باب : جو چیز قبضہ میں ہو یا نہ ہو اور جو چیز بٹ گئی ہو اور جو نہ بٹی ہو، اس کا ہبہ کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: The received, unreceived, divided and undivided gifts)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریم ﷺاور آپ کے اصحاب نے قبیلہ ہوازن کو ان کی تمام غنیمت ہبہ کردی، حالانکہ اس کی تقسیم نہیں ہوئی تھی۔
2604.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے ایک سفر میں نبی کریم ﷺ کےہاتھ اونٹ فروخت کیا۔ جب ہم مدینہ طیبہ پہنچے تو آپ نے فرمایا: ’’مسجد میں آؤ اور دو رکعت نماز ادا کرو۔‘‘ اس وقت آپ نے اس کی قیمت تول کردی۔ (راوی حدیث) شعبہ نے کہا کہ آپ ﷺ نے اس کی قیمت جھکاؤ کے ساتھ تول کردی۔ اس نقدی سے کچھ نہ کچھ ہمیشہ میرے پاس رہا یہاں تک کہ حرہ کی لڑائی میں اہل شام کے ہاتھ لگ گیا۔
تشریح:
(1) دیگر روایات میں ہے کہ حضرت جابر ؓ اسی اونٹ پر سوار ہو کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ فرماتے ہیں: میں نے اونٹ مسجد کے دروازے کے پاس چھوڑا اور مسجد میں دو رکعتیں ادا کیں۔ بعد ازاں رسول اللہ ﷺ نے مجھے اس کی قیمت ادا کی اور کچھ اضافہ بھی دیا، نیز وہ اونٹ جسے آپ نے ابھی اپنے قبضے میں نہیں لیا تھا وہ بھی مجھے ہبہ کر دیا۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث:2097) (2) امام بخاری ؒ نے یہ ثابت کیا ہے کہ غیر مقبوضہ چیز کا ہبہ بھی جائز ہے، اگرچہ ان روایات میں اس کا ذکر نہیں لیکن عنوان بندی میں آپ نے ان روایات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2514
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2604
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2604
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2604
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
اس روایت کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے آگے حدیث: 2607 اور 2608 کے تحت متصل سند سے بیان کیا ہے۔ اس مقام پر امام بخاری رحمہ اللہ غیر تقسیم شدہ چیز کا ہبہ ثابت کرنا چاہتے ہیں، اس سے مراد یہ ہے کہ مشاع کا ہبہ صحیح ہے۔
اور نبی کریم ﷺاور آپ کے اصحاب نے قبیلہ ہوازن کو ان کی تمام غنیمت ہبہ کردی، حالانکہ اس کی تقسیم نہیں ہوئی تھی۔
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے ایک سفر میں نبی کریم ﷺ کےہاتھ اونٹ فروخت کیا۔ جب ہم مدینہ طیبہ پہنچے تو آپ نے فرمایا: ’’مسجد میں آؤ اور دو رکعت نماز ادا کرو۔‘‘ اس وقت آپ نے اس کی قیمت تول کردی۔ (راوی حدیث) شعبہ نے کہا کہ آپ ﷺ نے اس کی قیمت جھکاؤ کے ساتھ تول کردی۔ اس نقدی سے کچھ نہ کچھ ہمیشہ میرے پاس رہا یہاں تک کہ حرہ کی لڑائی میں اہل شام کے ہاتھ لگ گیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) دیگر روایات میں ہے کہ حضرت جابر ؓ اسی اونٹ پر سوار ہو کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ فرماتے ہیں: میں نے اونٹ مسجد کے دروازے کے پاس چھوڑا اور مسجد میں دو رکعتیں ادا کیں۔ بعد ازاں رسول اللہ ﷺ نے مجھے اس کی قیمت ادا کی اور کچھ اضافہ بھی دیا، نیز وہ اونٹ جسے آپ نے ابھی اپنے قبضے میں نہیں لیا تھا وہ بھی مجھے ہبہ کر دیا۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث:2097) (2) امام بخاری ؒ نے یہ ثابت کیا ہے کہ غیر مقبوضہ چیز کا ہبہ بھی جائز ہے، اگرچہ ان روایات میں اس کا ذکر نہیں لیکن عنوان بندی میں آپ نے ان روایات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
نبی کریم ﷺ اورآپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے قبیلہ ہوازن کو وہ مال ہبہ کردیا جو ان سے بطور غنیمت حاصل کیاتھا، اور وہ مال غنیمت ابھی غیر تقسیم شدہ تھا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا محارب بن دثار سے اور انہوں نے جابر بن عبداللہ ؓ سے سنا، آپ فرماتے تھے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو سفر میں ایک اونٹ بیچا تھا۔ جب ہم مدینہ پہنچے تو آپ نے فرمایا کہ مسجد میں جاکر دو رکعت نماز پڑھ، پھر آپ نے وزن کیا۔ شعبہ نے بیان کیا، میرا خیال ہے کہ (جابر ؓ نے کہا) میرے لیے وزن کیا (آپ کے حکم سے حضرت بلال ؓ نے) اور (اس پلڑے کو جس میں سکہ تھا) جھکا دیا۔ (تاکہ مجھے زیادہ ملے) اس میں سے کچھ تھوڑا سا میرے پاس جب سے محفوظ تھا۔ لیکن شام والے (اموی لشکر) یوم حرہ کے موقع پر مجھ سے چھین کر لے گئے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت مجتہد اعظم امام بخاری ؒ نے ترجمۃ الباب ثابت فرمانے کے لیے قبیلہ ہوازن کے قیدیوں کا معاملہ پیش کیا ہے کہ اسلامی لشکر کے قبضہ میں آنے کے بعد آنحضرت ﷺ نے انہیں پھر ہوازن والوں کو ہبہ فرما دیا تھا۔ دوسرا واقعہ حضرت جابر ؓ کا ہے جن سے آنحضرت ﷺ نے اونٹ خریدا، پھر مدینہ واپس آکر اس کی قیمت ادا فرمائی اور ساتھ ہی مزید آپ نے اور بھی بطور بخشش ہبہ فرمایا۔ اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA): I sold a camel to the Prophet (ﷺ) on one of the journeys. When we reached Medina, he ordered me to go to the Mosque and offer two Rakat. Then he weighed for me (the price of the camel in gold) and gave an extra amount over it. A part of it remained with me till it was taken by the army of Sham on the day of Harra."