باب: جب شریک لوگ گھروں وغیرہ کو تقسیم کرلیں تواب اس سے پھر نہیں سکتے اور نہ ان کو شفعہ کا حق رہے گا۔
)
Sahi-Bukhari:
Partnership
(Chapter: If partners divide the houses, etc)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2496.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے ہر اس چیز میں شفعے کا فیصلہ فرمایا ہے جو ابھی تقسیم نہ کی گئی ہو۔ جب حد بندی ہوجائے اور راستے بدل دیے جائیں تو شفعہ نہیں رہتا۔
تشریح:
(1) جب شرکاء مشترکہ چیز تقسیم کر لیں تو پھر شفعے اور رجوع کا حق باقی نہیں رہتا کیونکہ معاشرے کا استحکام اسی بنیاد پر ہے کہ جب معاہدہ طے پا جائے تو رجوع کا حق ساقط ہو جائے۔ اگر ایسے حالات میں رجوع کا حق دیا جائے تو معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا اور ریاست میں انتشار اور بدنظمی پھیلے گی۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ بیس سال پہلے خرید و فروخت کا ایک معاہدہ ہوا اور آج کسی کو شفعے کا حق دیا جائے تو اس طریقے سے تو کوئی کاروبار نہیں چل سکتا۔ (2) حدیث میں شفعے کا ذکر ہے جبکہ باب میں رجوع کا بھی ذکر کیا گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر شرکاء کو شفعے کا حق نہ رہے تو رجوع کا حق بالاولیٰ ختم ہو جائے گا کیونکہ اگر رجوع کا حق تسلیم کیا جائے تو شفعے کا بالاولیٰ تسلیم کرنا پڑے گا۔ جب نفئ شفعہ نفئ رجوع کو لازم ہے تو امام بخاری ؒ نے شفعے کے ساتھ رجوع کا بھی ذکر کر دیا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2412
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2496
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2496
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2496
تمہید کتاب
لغوی طور پر "شراکت" کے معنی شامل ہونے کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں دو یا زیادہ افراد کا ایک چیز میں حق دار ہونا شراکت کہلاتا ہے۔ شراکت کی دو بڑی قسمیں ہیں: ٭ شرکتِ املاک۔ ٭ شرکت عقود۔٭ شرکتِ املاک: ملکیت میں شرکت، مثلاً: چند آدمیوں کو وراثت میں یا بطور ہبہ کوئی جائیداد یا نقد روپیہ ملا یا انہوں نے مل کر کوئی چیز خریدی، تو ملکیت میں سب شریک ہوں گے۔ اس میں ایجاب و قبول نہیں ہوتا۔ اس کی مزید دو قسمیں ہیں: ٭ اختیاری ٭ غیر اختیاری۔ اختیاری یہ ہے کہ شرکاء مل کر کوئی جائیداد خرید لیں اور غیر اختیاری یہ ہے کہ شرکاء کی مرضی اور اختیار کے بغیر ہی انہیں کسی چیز میں شریک مان لیا جائے، مثلاً: وراثت میں ملنے والے مال میں شریک ہو جائیں۔ شراکت کی اس قسم کا حکم یہ ہے کہ جتنے لوگ شریک ہوں، ان میں سے کسی ایک کو مشترکہ جائیداد میں تصرف کا حق نہیں ہے الا یہ کہ تمام شرکاء اجازت دے دیں۔٭ شرکتِ عقود: اس شرکت میں تمام شرکاء باہمی طور پر ایک معاہدے کے ذریعے سے ایک دوسرے سے بندھ جاتے ہیں اور اس کی شرائط کے پابند ہوتے ہیں۔ اس میں ایجاب و قبول ضروری ہے۔ اس میں دو یا دو سے زیادہ آدمی تھوڑا تھوڑا مال فراہم کر کے آپس میں یہ طے کر لیں کہ ہم سب مل کر اس مال سے فلاں کام کریں گے اور جو نفع ہو گا اسے آپس میں مناسب شرح میں تقسیم کر لیں گے۔ یہ اقرار زبانی بھی ہو سکتا ہے اور تحریری بھی، لیکن موجودہ دور میں شرکت عقود کو تحریر میں لانا بہت ضروری ہے۔ اس معاہدے میں ہر فرد کو یہ حق ہوتا ہے کہ جب چاہے اس معاہدے کو ختم کر کے شراکت سے الگ ہو جائے لیکن دوسرے شرکاء کو قبل از وقت مطلع کرنا ضروری ہے۔ اگر شرکاء میں سے کوئی فوت ہو جائے تو معاہدہ خود بخود ختم ہو جاتا ہے لیکن متوفی کے ورثاء چاہیں تو اس کی تجدید کر کے اس میں شریک ہو سکتے ہیں۔شراکت کا کاروبار بڑے پیمانے پر چلانے کے لیے شرکاء میں سے چند آدمیوں کو کاروبار چلانے کی ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے۔ چونکہ ان کا وقت زیادہ خرچ ہو گا یا وہ اضافی صلاحیت رکھتے ہوں گے، اس لیے انہیں منافع سے کچھ زیادہ حصہ بھی دیا جا سکتا ہے۔یہ شراکت مال میں بھی ہو سکتی ہے اور جسمانی محنت میں بھی۔ شراکت میں سرمائے کا برابر ہونا ضروری نہیں اور نہ نفع ہی میں برابری شرط ہے، تاہم منافع کی تقسیم اور اس کی مقدار روز اول ہی سے صاف صاف بیان کر دینا ضروری ہے کہ کس کو کتنا ملے گا، نیز اس میں ہر ایک شریک مشترکہ مال کا امین بھی ہوتا ہے اور وکیل بھی۔ امین کی حیثیت سے مال کی حفاظت کرنا ہو گی اور وکیل کی حیثیت سے ہر ایک کو کاروبار کے نظم اور تصرف میں برابر کا اختیار حاصل ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے شراکت کے متعلق ضروری ضروری اقسام و مسائل سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ستائیس مرفوع احادیث اور ایک اثر بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث میں ایک معلق اور باقی چھبیس متصل اسانید سے مروی ہیں۔ ان میں تیرہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔ احادیث پر سولہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے گئے ہیں، جن میں چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ کھانے، زاد سفر اور دیگر اسباب میں شرکت۔ ٭ بکریوں کی تقسیم۔ ٭ تقسیم میں قرعہ اندازی۔ ٭ شرکاء میں منصفانہ قیمت ٹھہرانا۔ ٭ زمین کے معاملات میں شراکت۔ ٭ تقسیم کے بعد رجوع نہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی باریک بینی سے احکام شراکت کو مرتب فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے مطابق ہمیں عمل کی توفیق دے۔ والله ولي التوفيق وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم
تمہید باب
ترجمہ باب اس طرح نکلتا ہے کہ جب شفعہ کا حق تقسیم کے بعد نہ رہا تو معلوم ہوا کہ تقسیم بھی پھر نہیں ہو سکتی۔ کیوں کہ اگر تقسیم باطل ہو جائے تو جائیداد پھر مشترک ہو جائے گی اور شرکاء کو شفعہ کا حق پیدا ہو گا۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے ہر اس چیز میں شفعے کا فیصلہ فرمایا ہے جو ابھی تقسیم نہ کی گئی ہو۔ جب حد بندی ہوجائے اور راستے بدل دیے جائیں تو شفعہ نہیں رہتا۔
حدیث حاشیہ:
(1) جب شرکاء مشترکہ چیز تقسیم کر لیں تو پھر شفعے اور رجوع کا حق باقی نہیں رہتا کیونکہ معاشرے کا استحکام اسی بنیاد پر ہے کہ جب معاہدہ طے پا جائے تو رجوع کا حق ساقط ہو جائے۔ اگر ایسے حالات میں رجوع کا حق دیا جائے تو معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا اور ریاست میں انتشار اور بدنظمی پھیلے گی۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ بیس سال پہلے خرید و فروخت کا ایک معاہدہ ہوا اور آج کسی کو شفعے کا حق دیا جائے تو اس طریقے سے تو کوئی کاروبار نہیں چل سکتا۔ (2) حدیث میں شفعے کا ذکر ہے جبکہ باب میں رجوع کا بھی ذکر کیا گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر شرکاء کو شفعے کا حق نہ رہے تو رجوع کا حق بالاولیٰ ختم ہو جائے گا کیونکہ اگر رجوع کا حق تسلیم کیا جائے تو شفعے کا بالاولیٰ تسلیم کرنا پڑے گا۔ جب نفئ شفعہ نفئ رجوع کو لازم ہے تو امام بخاری ؒ نے شفعے کے ساتھ رجوع کا بھی ذکر کر دیا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے معمر نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے جابر بن عبداللہ ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے ہر اس جائیداد میں شفعہ کا حق دیا تھا جس کی شرکاء میں ابھی تقسیم نہ ہوئی ہو۔ لیکن اگر حد بندی ہوجائے اور راستے الگ ہوجائیں تو پھر شفعہ کا حق باقی نہیں رہتا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA): The Prophet (ﷺ) established the right of Shu'fa (i.e. Pre-emption) in joint properties; but when the land is divided and the ways are demarcated, then there is no pre-emption.