پیچھے تھے۔ اس لیے لوگوں نے جلدی کی اور جانوروں کو ذبح کر ڈالا اور ہانڈیاں چڑھا دیں۔ نبی ﷺ (جب تشریف لائے تو آپ)نے حکم دیا کہ ان ہانڈیوں کو الٹ دیا جائے، چنانچہ انھیں الٹ دیا گیا۔ پھر آپ نے تقسیم فرمائی تو دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دیا۔ اتفاقاً ایک اونٹ بھاگ نکلا تو لوگ اس کے پیچھے دوڑے جس نے ان کو تھکا دیا۔ اس وقت لشکر میں گھوڑے بھی کم تھے۔ آخر کارایک شخص نے اسے تیر ماراتو اللہ تعالیٰ نے اسے روک دیا۔ آپ ﷺ نے فر مایا : ’’وحشی جانوروں کی طرح ان میں بھی کچھ وحشی ہوتے ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی بے قابو ہو جائے تو اس کے ساتھ ایسا ہی کیا کرو۔‘‘ میں نے کہا: ہمیں اندیشہ ہے کہ کل دشمن سے مڈبھیڑ ہو گی اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں تو کیا ہم بانس کی کھپچی سے ذبح کرلیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو چیز خون بہادے وہ استعمال کر سکتے ہو۔ اور جس جانور پر اللہ کا نام لیا گیا ہواسے کھاسکتے ہو۔ البتہ دانت اور ناخن سے ذبح نہ کرو۔ میں تمھیں اس کی وجہ بھی بیان کرتا ہوں کہ دانت تو ایک ہڈی ہے اور ناخن، کفار حبشہ کی چھری ہے(جس سے وہ ذبح کرتے ہیں)۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ اندازے سے تقسیم کا جواز ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تقسیم کے وقت دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دیا ہے اور بکریوں کے قد ایک جیسے نہیں ہوتے اور طاقت کے اعتبار سے بھی ان میں فرق ہوتا ہے۔ اس طرح اونٹوں کا معاملہ ہے، لیکن تقسیم کرتے وقت اس قسم کے فرق کا اعتبار نہیں کیا گیا۔ معلوم ہوا کہ جانوروں کی قیمت مقرر کرنے کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ جب ایسا کیا جائے گا تو اس اندازے سے کیا جائے گا کہ اس حیثیت کا اونٹ ہے اور اس حیثیت کی بکریاں ہیں۔ اونٹ اور بکریوں کی مختلف اقسام ہیں۔ دونوں کی حیثیت دیکھ کر قیمت مقرر کی جائے گی۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ قیمت کا تعین کر کے جانوروں کا تبادلہ ہو گا۔ اس سے بہت دشواریاں پیدا ہو سکتی ہیں، اس لیے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ بکریوں کی تقسیم تعداد کے اعتبار سے ہے، اس میں قیمت کا لحاظ نہیں کیا جائے گا۔ (2) واضح رہے کہ اختیاری حالات میں تو جانور کو گلے ہی سے ذبح کیا جائے گا، البتہ اضطراری حالات میں کسی بھی مقام سے ذبح کیا جا سکتا ہے، نیز ذبح کرتے وقت بسم الله الله أكبر کہنا بھی ضروری ہے۔ اگر کوئی بسم الله بھول جائے یا اسے شک ہو کہ تکبیر پڑھی ہے یا نہیں تو کھاتے وقت بسم الله پڑھ لی جائے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2404
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2488
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2488
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2488
تمہید کتاب
لغوی طور پر "شراکت" کے معنی شامل ہونے کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں دو یا زیادہ افراد کا ایک چیز میں حق دار ہونا شراکت کہلاتا ہے۔ شراکت کی دو بڑی قسمیں ہیں: ٭ شرکتِ املاک۔ ٭ شرکت عقود۔٭ شرکتِ املاک: ملکیت میں شرکت، مثلاً: چند آدمیوں کو وراثت میں یا بطور ہبہ کوئی جائیداد یا نقد روپیہ ملا یا انہوں نے مل کر کوئی چیز خریدی، تو ملکیت میں سب شریک ہوں گے۔ اس میں ایجاب و قبول نہیں ہوتا۔ اس کی مزید دو قسمیں ہیں: ٭ اختیاری ٭ غیر اختیاری۔ اختیاری یہ ہے کہ شرکاء مل کر کوئی جائیداد خرید لیں اور غیر اختیاری یہ ہے کہ شرکاء کی مرضی اور اختیار کے بغیر ہی انہیں کسی چیز میں شریک مان لیا جائے، مثلاً: وراثت میں ملنے والے مال میں شریک ہو جائیں۔ شراکت کی اس قسم کا حکم یہ ہے کہ جتنے لوگ شریک ہوں، ان میں سے کسی ایک کو مشترکہ جائیداد میں تصرف کا حق نہیں ہے الا یہ کہ تمام شرکاء اجازت دے دیں۔٭ شرکتِ عقود: اس شرکت میں تمام شرکاء باہمی طور پر ایک معاہدے کے ذریعے سے ایک دوسرے سے بندھ جاتے ہیں اور اس کی شرائط کے پابند ہوتے ہیں۔ اس میں ایجاب و قبول ضروری ہے۔ اس میں دو یا دو سے زیادہ آدمی تھوڑا تھوڑا مال فراہم کر کے آپس میں یہ طے کر لیں کہ ہم سب مل کر اس مال سے فلاں کام کریں گے اور جو نفع ہو گا اسے آپس میں مناسب شرح میں تقسیم کر لیں گے۔ یہ اقرار زبانی بھی ہو سکتا ہے اور تحریری بھی، لیکن موجودہ دور میں شرکت عقود کو تحریر میں لانا بہت ضروری ہے۔ اس معاہدے میں ہر فرد کو یہ حق ہوتا ہے کہ جب چاہے اس معاہدے کو ختم کر کے شراکت سے الگ ہو جائے لیکن دوسرے شرکاء کو قبل از وقت مطلع کرنا ضروری ہے۔ اگر شرکاء میں سے کوئی فوت ہو جائے تو معاہدہ خود بخود ختم ہو جاتا ہے لیکن متوفی کے ورثاء چاہیں تو اس کی تجدید کر کے اس میں شریک ہو سکتے ہیں۔شراکت کا کاروبار بڑے پیمانے پر چلانے کے لیے شرکاء میں سے چند آدمیوں کو کاروبار چلانے کی ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے۔ چونکہ ان کا وقت زیادہ خرچ ہو گا یا وہ اضافی صلاحیت رکھتے ہوں گے، اس لیے انہیں منافع سے کچھ زیادہ حصہ بھی دیا جا سکتا ہے۔یہ شراکت مال میں بھی ہو سکتی ہے اور جسمانی محنت میں بھی۔ شراکت میں سرمائے کا برابر ہونا ضروری نہیں اور نہ نفع ہی میں برابری شرط ہے، تاہم منافع کی تقسیم اور اس کی مقدار روز اول ہی سے صاف صاف بیان کر دینا ضروری ہے کہ کس کو کتنا ملے گا، نیز اس میں ہر ایک شریک مشترکہ مال کا امین بھی ہوتا ہے اور وکیل بھی۔ امین کی حیثیت سے مال کی حفاظت کرنا ہو گی اور وکیل کی حیثیت سے ہر ایک کو کاروبار کے نظم اور تصرف میں برابر کا اختیار حاصل ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے شراکت کے متعلق ضروری ضروری اقسام و مسائل سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ستائیس مرفوع احادیث اور ایک اثر بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث میں ایک معلق اور باقی چھبیس متصل اسانید سے مروی ہیں۔ ان میں تیرہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔ احادیث پر سولہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے گئے ہیں، جن میں چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ کھانے، زاد سفر اور دیگر اسباب میں شرکت۔ ٭ بکریوں کی تقسیم۔ ٭ تقسیم میں قرعہ اندازی۔ ٭ شرکاء میں منصفانہ قیمت ٹھہرانا۔ ٭ زمین کے معاملات میں شراکت۔ ٭ تقسیم کے بعد رجوع نہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی باریک بینی سے احکام شراکت کو مرتب فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے مطابق ہمیں عمل کی توفیق دے۔ والله ولي التوفيق وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم
حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ مقام ذوالحلیفہ میں تھے۔ اس دوران میں لوگوں کو بھوک نے ستایا تو انھیں کچھ اونٹ اور بکریاں ہاتھ لگے۔ راوی کہتا ہے کہ اس وقت نبی ﷺ لوگوں سے پیچھے تھے۔ اس لیے لوگوں نے جلدی کی اور جانوروں کو ذبح کر ڈالا اور ہانڈیاں چڑھا دیں۔ نبی ﷺ (جب تشریف لائے تو آپ)نے حکم دیا کہ ان ہانڈیوں کو الٹ دیا جائے، چنانچہ انھیں الٹ دیا گیا۔ پھر آپ نے تقسیم فرمائی تو دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دیا۔ اتفاقاً ایک اونٹ بھاگ نکلا تو لوگ اس کے پیچھے دوڑے جس نے ان کو تھکا دیا۔ اس وقت لشکر میں گھوڑے بھی کم تھے۔ آخر کارایک شخص نے اسے تیر ماراتو اللہ تعالیٰ نے اسے روک دیا۔ آپ ﷺ نے فر مایا : ’’وحشی جانوروں کی طرح ان میں بھی کچھ وحشی ہوتے ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی بے قابو ہو جائے تو اس کے ساتھ ایسا ہی کیا کرو۔‘‘ میں نے کہا: ہمیں اندیشہ ہے کہ کل دشمن سے مڈبھیڑ ہو گی اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں تو کیا ہم بانس کی کھپچی سے ذبح کرلیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو چیز خون بہادے وہ استعمال کر سکتے ہو۔ اور جس جانور پر اللہ کا نام لیا گیا ہواسے کھاسکتے ہو۔ البتہ دانت اور ناخن سے ذبح نہ کرو۔ میں تمھیں اس کی وجہ بھی بیان کرتا ہوں کہ دانت تو ایک ہڈی ہے اور ناخن، کفار حبشہ کی چھری ہے(جس سے وہ ذبح کرتے ہیں)۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ اندازے سے تقسیم کا جواز ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تقسیم کے وقت دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دیا ہے اور بکریوں کے قد ایک جیسے نہیں ہوتے اور طاقت کے اعتبار سے بھی ان میں فرق ہوتا ہے۔ اس طرح اونٹوں کا معاملہ ہے، لیکن تقسیم کرتے وقت اس قسم کے فرق کا اعتبار نہیں کیا گیا۔ معلوم ہوا کہ جانوروں کی قیمت مقرر کرنے کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ جب ایسا کیا جائے گا تو اس اندازے سے کیا جائے گا کہ اس حیثیت کا اونٹ ہے اور اس حیثیت کی بکریاں ہیں۔ اونٹ اور بکریوں کی مختلف اقسام ہیں۔ دونوں کی حیثیت دیکھ کر قیمت مقرر کی جائے گی۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ قیمت کا تعین کر کے جانوروں کا تبادلہ ہو گا۔ اس سے بہت دشواریاں پیدا ہو سکتی ہیں، اس لیے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ بکریوں کی تقسیم تعداد کے اعتبار سے ہے، اس میں قیمت کا لحاظ نہیں کیا جائے گا۔ (2) واضح رہے کہ اختیاری حالات میں تو جانور کو گلے ہی سے ذبح کیا جائے گا، البتہ اضطراری حالات میں کسی بھی مقام سے ذبح کیا جا سکتا ہے، نیز ذبح کرتے وقت بسم الله الله أكبر کہنا بھی ضروری ہے۔ اگر کوئی بسم الله بھول جائے یا اسے شک ہو کہ تکبیر پڑھی ہے یا نہیں تو کھاتے وقت بسم الله پڑھ لی جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن حکم انصاری نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے سعید بن مسروق نے، ان سے عبایہ بن رفاعہ بن رافع بن خدیج ؓ نے اور ان سے ان کے دادا (رافع بن خدیج ؓ) نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مقام ذوالحلیفہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ لوگوں کو بھوک لگی۔ ادھر (غنیمت میں) اونٹ اور بکریاں ملی تھیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ لشکر کے پیچھے کے لوگوں میں تھے۔ لوگوں نے جلدی کی اور (تقسیم سے پہلے ہی) ذبح کرکے ہانڈیاں چڑھا دیں۔ لیکن بعد میں نبی کریم ﷺ نے حکم دیا اور وہ ہانڈیاں اوندھا دی گئیں۔ پھر آپ نے ان کو تقسیم کیا اور دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر رکھا۔ ایک اونٹ اس میں سے بھاگ گیا تو لوگ اسے پکڑنے کی کوشش کرنے لگے۔ لیکن اس نے سب کو تھکا دیا۔ قوم کے پاس گھوڑے کم تھے۔ ایک صحابی تیر لے کر اونٹ کی طرف جھپٹے۔ اللہ نے اس کو ٹھہرا دیا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان جانوروں میں بھی جنگلی جانوروں کی طرح سرکشی ہوتی ہے۔ اس لیے ان جانوروں میں سے بھی اگر کوئی تمہیں عاجز کردے تو اس کے ساتھ تم ایسا ہی معاملہ کیا کرو۔ پھر میرے دادا نے عرض کیا کہ کل دشمن کے حملہ کا خوف ہے، ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں (تلواروں سے ذبح کریں تو ان کے خراب ہونے کا ڈر ہے جب کہ جنگ سامنے ہے) کیا ہم بانس کے کھپچی سے ذبح کرسکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا، جو چیز بھی خون بہا دے اور ذبیحہ پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہو، تو اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ سوائے دانت اور ناخن کے۔ اس کی وجہ میں تمہیں بتاتا ہوں۔ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے۔
حدیث حاشیہ:
وہ ناخن ہی سے جانور کاٹتے ہیں، تو ایسا کرنے میں ان کی مشابہت ہے۔ امام نووی ؒنے کہا کہ ناخن خواہ بدن میں لگا ہوا ہو یا جدا کیا ہوا ہو، پاک ہو یا نجس کسی حال میں اس سے ذبح جائز نہیں۔ ترجمہ باب کی مطابقت ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ نے دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر کیا۔ ہانڈیوں کو ا س لیے اوندھا کر دیا گیا کہ ان میں جو گوشت پکا یا جارہا تھا وہ ناجائز تھا۔ جسے کھانا مسلمانوں کے لیے حلال نہ تھا۔ لہٰذآپ ﷺ نے ان کا گوشت ضائع کرا دیا۔ دیوبندی حنفی ترجمہ بخاری میں یہاں لکھا گیا ہے کہ ”ہانڈیوں کے الٹ دینے کا مطلب یہ ہے کہ یعنی تقسیم کرنے کے لیے ان سے گوشت نکال لیا گیا۔‘‘(دیکھو تفہیم البخاری دیوبندی ص142پ9) یہ مفہوم کتنا غلط ہے۔ اس کا اندازہ حاشیہ صحیح بخاری شریف مطبوعہ کراچی جلد اول ص 338 کی عبارت ذیل سے لگایا جاسکتا ہے۔ محشی صاحب جو غالباً حنفی ہی ہیں فرماتے ہیں فأکفئت أي أقلبت و رمیت وأریق ما فیها و هو من الإکفاء قیل إنما أمر بالإکفاء لأنهم ذبحوا الغنم قبل أن یقسم فلم یطب له بذلك۔یعنی ان ہانڈیوں کو الٹا کر دیا گیا، گرا دیا گیا اور جو ان میں تھا وہ سب بہاد یا گیا۔ حدیث کا لفظ اکفئت مصدر اکفاء سے ہے۔ کہا گیا ہے کہ آپ نے ان کے گرانے کا حکم ا س لیے صادر فرمایا کہ انہوں نے بکریوں کو مال غنیمت کے تقسیم ہونے سے پہلے ہی ذبح کر ڈالا تھا۔ آپ ﷺ کو ان کا یہ فعل پسند نہیں آیا۔ اس تشریح سے صاف ظاہر ہے کہ دیوبندی حنفی کا مذکورہ مفہوم بالکل غلط ہے۔ واللہ أعلم بالصواب
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abaya bin Rafa'a bin Raft' bin Khadij (RA): My grandfather said, "We were in the company of the Prophet (ﷺ) at Dhul-Hulaifa. The people felt hungry and captured some camels and sheep (as booty). The Prophet (ﷺ) was behind the people. They hurried and slaughtered the animals and put their meat in pots and started cooking it. (When the Prophet (ﷺ) came) he ordered the pots to be upset and then he distributed the animals (of the booty), regarding ten sheep as equal to one camel. One of the camels fled and the people ran after it till they were exhausted. At that time there were few horses. A man threw an arrow at the camel, and Allah stopped the camel with it. The Prophet (ﷺ) said, "Some of these animals are like wild animals, so if you lose control over one of these animals, treat it in this way (i.e. shoot it with an arrow)." Before distributing them among the soldiers my grandfather said, "We may meet the enemies in the future and have no knives; can we slaughter the animals with reeds?" The Prophet (ﷺ) said, "Use whatever causes blood to flow, and eat the animals if the name of Allah has been mentioned on slaughtering them. Do not slaughter with teeth or fingernails and I will tell you why: It is because teeth are bones (i.e. cannot cut properly) and fingernails are the tools used by the Ethiopians (whom we should not imitate for they are infidels)."