باب: تقسیم میں ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابرسمجھنا
)
Sahi-Bukhari:
Partnership
(Chapter: Ten sheep as equal to one camel in distribution)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2507.
حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ تہامہ کے علاقے زوالحلیفہ میں تھے۔ ہم نے بکریاں اور اونٹ غنیمت میں حاصل کیے۔ لوگوں نے جلدی کرکے ان کا گوشت ہانڈیوں پر چڑھادیا۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور ہانڈیوں کوالٹ دینے کا حکم دیا توا نھیں الٹ دیاگیا۔ پھر آپ نے تقسیم میں ایک اونٹ کے برابر دس بکریاں رکھیں۔ ان میں سے ایک اونٹ بھاگ نکلا۔ لوگوں کے پاس گھوڑے بہت کم تھے تو ایک آدمی نے اسے تیر مارا اور روک دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بلاشبہ ان چوپایوں میں کوئی کوئی وحشی جانوروں کی طرح بھاگ نکلتے ہیں تو جب تم ان پر قابو نہ پاسکو تو ایسا ہی کرو۔‘‘ (راوی حدیث) عبایہ کہتے ہیں کہ میرے دادا رافع نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ ! ہمیں اندیشہ ہے کہ کل ہمارا دشمن سے مقابلہ ہوگا اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں (جس سے جانور ذبح کریں) تو کیا بانس کی کھپچی سے ذبح کرلیں؟ آپ نے فرمایا: ’’جلدی کرو، جو چیز خون بہادے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہوتو اسے کھاؤمگر دانت اور ناخن سے ذبح نہ کرو۔ میں اس کی تمھیں وجہ بتاتا ہوں کہ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن اہل حبشہ کی چھری ہے۔‘‘
تشریح:
اس حدیث سے بعض حضرات نے یہ مسئلہ کشید کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دیا ہے۔ یہ تقسیم کے اعتبار سے ہے، قربانی کے اعتبار سے نہیں، کیونکہ اونٹ میں دس آدمیوں کی نہیں بلکہ سات آدمیوں کی شراکت ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ موقف صحیح نہیں کیونکہ بلاشبہ ہدی کے اونٹ میں سات آدمی ہی شریک ہو سکتے ہیں جبکہ قربانی کے اونٹ میں دس افراد شریک ہو سکتے ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں تھے تو قربانی کا وقت آ گیا، ہم اونٹ میں دس آدمی شریک ہوئے اور گائے میں سات۔ (سنن ابن ماجة، الأضاحي، حدیث:3131) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ گائے کی قربانی سات آدمیوں کی طرف سے کی جا سکتی ہے اور اونٹ بھی سات افراد کی طرف سے قربان کیا جا سکتا ہے۔" (سنن أبي داود، الضحایا، حدیث:2808) ان روایات میں تطبیق یہ ہے کہ اونٹ میں دس آدمی بھی شریک ہو سکتے ہیں اور سات بھی۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2420
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2507
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2507
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2507
تمہید کتاب
لغوی طور پر "شراکت" کے معنی شامل ہونے کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں دو یا زیادہ افراد کا ایک چیز میں حق دار ہونا شراکت کہلاتا ہے۔ شراکت کی دو بڑی قسمیں ہیں: ٭ شرکتِ املاک۔ ٭ شرکت عقود۔٭ شرکتِ املاک: ملکیت میں شرکت، مثلاً: چند آدمیوں کو وراثت میں یا بطور ہبہ کوئی جائیداد یا نقد روپیہ ملا یا انہوں نے مل کر کوئی چیز خریدی، تو ملکیت میں سب شریک ہوں گے۔ اس میں ایجاب و قبول نہیں ہوتا۔ اس کی مزید دو قسمیں ہیں: ٭ اختیاری ٭ غیر اختیاری۔ اختیاری یہ ہے کہ شرکاء مل کر کوئی جائیداد خرید لیں اور غیر اختیاری یہ ہے کہ شرکاء کی مرضی اور اختیار کے بغیر ہی انہیں کسی چیز میں شریک مان لیا جائے، مثلاً: وراثت میں ملنے والے مال میں شریک ہو جائیں۔ شراکت کی اس قسم کا حکم یہ ہے کہ جتنے لوگ شریک ہوں، ان میں سے کسی ایک کو مشترکہ جائیداد میں تصرف کا حق نہیں ہے الا یہ کہ تمام شرکاء اجازت دے دیں۔٭ شرکتِ عقود: اس شرکت میں تمام شرکاء باہمی طور پر ایک معاہدے کے ذریعے سے ایک دوسرے سے بندھ جاتے ہیں اور اس کی شرائط کے پابند ہوتے ہیں۔ اس میں ایجاب و قبول ضروری ہے۔ اس میں دو یا دو سے زیادہ آدمی تھوڑا تھوڑا مال فراہم کر کے آپس میں یہ طے کر لیں کہ ہم سب مل کر اس مال سے فلاں کام کریں گے اور جو نفع ہو گا اسے آپس میں مناسب شرح میں تقسیم کر لیں گے۔ یہ اقرار زبانی بھی ہو سکتا ہے اور تحریری بھی، لیکن موجودہ دور میں شرکت عقود کو تحریر میں لانا بہت ضروری ہے۔ اس معاہدے میں ہر فرد کو یہ حق ہوتا ہے کہ جب چاہے اس معاہدے کو ختم کر کے شراکت سے الگ ہو جائے لیکن دوسرے شرکاء کو قبل از وقت مطلع کرنا ضروری ہے۔ اگر شرکاء میں سے کوئی فوت ہو جائے تو معاہدہ خود بخود ختم ہو جاتا ہے لیکن متوفی کے ورثاء چاہیں تو اس کی تجدید کر کے اس میں شریک ہو سکتے ہیں۔شراکت کا کاروبار بڑے پیمانے پر چلانے کے لیے شرکاء میں سے چند آدمیوں کو کاروبار چلانے کی ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے۔ چونکہ ان کا وقت زیادہ خرچ ہو گا یا وہ اضافی صلاحیت رکھتے ہوں گے، اس لیے انہیں منافع سے کچھ زیادہ حصہ بھی دیا جا سکتا ہے۔یہ شراکت مال میں بھی ہو سکتی ہے اور جسمانی محنت میں بھی۔ شراکت میں سرمائے کا برابر ہونا ضروری نہیں اور نہ نفع ہی میں برابری شرط ہے، تاہم منافع کی تقسیم اور اس کی مقدار روز اول ہی سے صاف صاف بیان کر دینا ضروری ہے کہ کس کو کتنا ملے گا، نیز اس میں ہر ایک شریک مشترکہ مال کا امین بھی ہوتا ہے اور وکیل بھی۔ امین کی حیثیت سے مال کی حفاظت کرنا ہو گی اور وکیل کی حیثیت سے ہر ایک کو کاروبار کے نظم اور تصرف میں برابر کا اختیار حاصل ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے شراکت کے متعلق ضروری ضروری اقسام و مسائل سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ستائیس مرفوع احادیث اور ایک اثر بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث میں ایک معلق اور باقی چھبیس متصل اسانید سے مروی ہیں۔ ان میں تیرہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔ احادیث پر سولہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے گئے ہیں، جن میں چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ کھانے، زاد سفر اور دیگر اسباب میں شرکت۔ ٭ بکریوں کی تقسیم۔ ٭ تقسیم میں قرعہ اندازی۔ ٭ شرکاء میں منصفانہ قیمت ٹھہرانا۔ ٭ زمین کے معاملات میں شراکت۔ ٭ تقسیم کے بعد رجوع نہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی باریک بینی سے احکام شراکت کو مرتب فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے مطابق ہمیں عمل کی توفیق دے۔ والله ولي التوفيق وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم
حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ تہامہ کے علاقے زوالحلیفہ میں تھے۔ ہم نے بکریاں اور اونٹ غنیمت میں حاصل کیے۔ لوگوں نے جلدی کرکے ان کا گوشت ہانڈیوں پر چڑھادیا۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور ہانڈیوں کوالٹ دینے کا حکم دیا توا نھیں الٹ دیاگیا۔ پھر آپ نے تقسیم میں ایک اونٹ کے برابر دس بکریاں رکھیں۔ ان میں سے ایک اونٹ بھاگ نکلا۔ لوگوں کے پاس گھوڑے بہت کم تھے تو ایک آدمی نے اسے تیر مارا اور روک دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بلاشبہ ان چوپایوں میں کوئی کوئی وحشی جانوروں کی طرح بھاگ نکلتے ہیں تو جب تم ان پر قابو نہ پاسکو تو ایسا ہی کرو۔‘‘ (راوی حدیث) عبایہ کہتے ہیں کہ میرے دادا رافع نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ ! ہمیں اندیشہ ہے کہ کل ہمارا دشمن سے مقابلہ ہوگا اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں (جس سے جانور ذبح کریں) تو کیا بانس کی کھپچی سے ذبح کرلیں؟ آپ نے فرمایا: ’’جلدی کرو، جو چیز خون بہادے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہوتو اسے کھاؤمگر دانت اور ناخن سے ذبح نہ کرو۔ میں اس کی تمھیں وجہ بتاتا ہوں کہ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن اہل حبشہ کی چھری ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے بعض حضرات نے یہ مسئلہ کشید کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دیا ہے۔ یہ تقسیم کے اعتبار سے ہے، قربانی کے اعتبار سے نہیں، کیونکہ اونٹ میں دس آدمیوں کی نہیں بلکہ سات آدمیوں کی شراکت ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ موقف صحیح نہیں کیونکہ بلاشبہ ہدی کے اونٹ میں سات آدمی ہی شریک ہو سکتے ہیں جبکہ قربانی کے اونٹ میں دس افراد شریک ہو سکتے ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں تھے تو قربانی کا وقت آ گیا، ہم اونٹ میں دس آدمی شریک ہوئے اور گائے میں سات۔ (سنن ابن ماجة، الأضاحي، حدیث:3131) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ گائے کی قربانی سات آدمیوں کی طرف سے کی جا سکتی ہے اور اونٹ بھی سات افراد کی طرف سے قربان کیا جا سکتا ہے۔" (سنن أبي داود، الضحایا، حدیث:2808) ان روایات میں تطبیق یہ ہے کہ اونٹ میں دس آدمی بھی شریک ہو سکتے ہیں اور سات بھی۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو وکیع نے خبر دی، انہیں سفیان ثوری نے، انہیں ان کے والد سعید بن مسروق نے، انہیں عبایہ بن رفاعہ نے اور ان سے ان کے دادا رافع بن خدیج ؓ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ تہامہ کے مقام ذوالحلیفہ میں تھے (غنیمت میں) ہمیں بکریاں اور اونٹ ملے تھے۔ بعض لوگوں نے جلدی کی اور (جانور ذبح کرکے) گوشت کو ہانڈیوں میں چڑھا دیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ آپ کے حکم سے گوشت کی ہانڈیوں کو الٹ دیاگیا۔ پھر (آپ نے تقسیم میں) دس بکریوں کا ایک اونٹ کے برابر حصہ رکھا۔ ایک اونٹ بھاگ کھڑا ہوا۔ قوم کے پاس گھوڑوں کی کمی تھی۔ ایک شخص نے اونٹ کو تیرمار کر روک لیا۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ان جانوروں میں بھی جنگی جانوروںکی طرح وحشت ہوتی ہے۔ اس لیے جب تک ان کو نہ پکڑسکو تو تم ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا کرو۔ عبا یہ نے بیان کیا کہ میرے دادا نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! ہمیں امید ہے یا خطرہ ہے کہ کہیں کل دشمن سے مڈبھیڑ نہ ہوجائے اور چھری ہمارے ساتھ نہیں ہے۔ کیا دھار دار لکڑی سے ہم ذبح کرسکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا، لیکن ذبح کرنے میں جلدی کرو۔ جو چیز خون بہادے (اسی سے کاٹ ڈالو) اگر اس پر اللہ کا نام لیا جائے تو اس کو کھاو اورناخن اور دانت سے ذبح نہ کرو۔ اس کی وجہ میں بتلاوں۔ سنو دانت تو ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھریاں ہیں۔
حدیث حاشیہ:
راوی کو شبہ ہے کہ آپ نے لفظ اعجل فرمایا، یا لفظ ارن فرمایا۔ خطابی نے کہا کہ لفظ ارن اصل میں اءرن تھا جو ارن یا رن سے ہے اور جس کے معنی بھی اعجل یعنی جلدی کرنے کے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abaya bin Rifaa (RA): My grandfather, Rafi bin Khadij said, "We were in the valley of Dhul-Hulaifa of Tuhama in the company of the Prophet (ﷺ) and had some camels and sheep (of the booty). The people hurried (in slaughtering the animals) and put their meat in the pots and started cooking. Allah's Apostle (ﷺ) came and ordered them to upset the pots, and distributed the booty considering one camel as equal to ten sheep. One of the camels fled and the people had only a few horses, so they got worried. (The camel was chased and) a man slopped the camel by throwing an arrow at it. Allah's Apostle (ﷺ) said, 'Some of these animals are untamed like wild animals, so if anyone of them went out of your control, then you should treat it as you have done now.' " My grandfather said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! We fear that we may meet our enemy tomorrow and we have no knives, could we slaughter the animals with reeds?" The Prophet (ﷺ) said, "Yes, or you can use what would make blood flow (slaughter) and you can eat what is slaughtered and the Name of Allah is mentioned at the time of slaughtering. But don't use teeth or fingernails (in slaughtering). I will tell you why, as for teeth, they are bones, and fingernails are used by Ethiopians for slaughtering. (See Hadith 668)