باب : اگر مکاتب کسی شخص سے کہے مجھ کو خرید کر آزاد کردو اور وہ اسی غرض سے اسے خریدلے
)
Sahi-Bukhari:
Makaatib
(Chapter: If a Mukatab slave asks somebody to buy and free him)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2565.
حضرت ایمن حبشی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں حضرت عائشہ ؓ کے پاس گیا اور ان سے کہا: میں عتبہ بن ابو لہب کا غلام تھا، وہ مرگیاہے اور اس کے بیٹے میرے وارث بنے ہیں۔ انھوں نے مجھے ابو عمرو (مخذومی) کے بیٹے کے ہاتھ فروخت کردیاہے اور ابو عمرو کے بیٹے نے مجھے آزاد کردیا ہے۔ اب عتبہ کے بیٹے میری ولا کی شرط لگاتے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے (یہ مقدمہ سن کر)فرمایا: حضرت بریرہ ؓ میرے پاس آئیں جبکہ وہ مکاتبہ تھیں اور مجھ سے کہنے لگیں: مجھے خرید کر آزاد کردیں۔ اس(عائشہ ؓ) نے کہا: ٹھیک ہے میں یہ کرتی ہوں۔ حضرت بریرہ ؓ نے عرض کیا: وہ میری ولا کی شرط کے بغیر مجھے فروخت نہیں کریں گے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے یہ واقعہ از خود سنا، یا آپ کو خبر پہنچی تو آپ نے حضرت عائشہ ؓ سے یہ واقعہ دریافت کیا۔ حضرت عائشہ ؓ سے جو کچھ حضرت بریرہ ؓ نے کہا تھا، انھوں نے وہ (آپ ﷺ سے) بیان کردیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے خرید کر آزاد کردو اور وہ جو بھی شرط لگاتے ہیں اس کی پروانہ کرو۔‘‘ چنانچہ حضرت عائشہ ؓ نے اسے(حضرت بریرہ ؓ کو) خرید کر آزاد کردیا۔ جب اس کے آقاؤں نے ولا کی شرط لگائی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ولا تو اس کے لیے ہے جو آزاد کرے اگرچہ وہ سو شرطیں لگائیں۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث کے مطابق حضرت بریرہ ؓ نے خود حضرت عائشہ ؓ سے درخواست کی کہ اسے خرید کر آزاد کر دیں۔ اس سے امام بخاری ؒ کا عنوان ثابت ہوتا ہے، نیز اس سے معلوم ہوا کہ خریدوفروخت کے وقت اس طرح شرط لگانا جائز ہے اور عقد معاملہ کے منافی نہیں۔ یہ واقعہ اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے خریدنے سے مکاتبت کا معاہدہ خودبخود فسخ ہو گیا۔ (فتح الباري:242/5) (2) شادی شدہ لونڈی اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر عقد کتابت کر سکتی ہے اگرچہ اس کا نتیجہ ان میں جدائی اور فراق ہو، نیز وہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر آزادی حاصل کر سکتی ہے۔ واضح رہے کہ شارح بخاری ابن بطال کے قول کے مطابق بعض متاخرین نے حدیث بریرہ سے سو سے زائد مسائل کا استنباط کیا ہے۔ امام نووی ؒ کہتے ہیں کہ امام ابن خزیمہ اور امام ابن جریر نے اس حدیث کے متعلق مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں۔ بعض حضرات نے حدیث بریرہ کے فوائد چار سو تک پہنچا دیے ہیں لیکن تکلف سے کام لیا گیا ہے۔ امام بخاری ؒ نے "کتاب المکاتب" کے جملہ مسائل اسی ایک حدیث سے اخذ کیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی خدمات جلیلہ کو شرف قبولیت سے نوازا ہے۔ امید ہے کہ قیامت کے دن بھی اللہ تعالیٰ انہیں رسول اللہ ﷺ کی رفاقت و معیت نصیب فرمائے گا۔ بندۂ عاجز بھی اللہ تعالیٰ سے اس کی رحمت کا طلبگار اور اس کی مغفرت کا امیدوار ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2476
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2565
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2565
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2565
تمہید کتاب
لغوی طور پر مکاتب باب مفاعلہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے۔ اصطلاحی طور پر اس سے مراد وہ غلام یا لونڈی ہے جس کا اس کے آقا کے ساتھ مخصوص معاوضے کے بدلے آزادی کا تحریری معاہدہ ہو جائے۔ مکاتب (تا کی زیر کے ساتھ) وہ آقا جس کی طرف سے کتابت کا معاملہ کیا جائے۔ دور جاہلیت میں لوگ مکاتبت کا معاملہ کرتے تھے، اسلام نے بھی اسے برقرار رکھا۔ تاریخ اسلام میں سب سے پہلے مکاتب حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ہیں اور عورتوں میں سے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے اپنے آقاؤں سے مکاتبت کا معاملہ کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سب سے پہلے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے غلام ابو امیہ نے مکاتبت کی، پھر حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام سیرین سے کتابت کا معاملہ کیا۔ قرآن کریم میں اس بات کی صراحت ہے کہ جب کوئی غلام اپنے آقا سے کتابت کا معاملہ کرنے کی درخواست کرے تو ایسی صورت میں مالک کو درخواست قبول کر لینی چاہیے۔ دراصل اسلام نے اسلامی معاشرے میں لونڈیوں اور غلاموں کے وجود کو کم سے کم کرنے کے لیے کئی ایک اقدامات کیے ہیں اور کئی ایک اصلاحات وضع کر کے اسے ایک مہذب شکل دی ہے:(1) کئی گناہوں کا کفارہ گردن، یعنی غلام آزاد کرنا قرار دیا گیا ہے۔(2) گردن آزاد کرنے کی ترغیب اور فضیلت بیان کی ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔(3) اگر ملک یمین، یعنی لونڈی سے اولاد پیدا ہو جائے تو پھر اسے فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ مالک کے مرنے کے بعد وہ ازخود آزاد ہو جائے گی۔(4) اگر کوئی غلام یا لوندی اپنے مالک سے یہ درخواست کرے کہ میں اپنی آزادی کے بدلے اتنی رقم اتنی مدت میں بالاقساط یا یکمشت ادا کروں گا تو مالک کو یہ درخواست نظرانداز کرنے کی اجازت نہیں بلکہ قرآن حکیم نے حکم دیا ہے کہ مالک اپنے اس مال سے اس غلام کا تعاون کرے جو اللہ نے اسے دے رکھا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا ۖ وَآتُوهُم مِّن مَّالِ اللَّـهِ الَّذِي آتَاكُمْ) "اور تمہارے غلاموں میں سے جو مکاتبت کرنا چاہیں تو اگر تم ان میں بھلائی دیکھو تو ان سے مکاتبت کر لو اور اللہ کے مال سے جو اس نے تمہیں دیا ہے انہیں بھی دو۔" (النور33:24)اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عمل مکاتبت کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے اور ہمیں ترغیب دی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب و سنت کی روشنی میں مکاتبت کی اہمیت و افادیت، اس کے فضائل و مناقب اور احکام و مسائل سے آگاہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے چھ مرفوع احادیث پیش کی ہیں جو متصل اسناد سے مروی ہیں، اور ان پر پانچ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: (1) مکاتب اور اس کی قسطوں کا بیان۔ (2) مکاتب کی طرف سے کون سی شرائط جائز ہیں؟ (3) مکاتب کا مدد طلب کرنا اور دوسروں سے سوال کرنا۔ (4) مکاتب اگر راضی ہو تو اسے فروخت کرنا۔ (5) مکاتب اگر کہے کہ مجھے خرید کر آزاد کر دو تو اس کا خریدنا اور آزاد کرنا جائز ہے۔اگرچہ غلامی ہماری اسلامی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے، عملی زندگی میں اس کا وجود ناپید ہو چکا ہے، تاہم مستقبل میں دوبارہ ان حالات کا پایا جانا بعید از مکان نہیں۔ چونکہ یہ ایک علمی امانت ہے جو اسلاف نے ہمیں منتقل کی ہے، اس لیے متعلقہ احادیث اور اس کی مختصر تشریح پیش خدمت ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے اور قیامت کے دن ہماری نجات کا ذریعہ بنائے۔
حضرت ایمن حبشی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں حضرت عائشہ ؓ کے پاس گیا اور ان سے کہا: میں عتبہ بن ابو لہب کا غلام تھا، وہ مرگیاہے اور اس کے بیٹے میرے وارث بنے ہیں۔ انھوں نے مجھے ابو عمرو (مخذومی) کے بیٹے کے ہاتھ فروخت کردیاہے اور ابو عمرو کے بیٹے نے مجھے آزاد کردیا ہے۔ اب عتبہ کے بیٹے میری ولا کی شرط لگاتے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے (یہ مقدمہ سن کر)فرمایا: حضرت بریرہ ؓ میرے پاس آئیں جبکہ وہ مکاتبہ تھیں اور مجھ سے کہنے لگیں: مجھے خرید کر آزاد کردیں۔ اس(عائشہ ؓ) نے کہا: ٹھیک ہے میں یہ کرتی ہوں۔ حضرت بریرہ ؓ نے عرض کیا: وہ میری ولا کی شرط کے بغیر مجھے فروخت نہیں کریں گے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے یہ واقعہ از خود سنا، یا آپ کو خبر پہنچی تو آپ نے حضرت عائشہ ؓ سے یہ واقعہ دریافت کیا۔ حضرت عائشہ ؓ سے جو کچھ حضرت بریرہ ؓ نے کہا تھا، انھوں نے وہ (آپ ﷺ سے) بیان کردیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے خرید کر آزاد کردو اور وہ جو بھی شرط لگاتے ہیں اس کی پروانہ کرو۔‘‘ چنانچہ حضرت عائشہ ؓ نے اسے(حضرت بریرہ ؓ کو) خرید کر آزاد کردیا۔ جب اس کے آقاؤں نے ولا کی شرط لگائی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ولا تو اس کے لیے ہے جو آزاد کرے اگرچہ وہ سو شرطیں لگائیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث کے مطابق حضرت بریرہ ؓ نے خود حضرت عائشہ ؓ سے درخواست کی کہ اسے خرید کر آزاد کر دیں۔ اس سے امام بخاری ؒ کا عنوان ثابت ہوتا ہے، نیز اس سے معلوم ہوا کہ خریدوفروخت کے وقت اس طرح شرط لگانا جائز ہے اور عقد معاملہ کے منافی نہیں۔ یہ واقعہ اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے خریدنے سے مکاتبت کا معاہدہ خودبخود فسخ ہو گیا۔ (فتح الباري:242/5) (2) شادی شدہ لونڈی اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر عقد کتابت کر سکتی ہے اگرچہ اس کا نتیجہ ان میں جدائی اور فراق ہو، نیز وہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر آزادی حاصل کر سکتی ہے۔ واضح رہے کہ شارح بخاری ابن بطال کے قول کے مطابق بعض متاخرین نے حدیث بریرہ سے سو سے زائد مسائل کا استنباط کیا ہے۔ امام نووی ؒ کہتے ہیں کہ امام ابن خزیمہ اور امام ابن جریر نے اس حدیث کے متعلق مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں۔ بعض حضرات نے حدیث بریرہ کے فوائد چار سو تک پہنچا دیے ہیں لیکن تکلف سے کام لیا گیا ہے۔ امام بخاری ؒ نے "کتاب المکاتب" کے جملہ مسائل اسی ایک حدیث سے اخذ کیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی خدمات جلیلہ کو شرف قبولیت سے نوازا ہے۔ امید ہے کہ قیامت کے دن بھی اللہ تعالیٰ انہیں رسول اللہ ﷺ کی رفاقت و معیت نصیب فرمائے گا۔ بندۂ عاجز بھی اللہ تعالیٰ سے اس کی رحمت کا طلبگار اور اس کی مغفرت کا امیدوار ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن ایمن نے بیان کیا کہ مجھ سے میرے باپ ایمن رضی اللہ نے بیان کیا کہ میں عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں پہلے عتبہ بن ابی لہب کا غلام تھا۔ ان کا جب انتقال ہوا تو ان کی اولاد میری وارث ہوئی۔ ان لوگوں نے مجھے عبداللہ ابن ابی عمرو کو بیچ دیا اور ابن عمرو نے مجھے آزاد کردیا۔ لیکن (بیچتے وقت) عتبہ کے وارثوں نے ولاءکی شرط اپنے لیے لگالی تھی (تو کیا یہ شرط صحیح ہے؟) اس پر عائشہ ؓ نے کہا کہ بریرہ ؓ میرے یہاں آئی تھیں اور انہوں نے کتابت کا معاملہ کرلیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے آپ خرید کر آزاد کردیں۔ عائشہ ؓ نے کہا کہ میں ایسا کردوں گی (لیکن مالکوں سے بات چیت کے بعد) انہوں نے بتایا کہ وہ مجھے بیچنے پر صرف اس شرط کے ساتھ راضی ہیں کہ ولاء انہیں کے ساتھ قائم رہے۔ عائشہ ؓ نے کہا کہ پھر مجھے اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی اسے سنایا (عائشہ ؓ نے یہ کہا کہ) آپ کو اس کی اطلاع ملی۔ اس لیے آپ ﷺ نے عائشہ ؓ سے دریافت فرمایا، انہوں نے صورت حال کی آپ کو خبر دی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ بریرہ ؓ کو خرید کر آزاد کردے اور مالکوں کو جو بھی شرط چاہیں لگانے دو۔ چنانچہ عائشہ ؓ نے انہیں خرید کر آزاد کردیا۔ مالکوں نے چونکہ ولاءکی شرط رکھی تھی اس لیے نبی کریم ﷺ نے (صحابہ کرام ؓ کے ایک مجمع سے) خطاب فرمایا، ولاءتو اسی کے ساتھ ہوتی ہے جو آزاد کرے۔ (اور جو آزاد نہ کریں) اگر چہ وہ سو شرطیں بھی لگالیں (ولاءپھر بھی ان کے ساتھ قائم نہیں ہوسکتی)۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عتبہ ؓ ابولہب کے بیٹے تھے۔ رسول کریم ﷺ کے چچا زاد بھائی۔ یہ فتح مکہ کے سال اسلام لائے۔ حضرت بریرہ ؓ نے خود حضرت عائشہ ؓ سے اپنے کو خریدنے اور آزاد کردینے کی درخواست کی تھی۔ اسی سے مضمون کا باب ثابت ہوا۔ الحمد للہ کہ کعبہ شریف میں 5 اپریل ( 1970ء ) کو یہاں تک متن بخاری شریف کے پڑھنے سے فارغ ہوا۔ ساتھ ہی دعاءکی کہ اللہ پاک خدمت بخاری شریف میں کامیابی بخشے اور ان سب دوستوں بزرگوں کے حق میں اسے بطور صدقہ جاریہ قبول کرے جو اس عظیم خدمت میں خادم کے ساتھ ہر ممکن تعاون فرمارہے ہیں۔ جزاهم اللہ أحسن الجزاء في الدنیا والآخرہ۔ آمین سند میں ایمن ؒ کا نام آیا ہے۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں۔ هو أیمن الحبشي المکي نزیل المدینة والد عبدالواحد وهو غیر أیمن بن نایل الحبشي المکي نزیل عسقلان وکلاهما من التابعین ولیس لوالد عبدالواحد في البخاري سوی خمسة أحادیث هذا وآخران عن عائشة وحدیثان عن جابر وکلها متابعة ولم یروعنه غیرولدہ عبدالواحد(فتح الباري)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdul Wahid bin Aiman (RA): I went to 'Aisha (RA) and said, "I was the slave of Utba bin Abu Lahab. "Utba died and his sons became my masters who sold me to Ibn Abu Amr who manumitted me. The sons of 'Utba stipulated that my Wala' should be for them." 'Aisha (RA) said, "Buraira came to me and she was given the writing of emancipation by her masters and she asked me to buy and manumit her. I agreed to it, but Buraira told me that her masters would not sell her unless her Wala' was for them." 'Aisha (RA) said, "I am not in need of that." When the Prophet (ﷺ) heard that, or he was told about it, he asked 'Aisha (RA) about it. 'Aisha (RA) mentioned what Buraira had told her. The Prophet (ﷺ) said, "Buy and manumit her and let them stipulate whatever they like." So, 'Aisha (RA) bought and manumitted her and her masters stipulated that her Wala' should be for them." The Prophet;, said, "The Wala' will be for the liberator even if they stipulated a hundred conditions."