Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: If a creditor gives the debt, due to him, as a gift, ...)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
شعبہ نے کہا اور ان سے حکم نے کہ یہ جائز ہے اور حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو اپنا قرض معاف کردیا تھا اور نبی کریمﷺنے فرمایا، اگر کسی کا دوسرے شخص پر کوئی حق ہے تو اسے ادا کرنا چاہئے یا معاف کرالے۔ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے باپ شہید ہوئے تو ان پر قرض تھا۔ نبی کریم ﷺنے ان کے قرض خواہوں سے کہا کہ وہ میرے باغ کی ( صرف موجودہ ) کھجور ( اپنے قرض کے بدلے میں ) قبول کرلیں اور میرے والد پر ( جو قرض باقی رہ جائے اسے ) معاف کردیں۔ تشریح : فرمان نبوی جو یہاں منقول ہے اس سے باب کا مطلب یوں نکلا کہ حق قرض کو بھی شامل ہے جب اس کو معاف کرانے کا حکم دیا تو معلوم ہوا کہ قرض کا معاف کرنا درست ہے۔ خواہ خود وہ قرض دار کو معاف کردے یا دوسرے شخص کو وہ قرض دے ڈالے کہ تم وصول کرلو اور اپنے کام میں لاؤ۔ مالکیہ کے نزدیک غیر شخص کو بھی دین کا ہبہ درست ہے اور شافعیہ اور حنفیہ کے نزدیک درست نہیں۔ البتہ مدیون کو دین کا ہبہ کرنا سب کے نزدیک درست ہے۔ حضرت حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو محمد ہے۔ آنحضرت ﷺکے نواسے اور جنت کے پھول ہیں، جنت کے تمام جوانوں کے سردار،3ھ رمضان المبارک کی پندرہویں تاریخ کو پیدا ہوئے، وفات50ھ میں واقع ہوئی اور جنت البقیع میں دفن کئے گئے۔ ان سے ان کے بیٹے حسن بن حسن اور ابوہریرہ اور بڑی جماعت نے روایت کی ہے۔ جب ان کے والد بزرگوار حضرت علی کرم اللہ وجہہ کوفہ میں شہید ہوئے تو لوگوں نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی جن کی تعداد چالیس ہزار سے زیادہ تھی اور حضرت معاویہؓ کے سپرد خلافت کا کام پندرہویں جمادی الاول 41ھ میں کیاگیا۔ ان کے اور فضائل کتاب المناقب میں آئیں گے۔
2601.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد غزوہ احد میں شہید ہوئے توان کے قرض خواہوں نے اپنے حقوق کی ادائیگی کا سختی سے مطالبہ کیا۔ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوااور آپ سے گفتگو کی۔ آپ نے قرض خواہوں سے کہا کہ وہ میرے باغ کا پھل قبول کرلیں۔ اورمیرے باپ کو قرض کی ذمہ داری سے بری کردیں تو انھوں نے صاف انکار کردیا۔ رسول اللہ ﷺ نے پھر ان لوگوں کو میرا باغ نہیں دیا اور نہ ان کے لیے پھل ہی تڑوایا بلکہ آپ نے فرمایا: ’’میں تیرے پاس إن شاء اللہ تعالیٰ کل آؤں گا۔‘‘ چنانچہ آپ اگلے روزصبح تشریف لائے۔ نخلستان میں چکر لگایا اور پھل میں برکت کی دعا فرمائی، پھر میں نے باغ کا پھل توڑا اور قرض خواہوں کے تمام حقوق ادا کردیے، باغ کےپھل میں سے کچھ بچ بھی رہا۔ پھر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہواجبکہ آپ تشریف فرماتھے۔ میں نے صورت واقعہ سے آپ کو آگاہ کیا تو آپ نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا جو وہاں بیٹھے ہوئے تھے: ’’عمر!سن رہے ہو؟‘‘ حضرت عمر فاروق ؓ نے عرض کیا: یہ کیوں نہ ہوتا!ہم تو پہلے ہی آپ کو اللہ تعالیٰ کافرستادہ مانتے ہیں۔ اللہ کی قسم!واقعی آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں۔
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے قرض خواہوں سے سفارش کی کہ وہ حضرت جابر ؓ کے باغ کا پھل قبول کر لیں اور باقی ماندہ قرض معاف کر دیں۔ اگر وہ اس پیشکش کو قبول کر لیتے تو اس سے حضرت جابر ؓ کے باپ کی قرض سے براءت ہو جاتی۔ دراصل ایسا کرنا قرض خواہ کی طرف سے مقروض کو قرض ہبہ کر دینا ہے۔ اس واقعے سے معلوم ہوا کہ قرض کے معاملے میں ایسا کرنا جائز ہے۔ اگر ایسا کرنا جائز نہ ہوتا تو رسول اللہ ﷺ قرض خواہوں سے اس قسم کی سفارش نہ کرتے۔ شرعی اعتبار سے ایسا معاملہ کرنے میں کوئی برائی نہیں۔ (2) حدیث کی اپنے عنوان سے مطابقت بالکل واضح ہے لیکن علامہ عینی نے اسے ’’تکلف‘‘ قرار دیا ہے بلکہ اسے معنوی مطابقت کہا ہے۔ (عمدة القاري:424/9) مولانا امین احسن اصلاحی نے عینی کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ روایت غیر متعلق ہے۔ مزید کہا ہے: میں بھی کہتا ہوں کہ باب سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ (تدبرحدیث:357/2) یہ ہے ان حضرات کی امانت و دیانت اور ان کا مبلغ علم اور علمی بصیرت۔ تدبر حدیث میں اس طرح کے متعدد شاہکار دیکھے جا سکتے ہیں، ہم انہیں جمع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بإذن اللہ تعالیٰ
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2511
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2601
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2601
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2601
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
قرض ہبہ کرنے کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ مقروض کو ہبہ کر دے تو اس کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں کیونکہ وہ پہلے ہی سے مقروض کے قبضے میں ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ قرض خواہ، مقروض کے علاوہ کسی اور شخص کو ہبہ کر دے۔ اس میں اختلاف ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک ایسا کرنا بھی جائز ہے جبکہ قرض کی دستاویز اس کے حوالے کر دے یا اس پر گواہ مقرر کر کے اعلان کر دے۔ بعض حضرات کے نزدیک ایسا کرنا جائز نہیں کیونکہ ان کے نزدیک ہبہ میں قبضہ کرنا شرط ہے جو یہاں نہیں پایا جاتا۔ (عمدۃ القاری:9/425) حضرت شعبہ رحمہ اللہ کے اثر کو امام ابن ابی شیبہ نے متصل سند سے روایت کیا ہے۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ:7/599) حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی روایت تلاش بسیار کے باوجود نہیں مل سکی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی پہلے گزر چکا ہے۔ (صحیح البخاری،المظالم،حدیث:2449) اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت بھی آگے متصل سند سے بیان ہو گی۔ (فتح الباری:5/276)
شعبہ نے کہا اور ان سے حکم نے کہ یہ جائز ہے اور حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو اپنا قرض معاف کردیا تھا اور نبی کریمﷺنے فرمایا، اگر کسی کا دوسرے شخص پر کوئی حق ہے تو اسے ادا کرنا چاہئے یا معاف کرالے۔ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے باپ شہید ہوئے تو ان پر قرض تھا۔ نبی کریم ﷺنے ان کے قرض خواہوں سے کہا کہ وہ میرے باغ کی ( صرف موجودہ ) کھجور ( اپنے قرض کے بدلے میں ) قبول کرلیں اور میرے والد پر ( جو قرض باقی رہ جائے اسے ) معاف کردیں۔ تشریح : فرمان نبوی جو یہاں منقول ہے اس سے باب کا مطلب یوں نکلا کہ حق قرض کو بھی شامل ہے جب اس کو معاف کرانے کا حکم دیا تو معلوم ہوا کہ قرض کا معاف کرنا درست ہے۔ خواہ خود وہ قرض دار کو معاف کردے یا دوسرے شخص کو وہ قرض دے ڈالے کہ تم وصول کرلو اور اپنے کام میں لاؤ۔ مالکیہ کے نزدیک غیر شخص کو بھی دین کا ہبہ درست ہے اور شافعیہ اور حنفیہ کے نزدیک درست نہیں۔ البتہ مدیون کو دین کا ہبہ کرنا سب کے نزدیک درست ہے۔ حضرت حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو محمد ہے۔ آنحضرت ﷺکے نواسے اور جنت کے پھول ہیں، جنت کے تمام جوانوں کے سردار،3ھ رمضان المبارک کی پندرہویں تاریخ کو پیدا ہوئے، وفات50ھ میں واقع ہوئی اور جنت البقیع میں دفن کئے گئے۔ ان سے ان کے بیٹے حسن بن حسن اور ابوہریرہ اور بڑی جماعت نے روایت کی ہے۔ جب ان کے والد بزرگوار حضرت علی کرم اللہ وجہہ کوفہ میں شہید ہوئے تو لوگوں نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی جن کی تعداد چالیس ہزار سے زیادہ تھی اور حضرت معاویہؓ کے سپرد خلافت کا کام پندرہویں جمادی الاول 41ھ میں کیاگیا۔ ان کے اور فضائل کتاب المناقب میں آئیں گے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد غزوہ احد میں شہید ہوئے توان کے قرض خواہوں نے اپنے حقوق کی ادائیگی کا سختی سے مطالبہ کیا۔ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوااور آپ سے گفتگو کی۔ آپ نے قرض خواہوں سے کہا کہ وہ میرے باغ کا پھل قبول کرلیں۔ اورمیرے باپ کو قرض کی ذمہ داری سے بری کردیں تو انھوں نے صاف انکار کردیا۔ رسول اللہ ﷺ نے پھر ان لوگوں کو میرا باغ نہیں دیا اور نہ ان کے لیے پھل ہی تڑوایا بلکہ آپ نے فرمایا: ’’میں تیرے پاس إن شاء اللہ تعالیٰ کل آؤں گا۔‘‘ چنانچہ آپ اگلے روزصبح تشریف لائے۔ نخلستان میں چکر لگایا اور پھل میں برکت کی دعا فرمائی، پھر میں نے باغ کا پھل توڑا اور قرض خواہوں کے تمام حقوق ادا کردیے، باغ کےپھل میں سے کچھ بچ بھی رہا۔ پھر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہواجبکہ آپ تشریف فرماتھے۔ میں نے صورت واقعہ سے آپ کو آگاہ کیا تو آپ نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا جو وہاں بیٹھے ہوئے تھے: ’’عمر!سن رہے ہو؟‘‘ حضرت عمر فاروق ؓ نے عرض کیا: یہ کیوں نہ ہوتا!ہم تو پہلے ہی آپ کو اللہ تعالیٰ کافرستادہ مانتے ہیں۔ اللہ کی قسم!واقعی آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ نے قرض خواہوں سے سفارش کی کہ وہ حضرت جابر ؓ کے باغ کا پھل قبول کر لیں اور باقی ماندہ قرض معاف کر دیں۔ اگر وہ اس پیشکش کو قبول کر لیتے تو اس سے حضرت جابر ؓ کے باپ کی قرض سے براءت ہو جاتی۔ دراصل ایسا کرنا قرض خواہ کی طرف سے مقروض کو قرض ہبہ کر دینا ہے۔ اس واقعے سے معلوم ہوا کہ قرض کے معاملے میں ایسا کرنا جائز ہے۔ اگر ایسا کرنا جائز نہ ہوتا تو رسول اللہ ﷺ قرض خواہوں سے اس قسم کی سفارش نہ کرتے۔ شرعی اعتبار سے ایسا معاملہ کرنے میں کوئی برائی نہیں۔ (2) حدیث کی اپنے عنوان سے مطابقت بالکل واضح ہے لیکن علامہ عینی نے اسے ’’تکلف‘‘ قرار دیا ہے بلکہ اسے معنوی مطابقت کہا ہے۔ (عمدة القاري:424/9) مولانا امین احسن اصلاحی نے عینی کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ روایت غیر متعلق ہے۔ مزید کہا ہے: میں بھی کہتا ہوں کہ باب سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ (تدبرحدیث:357/2) یہ ہے ان حضرات کی امانت و دیانت اور ان کا مبلغ علم اور علمی بصیرت۔ تدبر حدیث میں اس طرح کے متعدد شاہکار دیکھے جا سکتے ہیں، ہم انہیں جمع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بإذن اللہ تعالیٰ
ترجمۃ الباب:
امام شعبہ سے بیان کرتے ہیں کہ ایسا کرنا جائز ہے۔ حضرت حسن بن علی ؓ نے اپنا قرض ایک شخص کو ہبہ کردیا تھا۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: "جس شخص پر کوئی حق ہو، وہ اسے ادا کردے یا اس(حق والے) سے معاف کرالے۔ "حضرت جابر ؓنے کہا: جب میرے والد شہید ہوئے تو ان کے ذمے قرض تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض خواہوں سے بطور سفارش کہا تھا کہ وہ میرے باغ کا پھل قبول کرلیں اور میرے باپ کاقرض معاف کردیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہیں یونس نے خبر دی اور لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا ابن شہاب سے، وہ ابن کعب بن مالک سے اور انہیں جابر بن عبداللہ ؓ نے خبر دی کہ احد کی لڑائی میں ان کے باپ شہید ہوگئے (اور قرض چھوڑ گئے) قرض خواہوں نے تقاضے میں بڑی شدت کی، تو میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے اس سلسلے میں گفتگو کی، آپ نے ان سے فرمایا کہوہ میرے باغ کی کھجور لے لیں (جو بھی ہوں) اور میرے والد کو (جو باقی رہ جائے وہ قرض) معاف کردیں۔ لیکن انہوں نے انکار کیا۔ پھر آپ نے میرا باغ انہیں نہیں دیا اور نہ ان کے لیے پھل تڑوائے۔ بلکہ فرمایا کہ کل صبح میں تمہارے یہاں آوں گا۔ صبح کے وقت آپ تشریف لائے اور کھجور کے درختوں میں ٹہلتے رہے اور برکت کی دعا فرماتے رہے پھر میں نے پھل توڑ کر قرض خواہوں کے سارے قرض ادا کردئیے اور میرے پاس کھجور بچ بھی گئی۔ اس کے بعد میں رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے آپ کو واقعہ کی اطلاع دی۔ حضرت عمر ؓ بھی وہیں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے ان سے فرمایا، عمر! سن رہے ہو؟ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا، ہمیں تو پہلے سے معلوم ہے کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ قسم خدا کی ! اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔
حدیث حاشیہ:
عینی نے کہا اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے اس طرح ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جابر کے قرض خواہوں سے یہ سفارش فرمائی کہ باغ میں جتنا میوہ نکلے وہ اپنے قرض کے بدلے لے لو اور جو قرضہ باقی رہے وہ معاف کردو گویا باقی دین کا جابر کو ہبہ ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA): My father was martyred on the day (of the battle) of Uhud and his creditors demanded the debt back in a harsh manner. So I went to Allah's Apostle (ﷺ) and informed him of that, he asked them to accept the fruits of my garden and excuse my father, but they refused. So, Allah's Apostle (ﷺ) did not give them the fruits, nor did he cut them and distribute them among them, but said, "I will come to you tomorrow morning." So, he came to us the next morning and walked about in between the date-palms and invoked Allah to bless their fruits. I plucked the fruits and gave back all the rights of the creditors in full, and a lot of fruits were left for us. Then I went to Allah's Apostle, who was sitting, and informed him about what happened. Allah's Apostle (ﷺ) told 'Umar, who was sitting there, to listen to the story. 'Umar said, "Don't we know that you are Allah's Apostle? By Allah! you are Allah's Apostle! (ﷺ) "