باب: ولاء ( غلام لونڈی کا ترکہ ) بیچنا یا ہبہ کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Manumission of Slaves
(Chapter: The Wala' of a manumitted slave)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2536.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: میں نے حضرت بریرہ ؓ کوخریدا تو اس کے مالکوں نے ولا اپنے پاس رکھنے کی شرط لگا دی۔ میں نے نبی کریم ﷺ سے اس کاذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ’’تم اسے(خریدکر)آزاد کردو۔ ولاتو اسی کی ہے جو قیمت ادا کرے۔‘‘ چنانچہ میں نے اسے (خریدکر) آزاد کردیا۔ نبی کریم ﷺ نے اسے بلا کر اس کے شوہر کے متعلق اسے اختیار دیا تو حضرت بریرہ ؓ نے کہا: اگر وہ مجھے اتنا اتنا مال بھی دے تو میں اس کے پاس نہیں رہوں گی۔ اس نے خود کواختیار کیا، یعنی وہ اپنے شوہر سے جدا ہوگئی۔
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ولاء اس شخص کے لیے ہے جو قیمت ادا کر کے اسے آزاد کرتا ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ ولاء قابل انتقال حق نہیں ہے، یعنی فروخت اور ہبہ کرنے سے دوسرے کو منتقل نہیں ہو سکتا، عنوان کا یہی مقصد ہے۔ (2) علامہ خطابی فرماتے ہیں: ولاء نسب کی طرح ہے، جس نے آزاد کیا ولاء اسی کا حق ہے، جیسے کسی کے ہاں بچہ پیدا ہو تو نسب بھی اسی کا ثابت ہو گا۔ اگر وہ غیر کی طرف منسوب ہو تو اس کے والد سے یہ نسب منتقل نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح ولاء بھی اپنے محل سے منتقل نہیں ہو گی، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ’’ولاء بھی نسب کی طرح ایسا رشتہ ہے جسے فروخت نہیں کیا جا سکتا اور نہ اسے بطور ہبہ ہی دیا جا سکتا ہے۔‘‘ (صحیح ابن حبان، البیوع، حدیث:4929)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2449
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2536
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2536
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2536
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ عتق مصدر ہے جس کے معنی آزاد ہونے اور قوت حاصل کرنے کے ہیں۔ غلام کو آزادی کے بعد شرعی قوت حاصل ہو جاتی ہے جو اس کی ماتحتی اور زیردستی ختم کر دینے کی باعث ہے۔ عتق کی اصطلاحی تعریف یہ ہے کہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے کسی آدمی سے غلامی کو ختم کر دینا۔ یہ عمل اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے کسی مسلمان غلام کو آزاد کیا تو اللہ تعالیٰ اس غلام کے ہر عضو کے بدلے اس کے ہر عضو کو جہنم کی آگ سے آزاد کر دے گا حتیٰ کہ اس کی شرمگاہ کو غلام کی شرمگاہ کے بدلے آزاد کر دیا جائے گا۔" (صحیح البخاری،کفارات الایمان،حدیث:6715،وصحیح مسلم،العتق،حدیث:3797(1509)) یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تریسٹھ (63)، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سڑسٹھ (67)، حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ستر (70)، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دوران محاصرہ میں بیس (20)، حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے سو (100)، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ہزار (1000)، ذو کلاع حمیری رضی اللہ عنہ نے ایک دن میں آٹھ ہزار (8000) اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے تیس ہزار (30000) غلام آزاد کیے۔ (سبل السلام)حضرت سفینہ ابو عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے مجھے آزاد کرتے وقت یہ شرط لگائی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تک آپ کی خدمت کرتا رہوں گا۔ (مسند احمد:5/221)اس قدر فضیلت کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ اب غلامی کا دور ختم ہو چکا ہے اور عملی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں رہا۔ علمی اعتبار سے یہ امانت اسلاف نے ہمارے حوالے کی ہے۔ ہم بھی اسی حوالے سے اس امانت کو آگے منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ غلام، اسیران جنگ کی ایک شاخ ہے۔ قرآن کریم کی تصریح کے مطابق کفار سے جنگ کے دوران میں جو لوگ گرفتار ہوں ان کے متعلق حکم ہے کہ ان پر احسان کرو یا ان سے فدیے کا معاملہ کر لو۔ احسان میں چار چیزیں شامل ہیں: ٭ دوران قید میں ان سے اچھا برتاؤ کیا جائے۔ ٭ قتل یا دائمی قید کے بجائے انہیں غلام بنا کر مسلمان افراد کے حوالے کر دیا جائے۔ ٭ ان پر ٹیکس لگا کر انہیں ذمی بنا لیا جائے۔ ٭ انہیں بلا معاوضہ رہا کر دیا جائے۔ اسی طرح فدیہ کا معاملہ کرنے کی تین صورتیں ہیں: ٭ مالی معاوضہ لے کر انہیں چھوڑ دیا جائے۔ ٭ قتل یا دائمی قید کے بجائے انہیں غلام بنا کر افراد مسلمین کے حوالے کر دیا جائے۔ ٭ اپنے ان آدمیوں سے جو دشمن کی قید میں ہوں تبادلہ کر لیا جائے۔جنگی قیدیوں پر احسان کی دوسری صورت یہ ہے کہ انہیں غلام بنا کر افراد کی ملکیت میں دے دیا جائے اور ان کے مالکان کو ہدایت کی جائے کہ وہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق لونڈیوں سے "فائدہ اٹھانے" کی بھی اجازت ہے۔ ہمارے ہاں کچھ "روشن خیال" لوگ مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر لونڈیوں سے "فائدہ اٹھانے" کے معاملے میں غلط فہمی کا شکار ہیں اور آئے دن اس شبہ کی آڑ میں اسلام کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔ ان کے ازالے کے لیے مولانا مودودی مرحوم کے الفاظ کو مستعار لیتے ہوئے چند مسائل ذکر کیے جاتے ہیں:(1) جو عورتیں جنگ میں گرفتار ہوں، ان کو پکڑتے ہی ہر سپاہی ان کے ساتھ مباشرت کر لینے کا مجاز نہیں ہے بلکہ اسلامی قانون یہ ہے کہ ایسی عورتیں حکومت کے حوالے کر دی جائیں۔ حکومت کو اختیار ہے چاہے ان کو رہا کر دے، چاہے ان سے فدیہ لے، چاہے ان کا تبادلہ ان مسلمان قیدیوں سے کر لے جو دشمن کے ہاتھ میں ہوں اور چاہے انہی سپاہیوں میں تقسیم کر دے۔ ایک سپاہی صرف اسی عورت سے تمتع کرنے (فائدہ اٹھانے) کا مجاز ہے جو حکومت کی طرف سے باقاعدہ اس کی ملک میں دی گئی ہو۔(2) جو عورت اس طرح کسی کی ملک میں دی جائے اس کے ساتھ بھی اس وقت تک مباشرت نہیں کی جا سکتی جب تک کہ اسے ایک مرتبہ ایام ماہواری نہ آ جائیں اور یہ اطمینان نہ ہو جائے کہ وہ حاملہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے مباشرت کرنا حرام ہے اور اگر وہ حاملہ ہو تو وضع حمل سے پہلے بھی مباشرت ناجائز ہے۔(3) جنگ میں پکڑی ہوئی عورتوں سے تمتع کے معاملے میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ اہل کتاب ہی میں سے ہوں، ان کا مذہب خواہ کوئی ہو، بہرحال جب وہ تقسیم کر دی جائیں گی تو جن کے حصے میں وہ آئیں وہ ان سے تمتع کر سکتے ہیں۔(4) جو عورت جس شخص کے حصے میں دی گئی ہو صرف وہی اس کے ساتھ تمتع کر سکتا ہے۔ کسی دوسرے کو اسے ہاتھ لگانے کا حق نہیں ہے۔ اس عورت سے جو اولاد ہو گی وہ اسی شخص کی جائز اولاد سمجھی جائے گی جس کی ملک وہ عورت ہے۔ اس اولاد کے قانونی حقوق وہی ہوں گے جو شریعت میں صلبی اولاد کے لیے مقرر ہیں۔ صاحب اولاد ہو جانے کے بعد وہ عورت فروخت نہیں کی جا سکے گی اور مالک کے مرتے ہی وہ آپ سے آپ آزاد ہو جائے گی۔(5) جو عورت اس طرح کسی شخص کی ملک میں آئی ہو اسے اگر اس کا مالک کسی دوسرے شخص کے نکاح میں دے دے تو پھر مالک کو اس سے دوسری تمام خدمات لینے کا حق تو رہتا ہے لیکن شہوانی تعلق کا حق باقی نہیں رہتا۔(6) جس طرح شریعت نے بیویوں کی تعداد پر چار کی پابندی لگائی ہے، اس طرح لونڈیوں کی تعداد پر نہیں لگائی لیکن اس معاملے میں کوئی حد مقرر نہ کرنے سے شریعت کا منشا یہ نہیں تھا کہ مال دار لوگ بے شمار لونڈیاں خرید خرید کر جمع کر لیں اور اپنے گھر کو عیاشی کا گھر بنا لیں بلکہ در حقیقت معاملے میں عدم تعین کی وجہ جنگی حالات کا عدم تعین ہے۔(7) ملکیت کے تمام دوسرے حقوق کی طرح وہ مالکانہ حقوق بھی قابل انتقال ہیں جو کسی شخص کو ازروئے قانون کسی اسیر جنگ پر حکومت نے عطا کیے ہوں۔(8) حکومت کی طرف سے حقوق ملکیت کا باقاعدہ عطا کیا جانا ویسا ہی ایک قانونی فعل ہے جیسا کہ نکاح ایک قانونی فعل ہے، لہذا کوئی معقول وجہ نہیں کہ جو شخص نکاح میں کسی قسم کی کراہت محسوس نہیں کرتا وہ خواہ مخواہ لونڈی سے تمتع میں کراہت محسوس کرے۔(9) اسیران جنگ میں سے کسی عورت کو کسی شخص کی ملکیت میں دے دینے کے بعد پھر حکومت اسے واپس لینے کی مجاز نہیں رہتی بالکل اسی طرح جیسے کسی عورت کا ولی اس کو کسی کے نکاح میں دے چکنے کے بعد پھر واپس لینے کا حق دار نہیں رہتا۔(10) اگر کوئی فوجی کمانڈر محض وقتی اور عارضی طور پر اپنے سپاہیوں کو قیدی عورتوں سے شہوانی پیاس بجھا لینے کی اجازت دے دے اور محض کچھ وقت کے لیے انہیں فوج میں تقسیم کرے تو یہ اسلامی قانون کی رو سے قطعاً ایک ناجائز فعل ہے۔ اس میں اور زنا میں کوئی فرق نہیں ہے اور زنا اسلامی قانون میں جرم ہے۔ (تفہیم القرآن،سورہ نساء،حاشیہ نمبر:44)اگرچہ دور حاضر میں غلامی کا دور ختم ہو چکا ہے، تاہم آج بھی اگر کسی مقروض کا قرض ادا کر دیا جائے یا کسی ناحق مقدمے میں پھنسے ہوئے انسان کو رہائی دلائی جائے تو ایسا کرنا بھی غلام کو آزاد کرنے کے مترادف ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے متعدد مرفوع احادیث پر تقریباً بیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں غلاموں کے حقوق و آداب بیان کیے ہیں۔ دوران مطالعہ میں قارئین کرام کو بے شمار احکام و مسائل سے آگاہی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
یعنی ولاءالمعتق وهو ما اذا مات المعتق ورثة معتقة او ورثة معتقه کانت العرب تبیعه و تهبه فنہی عنه الشارع لان الولاء کالنسب فلا یزول بازالة وفقہاءالحجاز والعراق مجمعون علی انہ لایجوز بیع الولاءو ہبته ( حاشیہ بخاری ) یعنی ولاء کا معنی غلام یا لونڈی کا ترکہ جب وہ مرجائے تو اس کا آزاد کرنے والا اس کا وارث بنے۔ عرب میں غلام اور آقا کے اس تعلق کو بیع کرنے یا ہبہ کرنے کا رواج تھا۔ شارع نے اس سے منع کردیا۔ اس لیے کہ ولاء نسب کی طرح ہے جو کسی طور بھی زائل نہیں ہوسکتا۔ اس پر تمام فقہاء عراق اور حجاز کا اتفاق ہے۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: میں نے حضرت بریرہ ؓ کوخریدا تو اس کے مالکوں نے ولا اپنے پاس رکھنے کی شرط لگا دی۔ میں نے نبی کریم ﷺ سے اس کاذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ’’تم اسے(خریدکر)آزاد کردو۔ ولاتو اسی کی ہے جو قیمت ادا کرے۔‘‘ چنانچہ میں نے اسے (خریدکر) آزاد کردیا۔ نبی کریم ﷺ نے اسے بلا کر اس کے شوہر کے متعلق اسے اختیار دیا تو حضرت بریرہ ؓ نے کہا: اگر وہ مجھے اتنا اتنا مال بھی دے تو میں اس کے پاس نہیں رہوں گی۔ اس نے خود کواختیار کیا، یعنی وہ اپنے شوہر سے جدا ہوگئی۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ولاء اس شخص کے لیے ہے جو قیمت ادا کر کے اسے آزاد کرتا ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ ولاء قابل انتقال حق نہیں ہے، یعنی فروخت اور ہبہ کرنے سے دوسرے کو منتقل نہیں ہو سکتا، عنوان کا یہی مقصد ہے۔ (2) علامہ خطابی فرماتے ہیں: ولاء نسب کی طرح ہے، جس نے آزاد کیا ولاء اسی کا حق ہے، جیسے کسی کے ہاں بچہ پیدا ہو تو نسب بھی اسی کا ثابت ہو گا۔ اگر وہ غیر کی طرف منسوب ہو تو اس کے والد سے یہ نسب منتقل نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح ولاء بھی اپنے محل سے منتقل نہیں ہو گی، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ’’ولاء بھی نسب کی طرح ایسا رشتہ ہے جسے فروخت نہیں کیا جا سکتا اور نہ اسے بطور ہبہ ہی دیا جا سکتا ہے۔‘‘ (صحیح ابن حبان، البیوع، حدیث:4929)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریرنے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے اسود نے اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ بریرہ ؓ کو میں نے خریدا تو ان کے مالکوں نے ولاءکی شرط لگائی (کہ آزادی کے بعد وہ انہیں کے حق میں قائم رہے گی) میں نے رسول کریم ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا تم انہیں آزاد کردو، ولاءتو اسی کی ہوتی ہے جو قیمت دے کر کسی غلام کو آزاد کردے۔ پھر میں نے انہیں آزاد کردیا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے بریرہ ؓ کو بلایا اور ان کے شوہر کے سلسلے میں انہیں اختیار دیا۔ بریرہ نے کہا کہ اگر وہ مجھے فلاں فلاں چیز بھی دیں تب بھی میں اس کے پاس نہ رہوں گی۔ چنانچہ وہ اپنے شوہر سے جدا ہوگئیں۔
حدیث حاشیہ:
اس کے خاوند کا نام مغیث تھا۔ وہ غلام تھا۔ لونڈی جب آزاد ہوجائے تو اس کو اپنے خاوند کی نسبت جو غلام ہو اختیار ہوتا ہے خواہ نکاح باقی رکھے یا فسخ کردے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ مغیث آزاد تھا مگر قسطلانی نے اس کے غلام ہونے کو صحیح کہا ہے۔ یہ مغیث بریرہ کی جدائی پر روتا پھرتا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے بھی بریرہ ؓ سے سفارش فرمائی کہ مغیث کا نکاح باقی رکھے مگر بریرہ نے کسی طرح اس کے نکاح میں رہنا منظور نہیں کیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): I bought Buraira but her masters put the condition that her Wala' would be for them. I told the Prophet (ﷺ) about it. He said (to me), "Manumit her as her Wala' will be for the one who pays the price." So, I manumitted her. The Prophet (ﷺ) called Buraira and gave her the option of either staying with her husband or leaving him. She said, "Even if he gave me so much money, I would not stay with him," and so she preferred her freedom to her husband.