باب : مکاتب سے کونسی شرطیں کرنا درست ہیں اور جس نے کوئی ایسی شرط لگائی جس کی اصل کتاب اللہ میں نہ ہو ( وہ شرط باطل ہے )
)
Sahi-Bukhari:
Makaatib
(Chapter: Writing of emancipations and conditions)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس باب میں ابن عمرؓ کی ایک روایت ہے۔
2562.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ نے ایک لونڈی خرید کر اسے آزاد کرنا چاہا تو اس کے مالکان نے کہا: وہ اس شرط پر اسے خریدسکتی ہی کہ اس کی ولا کے ہم خود مالک ہوں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ شرط تمھیں خریدنے سے نہیں روک سکتی کیونکہ ولا کا مالک تو وہی ہے جو آزاد کرے۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے کتاب الشروط میں ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے: (باب المكاتب، وما لا يحل من الشروط التي تخالف كتاب الله) ’’ایسی شرائط جائز نہیں جو کتاب اللہ کے خلاف ہوں۔‘‘ (صحیح البخاري، الشروط، باب:17) حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے ليس في كتاب الله کی تفسیر بیان فرمائی ہے اور حکم سے عام مراد ہے کہ وہ نص سے ثابت ہو یا اس سے استنباط کیا گیا ہو، البتہ وہ حکم ایسا نہ ہو جو کتاب اللہ کے خلاف ہو۔ (فتح الباري:433/5) (2) واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے حدیث بریرہ سے بے شمار مسائل کا استنباط کیا، اکثر و بیشتر مسائل حافظ ابن حجر ؒ نے بیان کیے ہیں۔ ان مسائل و اقسام کو فتح الباری میں دیکھا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2473
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2562
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2562
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2562
تمہید کتاب
لغوی طور پر مکاتب باب مفاعلہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے۔ اصطلاحی طور پر اس سے مراد وہ غلام یا لونڈی ہے جس کا اس کے آقا کے ساتھ مخصوص معاوضے کے بدلے آزادی کا تحریری معاہدہ ہو جائے۔ مکاتب (تا کی زیر کے ساتھ) وہ آقا جس کی طرف سے کتابت کا معاملہ کیا جائے۔ دور جاہلیت میں لوگ مکاتبت کا معاملہ کرتے تھے، اسلام نے بھی اسے برقرار رکھا۔ تاریخ اسلام میں سب سے پہلے مکاتب حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ہیں اور عورتوں میں سے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے اپنے آقاؤں سے مکاتبت کا معاملہ کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سب سے پہلے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے غلام ابو امیہ نے مکاتبت کی، پھر حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام سیرین سے کتابت کا معاملہ کیا۔ قرآن کریم میں اس بات کی صراحت ہے کہ جب کوئی غلام اپنے آقا سے کتابت کا معاملہ کرنے کی درخواست کرے تو ایسی صورت میں مالک کو درخواست قبول کر لینی چاہیے۔ دراصل اسلام نے اسلامی معاشرے میں لونڈیوں اور غلاموں کے وجود کو کم سے کم کرنے کے لیے کئی ایک اقدامات کیے ہیں اور کئی ایک اصلاحات وضع کر کے اسے ایک مہذب شکل دی ہے:(1) کئی گناہوں کا کفارہ گردن، یعنی غلام آزاد کرنا قرار دیا گیا ہے۔(2) گردن آزاد کرنے کی ترغیب اور فضیلت بیان کی ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔(3) اگر ملک یمین، یعنی لونڈی سے اولاد پیدا ہو جائے تو پھر اسے فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ مالک کے مرنے کے بعد وہ ازخود آزاد ہو جائے گی۔(4) اگر کوئی غلام یا لوندی اپنے مالک سے یہ درخواست کرے کہ میں اپنی آزادی کے بدلے اتنی رقم اتنی مدت میں بالاقساط یا یکمشت ادا کروں گا تو مالک کو یہ درخواست نظرانداز کرنے کی اجازت نہیں بلکہ قرآن حکیم نے حکم دیا ہے کہ مالک اپنے اس مال سے اس غلام کا تعاون کرے جو اللہ نے اسے دے رکھا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا ۖ وَآتُوهُم مِّن مَّالِ اللَّـهِ الَّذِي آتَاكُمْ) "اور تمہارے غلاموں میں سے جو مکاتبت کرنا چاہیں تو اگر تم ان میں بھلائی دیکھو تو ان سے مکاتبت کر لو اور اللہ کے مال سے جو اس نے تمہیں دیا ہے انہیں بھی دو۔" (النور33:24)اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عمل مکاتبت کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے اور ہمیں ترغیب دی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب و سنت کی روشنی میں مکاتبت کی اہمیت و افادیت، اس کے فضائل و مناقب اور احکام و مسائل سے آگاہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے چھ مرفوع احادیث پیش کی ہیں جو متصل اسناد سے مروی ہیں، اور ان پر پانچ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: (1) مکاتب اور اس کی قسطوں کا بیان۔ (2) مکاتب کی طرف سے کون سی شرائط جائز ہیں؟ (3) مکاتب کا مدد طلب کرنا اور دوسروں سے سوال کرنا۔ (4) مکاتب اگر راضی ہو تو اسے فروخت کرنا۔ (5) مکاتب اگر کہے کہ مجھے خرید کر آزاد کر دو تو اس کا خریدنا اور آزاد کرنا جائز ہے۔اگرچہ غلامی ہماری اسلامی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے، عملی زندگی میں اس کا وجود ناپید ہو چکا ہے، تاہم مستقبل میں دوبارہ ان حالات کا پایا جانا بعید از مکان نہیں۔ چونکہ یہ ایک علمی امانت ہے جو اسلاف نے ہمیں منتقل کی ہے، اس لیے متعلقہ احادیث اور اس کی مختصر تشریح پیش خدمت ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے اور قیامت کے دن ہماری نجات کا ذریعہ بنائے۔
تمہید باب
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پہلے گزر چکی ہے جس میں حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کے مالکان نے اس کی ولاء اپنے لیے ہونے کی شرط عائد کی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے باطل قرار دیتے ہوئے فرمایا تھا: "ولاء تو آزاد کرنے والے کے لیے ہے۔" (صحیح البخاری،البیوع،حدیث:2156)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ نے ایک لونڈی خرید کر اسے آزاد کرنا چاہا تو اس کے مالکان نے کہا: وہ اس شرط پر اسے خریدسکتی ہی کہ اس کی ولا کے ہم خود مالک ہوں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ شرط تمھیں خریدنے سے نہیں روک سکتی کیونکہ ولا کا مالک تو وہی ہے جو آزاد کرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے کتاب الشروط میں ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے: (باب المكاتب، وما لا يحل من الشروط التي تخالف كتاب الله) ’’ایسی شرائط جائز نہیں جو کتاب اللہ کے خلاف ہوں۔‘‘ (صحیح البخاري، الشروط، باب:17) حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے ليس في كتاب الله کی تفسیر بیان فرمائی ہے اور حکم سے عام مراد ہے کہ وہ نص سے ثابت ہو یا اس سے استنباط کیا گیا ہو، البتہ وہ حکم ایسا نہ ہو جو کتاب اللہ کے خلاف ہو۔ (فتح الباري:433/5) (2) واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے حدیث بریرہ سے بے شمار مسائل کا استنباط کیا، اکثر و بیشتر مسائل حافظ ابن حجر ؒ نے بیان کیے ہیں۔ ان مسائل و اقسام کو فتح الباری میں دیکھا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
اس باب میں حضرت ابن عمر ؓکی ایک روایت بھی ہے جو وہ نبی کریم ﷺسے بیان کرتے ہیں
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی نافع سے اور ان سے عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ نے ایک باندی خرید کر اسے آزاد کرنا چاہا، اس باندی کے مالکوں نے کہا کہ اس شرط پر ہم معاملہ کرسکتے ہیں کہ ولاءہمارے ساتھ قائم رہے۔ رسول اللہ ﷺ نے عائشہ ؓ سے فرمایا کہ ان کی اس شرط کی وجہ سے تم نہ رکو، ولاء تو اسی کی ہوتی ہے جو آزاد کرے۔
حدیث حاشیہ:
حدیث بریرہ ؓ سے بہت سے فوائد نکلتے ہیں۔ بعض متاخرین نے ان کو چار سو تک پہنچا دیا ہے جس میں اکثر تکلف ہے۔ کچھ فوائد حافظ ؒنے فتح الباری میں بھی ذکر فرمائے ہیں۔ ان کو وہاں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA): Aisha wanted to buy a slave-girl in order to manumit her. The girl's masters stipulated that her Wala' would be for them. Allah's Apostle (ﷺ) said (to 'Aisha (RA)), "What they stipulate should not stop you, for the Wala' is for the liberator."