Sahi-Bukhari:
Makaatib
(Chapter: The selling of a Mukatab on his agreement)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
گو وہ بدل کتابت ادا کرنے سے عاجز نہ ہوا ہو، اگر عاجز ہوگیا ہو تو وہ غلام ہوجاتا ہے اس کا بیچ ڈالنا سب کے نزدیک درست ہوجاتا ہے۔ امام احمد کا یہی مذہب ہے اور امام ابوحنیفہ اور امام شافعی کے نزدک جب تک وہ عاجز نہ ہو اس کی بیع درست نہیں ہے۔ اور حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ مکاتب پر جب تک کچھ بھی مطالبہ باقی ہے وہ غلام ہی رہے گا اور زید بن ثابت ؓ نے کہا، جب تک ایک درہم بھی باقی ہے ( مکاتب آزاد نہیں ہوگا ) اور عبداللہ ابن عمرؓ نے کہا کہ مکاتب پر جب تک کچھ بھی مطالبہ باقی ہے وہ اپنی زندگی موت اورجرم ( سب ) میں غلام ہی مانا جائے گا۔
2564.
حضرت عمرو بنت عبدالرحمان سے روایت ہے کہ حضرت بریرہ ؓ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے مدد لینے کے لیے حاضر ہوئیں توانھوں نے فرمایا: اگر تیرے مالک یہ پسند کریں کہ میں تیرا بدل کتابت انھیں یکمشت ادا کردوں اور تجھے آزاد کردوں تو میں ایسا کرسکتی ہوں۔ حضرت بریرۃ ؓ نے اس کاذکر اپنے آقاؤں سے کیا تو انھوں نے کہا کہ ہم ولاسے کسی صورت بھی دستبردار نہیں ہوں گے۔ امام مالک ؒ نے یحییٰ سے بیا ن کیا کہ عمرہ نے کہا: حضرت عائشہ ؓ نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا: ’’تو اسے خرید کرآزاد کردے۔ ولا تو اسی کی ہوگی جس نے آزاد کیا ہے۔‘‘
تشریح:
(1) غلام سے ایسا معاملہ کرنا کہ وہ کچھ رقم دے کر آزاد ہو جائے، یعنی مکمل ادائیگی کے وقت وہ مکمل آزاد ہو جائے گا اور جتنا مال ادا کرے گا اتنا ہی آزاد ہوتا جائے گا جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مکاتب جس قدر آزاد ہے اتنی آزاد کی دیت ادا کرے گا اور جتنا غلام ہے اتنی غلام کی دیت ادا کرنا ہو گی۔‘‘ (سنن أبي داود، الدیات، حدیث:4581) جبکہ بعض حضرات کا موقف ہے کہ مکاتب طے شدہ رقم کی مکمل ادائیگی سے پہلے غلام ہی رہے گا، خواہ اس نے نصف سے بھی زیادہ رقم ادا کر دی ہو جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مکاتب غلام ہی ہے جب تک اس پر ایک درہم بھی باقی ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، العتق، حدیث:3926) یہ احادیث ایک دوسری کے مخالف نہیں ہیں بلکہ ان کا مطلب یہ ہے کہ جتنی رقم کی ادائیگی ابھی باقی ہے وہ اتنا ہی غلام رہے گا اور جتنی رقم ادا کر چکا ہے اتنا وہ آزاد ہے۔ (2) مکاتب اگر راضی ہو تو اسے فروخت کرنا بھی جائز ہے اگرچہ وہ ادائیگی سے عاجز نہ ہو جیسا کہ حضرت بریرہ ؓ کا واقعہ ہے کہ ان کے مالکوں نے انہیں ان کی رضا مندی سے فروخت کر دیا۔ کسی روایت میں اس کی صراحت نہیں کہ وہ خود بدل کتابت کی ادائیگی سے عاجز تھیں۔ (فتح الباري:240/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2475
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2564
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2564
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2564
تمہید کتاب
لغوی طور پر مکاتب باب مفاعلہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے۔ اصطلاحی طور پر اس سے مراد وہ غلام یا لونڈی ہے جس کا اس کے آقا کے ساتھ مخصوص معاوضے کے بدلے آزادی کا تحریری معاہدہ ہو جائے۔ مکاتب (تا کی زیر کے ساتھ) وہ آقا جس کی طرف سے کتابت کا معاملہ کیا جائے۔ دور جاہلیت میں لوگ مکاتبت کا معاملہ کرتے تھے، اسلام نے بھی اسے برقرار رکھا۔ تاریخ اسلام میں سب سے پہلے مکاتب حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ہیں اور عورتوں میں سے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے اپنے آقاؤں سے مکاتبت کا معاملہ کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سب سے پہلے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے غلام ابو امیہ نے مکاتبت کی، پھر حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام سیرین سے کتابت کا معاملہ کیا۔ قرآن کریم میں اس بات کی صراحت ہے کہ جب کوئی غلام اپنے آقا سے کتابت کا معاملہ کرنے کی درخواست کرے تو ایسی صورت میں مالک کو درخواست قبول کر لینی چاہیے۔ دراصل اسلام نے اسلامی معاشرے میں لونڈیوں اور غلاموں کے وجود کو کم سے کم کرنے کے لیے کئی ایک اقدامات کیے ہیں اور کئی ایک اصلاحات وضع کر کے اسے ایک مہذب شکل دی ہے:(1) کئی گناہوں کا کفارہ گردن، یعنی غلام آزاد کرنا قرار دیا گیا ہے۔(2) گردن آزاد کرنے کی ترغیب اور فضیلت بیان کی ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔(3) اگر ملک یمین، یعنی لونڈی سے اولاد پیدا ہو جائے تو پھر اسے فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ مالک کے مرنے کے بعد وہ ازخود آزاد ہو جائے گی۔(4) اگر کوئی غلام یا لوندی اپنے مالک سے یہ درخواست کرے کہ میں اپنی آزادی کے بدلے اتنی رقم اتنی مدت میں بالاقساط یا یکمشت ادا کروں گا تو مالک کو یہ درخواست نظرانداز کرنے کی اجازت نہیں بلکہ قرآن حکیم نے حکم دیا ہے کہ مالک اپنے اس مال سے اس غلام کا تعاون کرے جو اللہ نے اسے دے رکھا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا ۖ وَآتُوهُم مِّن مَّالِ اللَّـهِ الَّذِي آتَاكُمْ) "اور تمہارے غلاموں میں سے جو مکاتبت کرنا چاہیں تو اگر تم ان میں بھلائی دیکھو تو ان سے مکاتبت کر لو اور اللہ کے مال سے جو اس نے تمہیں دیا ہے انہیں بھی دو۔" (النور33:24)اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عمل مکاتبت کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے اور ہمیں ترغیب دی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب و سنت کی روشنی میں مکاتبت کی اہمیت و افادیت، اس کے فضائل و مناقب اور احکام و مسائل سے آگاہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے چھ مرفوع احادیث پیش کی ہیں جو متصل اسناد سے مروی ہیں، اور ان پر پانچ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: (1) مکاتب اور اس کی قسطوں کا بیان۔ (2) مکاتب کی طرف سے کون سی شرائط جائز ہیں؟ (3) مکاتب کا مدد طلب کرنا اور دوسروں سے سوال کرنا۔ (4) مکاتب اگر راضی ہو تو اسے فروخت کرنا۔ (5) مکاتب اگر کہے کہ مجھے خرید کر آزاد کر دو تو اس کا خریدنا اور آزاد کرنا جائز ہے۔اگرچہ غلامی ہماری اسلامی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے، عملی زندگی میں اس کا وجود ناپید ہو چکا ہے، تاہم مستقبل میں دوبارہ ان حالات کا پایا جانا بعید از مکان نہیں۔ چونکہ یہ ایک علمی امانت ہے جو اسلاف نے ہمیں منتقل کی ہے، اس لیے متعلقہ احادیث اور اس کی مختصر تشریح پیش خدمت ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے اور قیامت کے دن ہماری نجات کا ذریعہ بنائے۔
تمہید باب
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اثر کو امام ابن ابی شیبہ اور ابن سعد نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ:7/244) اسی طرح حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا اثر امام شافعی اور ابن ابی شیبہ نے متصل سند سے روایت کیا ہے۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ:7/244) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول امام مالک نے بیان کیا ہے۔ (الموطا للامام مالک:2/301،حدیث:1553)
گو وہ بدل کتابت ادا کرنے سے عاجز نہ ہوا ہو، اگر عاجز ہوگیا ہو تو وہ غلام ہوجاتا ہے اس کا بیچ ڈالنا سب کے نزدیک درست ہوجاتا ہے۔ امام احمد کا یہی مذہب ہے اور امام ابوحنیفہ اور امام شافعی کے نزدک جب تک وہ عاجز نہ ہو اس کی بیع درست نہیں ہے۔ اور حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ مکاتب پر جب تک کچھ بھی مطالبہ باقی ہے وہ غلام ہی رہے گا اور زید بن ثابت ؓ نے کہا، جب تک ایک درہم بھی باقی ہے ( مکاتب آزاد نہیں ہوگا ) اور عبداللہ ابن عمرؓ نے کہا کہ مکاتب پر جب تک کچھ بھی مطالبہ باقی ہے وہ اپنی زندگی موت اورجرم ( سب ) میں غلام ہی مانا جائے گا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عمرو بنت عبدالرحمان سے روایت ہے کہ حضرت بریرہ ؓ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے مدد لینے کے لیے حاضر ہوئیں توانھوں نے فرمایا: اگر تیرے مالک یہ پسند کریں کہ میں تیرا بدل کتابت انھیں یکمشت ادا کردوں اور تجھے آزاد کردوں تو میں ایسا کرسکتی ہوں۔ حضرت بریرۃ ؓ نے اس کاذکر اپنے آقاؤں سے کیا تو انھوں نے کہا کہ ہم ولاسے کسی صورت بھی دستبردار نہیں ہوں گے۔ امام مالک ؒ نے یحییٰ سے بیا ن کیا کہ عمرہ نے کہا: حضرت عائشہ ؓ نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا: ’’تو اسے خرید کرآزاد کردے۔ ولا تو اسی کی ہوگی جس نے آزاد کیا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) غلام سے ایسا معاملہ کرنا کہ وہ کچھ رقم دے کر آزاد ہو جائے، یعنی مکمل ادائیگی کے وقت وہ مکمل آزاد ہو جائے گا اور جتنا مال ادا کرے گا اتنا ہی آزاد ہوتا جائے گا جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مکاتب جس قدر آزاد ہے اتنی آزاد کی دیت ادا کرے گا اور جتنا غلام ہے اتنی غلام کی دیت ادا کرنا ہو گی۔‘‘ (سنن أبي داود، الدیات، حدیث:4581) جبکہ بعض حضرات کا موقف ہے کہ مکاتب طے شدہ رقم کی مکمل ادائیگی سے پہلے غلام ہی رہے گا، خواہ اس نے نصف سے بھی زیادہ رقم ادا کر دی ہو جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مکاتب غلام ہی ہے جب تک اس پر ایک درہم بھی باقی ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، العتق، حدیث:3926) یہ احادیث ایک دوسری کے مخالف نہیں ہیں بلکہ ان کا مطلب یہ ہے کہ جتنی رقم کی ادائیگی ابھی باقی ہے وہ اتنا ہی غلام رہے گا اور جتنی رقم ادا کر چکا ہے اتنا وہ آزاد ہے۔ (2) مکاتب اگر راضی ہو تو اسے فروخت کرنا بھی جائز ہے اگرچہ وہ ادائیگی سے عاجز نہ ہو جیسا کہ حضرت بریرہ ؓ کا واقعہ ہے کہ ان کے مالکوں نے انہیں ان کی رضا مندی سے فروخت کر دیا۔ کسی روایت میں اس کی صراحت نہیں کہ وہ خود بدل کتابت کی ادائیگی سے عاجز تھیں۔ (فتح الباري:240/5)
ترجمۃ الباب:
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ مکاتب غلام ہی رہے گا جب تک اس کے ذمے کوئی شے باقی ہے۔حضرت زید بن ثابت ؓفرماتے ہیں: جب تک اس پر ایک درہم بھی باقی ہے وہ غلام ہے۔حضرت ابن عمر ؓکا ا رشاد ہے: وہ غلام ہی ہے اگر زندہ رہے یا مرجائے یاکوئی جرم کرے جب تک اس کے ذمے کوئی چیز باقی ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی یحییٰ بن سعید سے، وہ عمرہ بنت عبدالرحمن سے کہ بریرہ ؓ حضرت عائشہ ؓ سے مدد لینے آئیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے اس سے کہا کہ اگر تمہارے مالک یہ صورت پسند کریں کہ میں (مکاتبت کی ساری رقم) انہیں ایک ہی مرتبہ ادا کردوں اور پھر تمہیں آزاد کردوں تو میں ایسا کرسکتی ہوں۔ بریرہ ؓ نے اس کا ذکر اپنے مالک سے کیا تو انہوں نے کہا کہ (ہمیں اس صورت میں یہ منظور ہے کہ) تیری ولاءہمارے ساتھ ہی قائم رہے۔ مالک نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے بیان کیا کہ عمرہ کو یقین تھا کہ عائشہ ؓ نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو اسے خرید کر آزاد کردے۔ ولاءتو اسی کے ساتھ ہوتی ہے جو آزاد کرے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عائشہ ؓ نے یہ فرمایا کہ تیرے اہل چاہیں تو میں تیری قیمت ایک دفعہ ہی ادا کردوں، یہیں سے باب کا مطلب نکلا کیوں کہ حضرت عائشہ نے بریرہ ؓ کو مول لینا چاہا۔ تو معلوم ہوا کہ مکاتب کی بیع ہوسکتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Amra bint 'AbdurRahman (RA): Buraira went to Aisha (RA) , the mother of the faithful believers to seek her help in her emancipation Aisha (RA) said to her, "If your masters agree, I will pay them your price in a lump sum and manumit you." Buraira mentioned that offer to her masters but they refused to sell her unless the Wala' was for them. 'Aisha (RA) told Allah's Apostle (ﷺ) about it. He said, "Buy and manumit her as the Wala' is for the liberator."