Sahi-Bukhari:
Peacemaking
(Chapter: What has been said regarding (re)conciliation between the people)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور سورۃ نساء میں اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ” ان کی اکثر کانا پھونسیوں میں خیر نہیں ، سو ان ( سرگوشیوں ) کے جو صدقہ یا اچھی بات کی طرف لوگوں کو ترغیب دلانے کے لیے ہوں یا لوگوں کے درمیان صلح کرائیں اور جو شخص یہ کام اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کرے گا تو جلد ی ہم اسے اجر عظیم دیں گے “ ۔ اور اس باب میں یہ بیان ہے کہ امام خود اپنے اصحاب کے ساتھ مختلف مقامات پر جاکر لوگوں میں صلح کرائے ۔ تشریح : حضرت امام بخاری نے صلح کی فضیلت میں اسی آیت پر اقتصار کیا، شاید ان کو کوئی حدیث صحیح اس باب میں اپنی شرط پر نہیں ملی۔ امام احمد رحمہ اللہ نے ابوالدرداءسے مرفوعاً نکالا کہ میں تم کو وہ بات نہ بتلاؤں جو روزے اور نماز اور صدقے سے افضل ہے، وہ کیا ہے آپس میں ملاپ کردینا۔ آپس میں فساد نیکیوں کو مٹادیتا ہے۔ صلح کے مقابلے پر فساد جھگڑا جس کی قرآن مجید نے شدت سے برائی کی ہے اور بار بار بتلایا ہے کہ اللہ پاک جھگڑے فساد کو دوست نہیں رکھتا۔ وہ بہرحال صلح، امن، ملاپ کو دوست رکھتا ہے۔
2691.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ سے عرض کیا گیا: اگر آپ (رئیس المنافقین) عبداللہ بن ابی کے پاس تشریف لے جائیں تو بہتر ہوگا، چنانچہ آ پ ﷺ گدھے پر سوار ہوکر اس کے پاس تشریف لے گئے۔ کچھ مسلمان بھی آپ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ جس راستے سے آپ جارہے تھے وہ شور کلر والی زمین تھی۔ جب نبی کریم ﷺ اسکے پاس تشریف لے گئے تو عبداللہ بن ابی کہنے لگا: آپ مجھ سے دور رہیے، اللہ کی قسم! آپ کے گدھے کی بونے مجھے بہت اذیت پہنچائی ہے۔ ان میں سے ایک انصاری ؓ نے کہا: اللہ کی قسم!رسول اللہ ﷺ کا گدھا تجھ سے خوشبودارہے۔ عبداللہ بن ابی منافق کی قوم کا ایک شخص اس پر غضبناک ہوا، یہاں تک کہ دونوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ اس طرح ہر ایک کی طرف سے ان کے ساتھی مشتعل ہوگئے اور ان کے د رمیان چھڑیوں، ہاتھوں اور جوتوں سے مارکٹائی شروع ہوگئی۔ ہمیں معلوم ہوا کہ درج ذیل آیت اس موقع پر نازل ہوئی: ’’اگر اہل ایمان کی دو جماعتیں جھگڑ پڑیں تو ان کے دمیان صلح کرادو۔‘‘
تشریح:
(1) عبداللہ بن ابی قبیلۂ خزرج کا سردار تھا۔ اہل مدینہ نے اسے مشترکہ طور پر اپنا رئیس بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا اور اس کی تاج پوشی کے لیے وقت بھی طے ہو چکا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی مدینہ طیبہ تشریف آوری کی وجہ سے اس رسم تاج پوشی کو عمل میں نہ لایا جا سکا۔ رسول اللہ ﷺ کو مشورہ دیا گیا کہ اگر آپ اس کے پاس تشریف لے جائیں گے تو اس کی دلجوئی ہو گی۔ شاید وہ اپنے ساتھیوں سمیت مسلمان ہو جائے۔ اس بنا پر آپ بلاتکلف وہاں چلے گئے، پھر وہاں جو کچھ ہوا وہ حدیث میں مذکور ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فریقین کے درمیان صلح کرا دی۔ یہ دونوں گروہ مسلمان تھے جیسا کہ آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے۔ درج ذیل حدیث میں مزید تفصیل ہے۔ حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر پالان رکھا ہوا تھا اور آپ کے نیچے مقام فدک کی بنی ہوئی ایک مخملی چادر بچھی ہوئی تھی۔ آپ نے اس سواری پر اپنے پیچھے حضرت اسامہ بن زید ؓ کو بٹھایا۔ آپ حارث بن خزرج قبیلے میں حضرت سعد بن عبادہ ؓ کی تیمارداری کرنا چاہتے تھے۔ یہ غزوۂ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے۔ اس دوران میں رسول اللہ ﷺ ایک مجلس پر سے گزرے جس میں مسلمان، بت پرست مشرک اور یہودی سب شریک تھے۔ اس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی تھا۔ وہاں حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ بھی موجود تھے۔ جب مجلس پر سواری کا گردوغبار پڑا تو عبداللہ بن ابی نے اپنی چادر سے اپنی ناک چھپاتے ہوئے کہا: ہمارے اوپر غبار نہ اڑاؤ۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اتر کر سلام کیا اور وہاں رُک گئے، انہیں اللہ کی طرف بلایا اور انہیں قرآن مجید پڑھ کر سنایا۔ عبداللہ بن ابی بولا: صاحب! یہ اچھی بات نہیں ہے۔ اگر تم صحیح کہتے ہو تو ہماری مجلسوں میں آ کر تکلیف نہ دیا کرو۔ اپنے گھر جاؤ، ہم میں سے جو تمہارے پاس آئے اسے تبلیغ کرو۔ رد عمل کے طور پر حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! آپ ہماری مجالس میں تشریف لایا کریں کیونکہ ہم اسے پسند کرتے ہیں۔ پھر مسلمانوں، مشرکوں اور یہودیوں میں اس بات پر تو تو میں میں ہونے لگی۔ قریب تھا کہ ایک دوسرے پر حملہ کر دیں، لیکن رسول اللہ ﷺ انہیں مسلسل خاموش کراتے رہے یہاں تک کہ وہ خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد آپ اپنی سواری پر بیٹھ کر حضرت سعد بن عبادہ ؓ کے ہاں تشریف لے گئے۔ آپ نے ان سے فرمایا: ’’سعد! تم نے سنا ہے آج ابو حباب نے کیا بات کہی ہے؟‘‘ آپ کا اشارہ عبداللہ بن ابی اور اس کی باتوں کی طرف تھا۔ حضرت سعد ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! اسے معاف کر دیں اور اس سے درگزر فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حق دیا ہے جو آپ کے شایانِ شان تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس بستی (مدینہ طیبہ) کے لوگ (آپ کی تشریف آوری سے پہلے) اس کی تاج پوشی اور دستار بندی پر متفق ہو گئے تھے لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس منصوبے کو اس حق کی وجہ سے ختم کر دیا جو اس نے آپ کو عطا فرمایا ہے تو اسے حسد ہو گیا ہے۔ اس وجہ سے اس نے یہ کردار ادا کیا ہے جو آپ نے ملاحظہ فرمایا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اسے رفع دفع کر دیا۔ (صحیح البخاري، الاستئذان، حدیث:6254) (2) اس مقام پر ایک مشہور سوال ہے کہ حدیث مذکور کے مطابق جھگڑا صحابۂ کرام ؓ اور عبداللہ بن ابی کے ساتھیوں کے درمیان ہوا تھا جبکہ اس وقت عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، لہذا یہ صلح اہل ایمان کے مابین تصور نہیں ہو گی۔ اس کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ کی تفسیر کے مطابق عبداللہ بن ابی کی قوم سے کچھ لوگ مسلمان تھے، انہوں نے عصبیت کی بنا پر عبداللہ بن ابی کی مدد کی تھی۔ (عمدة القاري:575/9)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2596
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2691
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2691
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2691
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے لفظ صلح مصالحت کا اسم مصدر ہے۔ لڑائی جھگڑے کے برعکس امن و آشتی اس کے معنی ہیں۔ شریعت میں اس سے مراد وہ معاہدہ ہے جس کے ذریعے اور مدعا علیہ کے درمیان جھگڑا ختم کرایا جاتا ہے۔ صلح کے مقابلے میں لڑائی جھگڑا اور دنگا فساد ہے جس کی سنگینی کو قرآن مجید نے بیان کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ﴿٢٠٥﴾) "اور اللہ تعالیٰ جھگڑے اور فساد کو پسند نہیں کرتا۔" (البقرۃ205:2)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جو نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور صدقہ و خیرات کرنے سے بہتر ہے؟" صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: ضرور بتلائیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ کیا ہے؟ آپس میں صلح و آشتی سے رہنا۔ باہمی فساد تو نیکیاں ختم کر دیتا ہے۔" (مسند احمد:6/445،444) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صلح کی کئی قسمیں ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:(1) مسلمانوں کی کافروں کے ساتھ صلح کہ وہ ایک دوسرے کو بلاوجہ تنگ نہیں کریں گے۔(2) میاں بیوی کے درمیان صلح کہ وہ دونوں گھر میں پیار محبت سے رہیں گے۔(3) باغی گروہ اور عدل پسند جماعت کے درمیان صلح۔ اس کی قرآن نے ترغیب دی ہے۔(4) آپس میں ناراض ہونے والوں کے درمیان صلح کرانا۔ یہ بہت بڑی نیکی ہے۔(5) زخمی ہونے والے کو قصاص، یعنی بدلہ لینے کے بجائے مال پر صلح کے لیے آمادہ کرنا۔(6) آئندہ لڑائی جھگڑے کا دروازہ بند کرنے کے لیے لوگوں کے مابین صلح کرانا۔یہ آخری قسم املاک اور مشترک چیزوں میں صلح کی ہو سکتی ہے، جیسے راستے وغیرہ۔ فقہ کی کتابوں میں اس آخری قسم کی فروعات کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صلح کے متعلق انتہائی قیمتی معلومات اور احکام و مسائل سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ مذکورہ قسموں میں سے اکثر پر عنوان بندی کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اکتیس مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے بارہ معلق اور انیس متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں انیس مکرر اور بارہ خالص ہیں۔ تین احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے تین آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ واضح رہے کہ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے چودہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو انتہائی اہم اور دور حاضر کی ضرورت ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں صلح کی اہمیت و افادیت، فضیلت و منقبت، آداب و شرائط اور احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان احادیث کو پڑھتے ہوئے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ ہم کس حد تک ان پر عمل پیرا ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے گروہ میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں منافقین راتوں کو الگ بیٹھ کر مشورے کرتے اور وہ بری باتیں ہی سوچتے تھے جو خیر سے خالی ہوتیں کیونکہ صاف ستھری سچی باتیں چھپانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کچھ امور ایسے ہیں جنہیں چھپا کر کرنا بہتر ہوتا ہے، مثلاً: صدقہ دے تو چھپا کر دے تاکہ لینے والا شرمندہ نہ ہو۔ اسی طرح لوگوں کے درمیان صلح کے لیے خفیہ مشورہ کیا جائے تو یہ بھی ایک نیکی کا کام ہے۔ بہرحال لوگوں کے درمیان صلح کرانا باعث اجروثواب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لوگوں کے درمیان صلح کے لیے اگر کوئی شخص اپنی طرف سے کوئی اچھی بات کسی فریق کی طرف منسوب کر دے یا کوئی اچھی بات کہہ دے تو وہ جھوٹا نہیں ہے جیسا کہ حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔ (صحیح البخاری،الصلح،حدیث:2692)
اور سورۃ نساء میں اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ” ان کی اکثر کانا پھونسیوں میں خیر نہیں ، سو ان ( سرگوشیوں ) کے جو صدقہ یا اچھی بات کی طرف لوگوں کو ترغیب دلانے کے لیے ہوں یا لوگوں کے درمیان صلح کرائیں اور جو شخص یہ کام اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کرے گا تو جلد ی ہم اسے اجر عظیم دیں گے “ ۔ اور اس باب میں یہ بیان ہے کہ امام خود اپنے اصحاب کے ساتھ مختلف مقامات پر جاکر لوگوں میں صلح کرائے ۔ تشریح : حضرت امام بخاری نے صلح کی فضیلت میں اسی آیت پر اقتصار کیا، شاید ان کو کوئی حدیث صحیح اس باب میں اپنی شرط پر نہیں ملی۔ امام احمد رحمہ اللہ نے ابوالدرداءسے مرفوعاً نکالا کہ میں تم کو وہ بات نہ بتلاؤں جو روزے اور نماز اور صدقے سے افضل ہے، وہ کیا ہے آپس میں ملاپ کردینا۔ آپس میں فساد نیکیوں کو مٹادیتا ہے۔ صلح کے مقابلے پر فساد جھگڑا جس کی قرآن مجید نے شدت سے برائی کی ہے اور بار بار بتلایا ہے کہ اللہ پاک جھگڑے فساد کو دوست نہیں رکھتا۔ وہ بہرحال صلح، امن، ملاپ کو دوست رکھتا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ سے عرض کیا گیا: اگر آپ (رئیس المنافقین) عبداللہ بن ابی کے پاس تشریف لے جائیں تو بہتر ہوگا، چنانچہ آ پ ﷺ گدھے پر سوار ہوکر اس کے پاس تشریف لے گئے۔ کچھ مسلمان بھی آپ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ جس راستے سے آپ جارہے تھے وہ شور کلر والی زمین تھی۔ جب نبی کریم ﷺ اسکے پاس تشریف لے گئے تو عبداللہ بن ابی کہنے لگا: آپ مجھ سے دور رہیے، اللہ کی قسم! آپ کے گدھے کی بونے مجھے بہت اذیت پہنچائی ہے۔ ان میں سے ایک انصاری ؓ نے کہا: اللہ کی قسم!رسول اللہ ﷺ کا گدھا تجھ سے خوشبودارہے۔ عبداللہ بن ابی منافق کی قوم کا ایک شخص اس پر غضبناک ہوا، یہاں تک کہ دونوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ اس طرح ہر ایک کی طرف سے ان کے ساتھی مشتعل ہوگئے اور ان کے د رمیان چھڑیوں، ہاتھوں اور جوتوں سے مارکٹائی شروع ہوگئی۔ ہمیں معلوم ہوا کہ درج ذیل آیت اس موقع پر نازل ہوئی: ’’اگر اہل ایمان کی دو جماعتیں جھگڑ پڑیں تو ان کے دمیان صلح کرادو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) عبداللہ بن ابی قبیلۂ خزرج کا سردار تھا۔ اہل مدینہ نے اسے مشترکہ طور پر اپنا رئیس بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا اور اس کی تاج پوشی کے لیے وقت بھی طے ہو چکا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی مدینہ طیبہ تشریف آوری کی وجہ سے اس رسم تاج پوشی کو عمل میں نہ لایا جا سکا۔ رسول اللہ ﷺ کو مشورہ دیا گیا کہ اگر آپ اس کے پاس تشریف لے جائیں گے تو اس کی دلجوئی ہو گی۔ شاید وہ اپنے ساتھیوں سمیت مسلمان ہو جائے۔ اس بنا پر آپ بلاتکلف وہاں چلے گئے، پھر وہاں جو کچھ ہوا وہ حدیث میں مذکور ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فریقین کے درمیان صلح کرا دی۔ یہ دونوں گروہ مسلمان تھے جیسا کہ آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے۔ درج ذیل حدیث میں مزید تفصیل ہے۔ حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر پالان رکھا ہوا تھا اور آپ کے نیچے مقام فدک کی بنی ہوئی ایک مخملی چادر بچھی ہوئی تھی۔ آپ نے اس سواری پر اپنے پیچھے حضرت اسامہ بن زید ؓ کو بٹھایا۔ آپ حارث بن خزرج قبیلے میں حضرت سعد بن عبادہ ؓ کی تیمارداری کرنا چاہتے تھے۔ یہ غزوۂ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے۔ اس دوران میں رسول اللہ ﷺ ایک مجلس پر سے گزرے جس میں مسلمان، بت پرست مشرک اور یہودی سب شریک تھے۔ اس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی تھا۔ وہاں حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ بھی موجود تھے۔ جب مجلس پر سواری کا گردوغبار پڑا تو عبداللہ بن ابی نے اپنی چادر سے اپنی ناک چھپاتے ہوئے کہا: ہمارے اوپر غبار نہ اڑاؤ۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اتر کر سلام کیا اور وہاں رُک گئے، انہیں اللہ کی طرف بلایا اور انہیں قرآن مجید پڑھ کر سنایا۔ عبداللہ بن ابی بولا: صاحب! یہ اچھی بات نہیں ہے۔ اگر تم صحیح کہتے ہو تو ہماری مجلسوں میں آ کر تکلیف نہ دیا کرو۔ اپنے گھر جاؤ، ہم میں سے جو تمہارے پاس آئے اسے تبلیغ کرو۔ رد عمل کے طور پر حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! آپ ہماری مجالس میں تشریف لایا کریں کیونکہ ہم اسے پسند کرتے ہیں۔ پھر مسلمانوں، مشرکوں اور یہودیوں میں اس بات پر تو تو میں میں ہونے لگی۔ قریب تھا کہ ایک دوسرے پر حملہ کر دیں، لیکن رسول اللہ ﷺ انہیں مسلسل خاموش کراتے رہے یہاں تک کہ وہ خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد آپ اپنی سواری پر بیٹھ کر حضرت سعد بن عبادہ ؓ کے ہاں تشریف لے گئے۔ آپ نے ان سے فرمایا: ’’سعد! تم نے سنا ہے آج ابو حباب نے کیا بات کہی ہے؟‘‘ آپ کا اشارہ عبداللہ بن ابی اور اس کی باتوں کی طرف تھا۔ حضرت سعد ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! اسے معاف کر دیں اور اس سے درگزر فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حق دیا ہے جو آپ کے شایانِ شان تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس بستی (مدینہ طیبہ) کے لوگ (آپ کی تشریف آوری سے پہلے) اس کی تاج پوشی اور دستار بندی پر متفق ہو گئے تھے لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس منصوبے کو اس حق کی وجہ سے ختم کر دیا جو اس نے آپ کو عطا فرمایا ہے تو اسے حسد ہو گیا ہے۔ اس وجہ سے اس نے یہ کردار ادا کیا ہے جو آپ نے ملاحظہ فرمایا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اسے رفع دفع کر دیا۔ (صحیح البخاري، الاستئذان، حدیث:6254) (2) اس مقام پر ایک مشہور سوال ہے کہ حدیث مذکور کے مطابق جھگڑا صحابۂ کرام ؓ اور عبداللہ بن ابی کے ساتھیوں کے درمیان ہوا تھا جبکہ اس وقت عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، لہذا یہ صلح اہل ایمان کے مابین تصور نہیں ہو گی۔ اس کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ کی تفسیر کے مطابق عبداللہ بن ابی کی قوم سے کچھ لوگ مسلمان تھے، انہوں نے عصبیت کی بنا پر عبداللہ بن ابی کی مدد کی تھی۔ (عمدة القاري:575/9)
ترجمۃ الباب:
نیز حاکم وقت کا اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مختلف مقامات پر صلح کے لیے جانے کا بیان۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "لوگوں کی اکثر سرگوشیوں میں کوئی بھلائی نہیں مگر جو شخص حکم دے صدقے کا یا نیکی وبھلائی کایالوگوں کے درمیان صلح کرانے کا۔ اور جو شخص اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے یہ کام کرے گا جلد ہی ہم اسے اجر عظیم دیں گے۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے باپ سے سنا اور ان سے انس ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ سے عرض کیا گیا، اگر آپ عبداللہ بن ابی (منافق) کے یہاں تشریف لے چلتے تو بہتر تھا۔ آنحضرت ﷺ اس کے یہاں ایک گدھے پر سوار ہوکر تشریف لے گئے ۔ صحابہ ؓ پیدل آپ کے ہمراہ تھے۔ جدھر سے آپ گزر رہے تھے وہ شور زمین تھی۔ جب نبی کریم ﷺ اس کے یہاں پہنچے تو وہ کہنے لگا ذرا آپ دور ہی رہئے آپ کے گدھے کی بو نے میرا دماغ پریشان کردیا ہے۔ اس پر ایک انصاری صحابی بولے کہ اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ کا گدھا تجھ سے زیادہ خوشبودار ہے۔ عبداللہ (منافق) کی طرف سے اس کی قوم کا ایک شخص ان صحابی کی اس بات پر غصہ ہوگیا اور دونوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا۔ پھر دونوں طرف سے دونوں کے حمایتی مشتعل ہوگئے اور ہاتھا پائی ، چھری اور جوتے تک نوبت پہنچ گئی۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یہ آیت اسی موقع پر نازل ہوئی تھی۔ ”اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑپڑیں تو ان میں صلح کرادو۔“
حدیث حاشیہ:
عبداللہ بن ابی خزرج کا سردار تھا، مدینہ والے اس کو بادشاہ بنانے کو تھے، آنحضرت ﷺ تشریف لائے اور یہ امر ملتوی رہا، لوگوں نے آپ کو یہ رائے دی کہ آپ اس کے پاس تشریف لے جائیں گے تو اس کی دلجوئی ہوگی اوربہت سے لوگ اسلام قبول کریں گے۔ پیغمبر مغرور نہیں ہوتے، آپ بلاتکلف تشریف لے گئے۔ مگر اس مردود نے جو اپنے آپ کو بہت نفیس مزاج سمجھتا تھا، آپ کے گدھے کو بدبودار سمجھا اور یہ گستاخانہ کلام کیا جو اس کے خبث باطنی کی دلیل تھا۔ ایک انصاری صحابی نے اس کو منہ توڑ جواب دیا جسے سن کر اس منافق کے خاندان کے کچھ لوگ طیش میں آگئے اور قریب تھا کہ باہم جنگ بپا ہوجائے، آنحضرت ﷺ نے ہر دو فریق میں صلح کرادی، آیت میں مسلمانوں میں صلح کرانے کا ذکر ہے۔ یہ ہر دو گروہ مسلمان ہی تھے۔ کتاب الصلح میں اس لیے اس حدیث کو حضرت امام ؒ نے درج کیا کہ آپس کی صلح صفائی کے لیے آنحضرت ﷺ کی سخت ترین تاکیدات ہیں اور یہ عمل عنداللہ بہت ہی اجروثواب کا موجب ہے۔ آیت مذکورہ فی الباب میں یہ ہے کہ مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑپڑیں تو ان میں صلح کرادو۔ مگر یہاں یہ اعتراض ہوتا ہے کہ آیت تو مسلمانوں کے بارے میں ہے اور عبداللہ بن ابی کے ساتھی تو اس وقت تک کافر تھے۔ قسطلانی نے کہا ابن عباس ؓ کی تفسیر میں ہے کہ عبداللہ بن ابی کے ساتھی بھی مسلمان ہوچکے تھے، آیت میں لفظ ’’مومنین‘‘ خود اس امر پر دلیل ہے۔ اہل اسلام کا باہمی قتل و قتال اتنا برا ہے کہ اس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ اللھم ألف بین قلوبنا وأصلح ذات بیننا بعض متعصب مقلد علماءنے اپنے مسلک کے سوا دوسرے مسلمانوں کے خلاف عوام میں اس قدر تعصب پھیلا رکھا ہے کہ وہ دوسرے مسلمانوں کو بالکل اجنبیت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ ایسے علماءکو خدا نیک سمجھ عطا کرے۔ آمین۔ خاص طور پر اہل حدیث سے بغض و عناد اہل بدعت کی نشانی ہے جیسا کہ حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی ؒنے تحریر فرمایا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): It was said to the Prophet (ﷺ) "Would that you see Abdullah bin Ubai." So, the Prophet (ﷺ) went to him, riding a donkey, and the Muslims accompanied him, walking on salty barren land. When the Prophet (ﷺ) reached 'Abdullah bin Ubai, the latter said, "Keep away from me! By Allah, the bad smell of your donkey has harmed me." On that an Ansari man said (to 'Abdullah), "By Allah! The smell of the donkey of Allah's Apostle (ﷺ) is better than your smell." On that a man from 'Abdullah's tribe got angry for 'Abdullah's sake, and the two men abused each other which caused the friends of the two men to get angry, and the two groups started fighting with sticks, shoes and hands. We were informed that the following Divine Verse was revealed (in this concern):-- "And if two groups of Believers fall to fighting then, make peace between them." (49.9)