باب : صلح نامہ میں لکھنا کافی ہے یہ وہ صلح نامہ ہے جس پر فلاں ولد فلاں اور فلاں ولد فلاں نے صلح کی اور خاندان اور نسب نامہ لکھنا ضروری نہیں ہے ۔
)
Sahi-Bukhari:
Peacemaking
(Chapter: How to write (re)conciliation)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2699.
حضرت براء بن عازب ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نےکہا: نبی کریم ﷺ نے ذی القعدہ میں عمرہ کرنے کا ارادہ کیا تو اہل مکہ نے آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا، یہاں تک کہ ان لوگوں نے آپ سے ان شرائط پر صلح کرلی کہ آپ آئندہ سال صرف تین دن مکہ میں قیام فرمائیں گے۔ جب صلح نامہ لکھنے لگے تو لکھا: یہ وہ دستاویز ہے جس پر محمد رسول اللہ ﷺ نے صلح کی ہے۔ مشرکین نے کہا: ہم تواس رسالت کا اقرار نہیں کریں گے۔ اگر ہم یقین ہوکہ آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں تو ہم آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے کبھی نہ روکیں لیکن آپ تو محمد بن عبداللہ ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’میں اللہ کا رسول بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں۔‘‘ پھر آپ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا: ’’رسول اللہ ﷺ کا لفظ مٹادو۔‘‘ حضرت علی ؓ نے عرض کیا: اللہ کی قسم!میں تو کبھی آپ کانام نہیں مٹاؤں گا۔ تب رسول اللہ ﷺ نے از خود وہ صلح نامہ لیا اور لکھا: ’’یہ وہ دستاویز ہے جس کے مطابق محمد بن عبداللہ نے صلح کی ہے کہ وہ مکہ میں ہتھیار لے کر داخل نہیں ہوں گے مگر وہ اپنے نیام میں ہوں گے اور اگر اہل مکہ میں سے کوئی بھی آپ کے ساتھ جانے کو تیار ہوگا تو آپ اسے مکہ سے باہر نہیں لے جاسکیں گے اور اگر آپ کے ساتھیوں میں سے کوئی شخص مکہ میں رہنا چاہے گا تو آپ اسے نہیں روکیں گے۔‘‘ آئندہ سال جب آپ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور مدت گزرنے والی تھی تو مشرکین حضرت علی ؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے: اپنےساتھی سے کہو کہ آپ ہمارے پاس سے چلے جائیں کیونکہ مدت معاہدہ گزر چکی ہے، چنانچہ نبی کریم ﷺ جب مکہ سے جانے لگے توحضرت حمزہ ؓ کی دختر چچا چچا کہہ کر پیچھا کرنے لگی۔ حضرت علی ؓ نے اسے لے لیا، اس کاہاتھ پکڑ کر حضرت فاطمہ ؓ سے کہا: اسے اٹھا لو یہ تمہاری چچازاد ہے۔ اسے اپنے ساتھ سوار کرلو، پھر اس لڑکی کے متعلق حضرت علی ؓ، حضرت زید ؓ اور حضرت جعفر ؓ نے جھگڑا کیا۔ حضرت علی ؓ نے کہا: میں اس کا زیادہ حقدار ہوں۔ یہ میرے چچا کی صاحبزادی ہے۔ حضرت جعفر ؓ نے کہا: یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میرے عقد میں ہے۔ اور حضرت زید بن حارثہ ؓ نے کہا: یہ میرے بھائی کی دختر ہے۔ نبی کریم ﷺ نے خالہ کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’(پرورش کرنے میں) ماں کی جگہ ہوتی ہے۔‘‘ اس کے بعد حضرت علی ؓسے فرمایا: ’’تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں۔‘‘ نیز حضرت جعفر ؓ سے فرمایا: ’’تم صورت اور سیرت میں میری مانند ہو۔‘‘ حضرت زید بن حارثہ ؓ سے فرمایا: ’’تم ہمارے بھائی بھی ہو اور ہمارے آزاد کردہ غلام بھی۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ صلح کی دستاویز میں نسب وغیرہ کا بیان کرنا تعین اور رفع ابہام کے لیے ہوتا ہے۔ اگر اس کے بغیر یہ مقصد حاصل ہو جائے تو پھر نسب بیان کرنے کی ضرورت نہیں جیسا کہ اس حدیث کے مطابق صلح نامے میں صرف محمد بن عبداللہ لکھا گیا۔ فقہاء نے لکھا ہے: اس طرح کی دستاویز میں والدین، نسب اور قبیلے وغیرہ کا ذکر التباس کی صورت میں ضروری ہے، بسورت دیگر ان کا تحریر کرنا ضروری نہیں۔ (2) اس روایت کے مطابق حضرت علی ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ قوتِ ایمان کے جوش سے یہ نہ ہو سکا کہ آپ کی رسالت جو سراسر برحق اور صحیح تھی اس کو اپنے ہاتھ سے مٹائیں۔ حضرت علی ؓ کو قرائن سے معلوم ہو گیا تھا کہ آپ کا یہ ارشاد، وجوب کے طور پر نہیں ہے ورنہ یہ ممکن نہ تھا کہ آپ اس کی تعمیل نہ کرتے۔ (3) واضح رہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر مصلحت کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ نے مشرکین مکہ کی کئی شرائط کو تسلیم کیا۔ آئندہ سال خود مشرکین ہی کو ان غلط شرائط کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ ہم اس کی تفصیل آئندہ بیان کریں گے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2603
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2699
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2699
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2699
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے لفظ صلح مصالحت کا اسم مصدر ہے۔ لڑائی جھگڑے کے برعکس امن و آشتی اس کے معنی ہیں۔ شریعت میں اس سے مراد وہ معاہدہ ہے جس کے ذریعے اور مدعا علیہ کے درمیان جھگڑا ختم کرایا جاتا ہے۔ صلح کے مقابلے میں لڑائی جھگڑا اور دنگا فساد ہے جس کی سنگینی کو قرآن مجید نے بیان کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ﴿٢٠٥﴾) "اور اللہ تعالیٰ جھگڑے اور فساد کو پسند نہیں کرتا۔" (البقرۃ205:2)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جو نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور صدقہ و خیرات کرنے سے بہتر ہے؟" صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: ضرور بتلائیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ کیا ہے؟ آپس میں صلح و آشتی سے رہنا۔ باہمی فساد تو نیکیاں ختم کر دیتا ہے۔" (مسند احمد:6/445،444) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صلح کی کئی قسمیں ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:(1) مسلمانوں کی کافروں کے ساتھ صلح کہ وہ ایک دوسرے کو بلاوجہ تنگ نہیں کریں گے۔(2) میاں بیوی کے درمیان صلح کہ وہ دونوں گھر میں پیار محبت سے رہیں گے۔(3) باغی گروہ اور عدل پسند جماعت کے درمیان صلح۔ اس کی قرآن نے ترغیب دی ہے۔(4) آپس میں ناراض ہونے والوں کے درمیان صلح کرانا۔ یہ بہت بڑی نیکی ہے۔(5) زخمی ہونے والے کو قصاص، یعنی بدلہ لینے کے بجائے مال پر صلح کے لیے آمادہ کرنا۔(6) آئندہ لڑائی جھگڑے کا دروازہ بند کرنے کے لیے لوگوں کے مابین صلح کرانا۔یہ آخری قسم املاک اور مشترک چیزوں میں صلح کی ہو سکتی ہے، جیسے راستے وغیرہ۔ فقہ کی کتابوں میں اس آخری قسم کی فروعات کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صلح کے متعلق انتہائی قیمتی معلومات اور احکام و مسائل سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ مذکورہ قسموں میں سے اکثر پر عنوان بندی کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اکتیس مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے بارہ معلق اور انیس متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں انیس مکرر اور بارہ خالص ہیں۔ تین احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے تین آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ واضح رہے کہ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے چودہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو انتہائی اہم اور دور حاضر کی ضرورت ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں صلح کی اہمیت و افادیت، فضیلت و منقبت، آداب و شرائط اور احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان احادیث کو پڑھتے ہوئے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ ہم کس حد تک ان پر عمل پیرا ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے گروہ میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت براء بن عازب ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نےکہا: نبی کریم ﷺ نے ذی القعدہ میں عمرہ کرنے کا ارادہ کیا تو اہل مکہ نے آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا، یہاں تک کہ ان لوگوں نے آپ سے ان شرائط پر صلح کرلی کہ آپ آئندہ سال صرف تین دن مکہ میں قیام فرمائیں گے۔ جب صلح نامہ لکھنے لگے تو لکھا: یہ وہ دستاویز ہے جس پر محمد رسول اللہ ﷺ نے صلح کی ہے۔ مشرکین نے کہا: ہم تواس رسالت کا اقرار نہیں کریں گے۔ اگر ہم یقین ہوکہ آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں تو ہم آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے کبھی نہ روکیں لیکن آپ تو محمد بن عبداللہ ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’میں اللہ کا رسول بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں۔‘‘ پھر آپ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا: ’’رسول اللہ ﷺ کا لفظ مٹادو۔‘‘ حضرت علی ؓ نے عرض کیا: اللہ کی قسم!میں تو کبھی آپ کانام نہیں مٹاؤں گا۔ تب رسول اللہ ﷺ نے از خود وہ صلح نامہ لیا اور لکھا: ’’یہ وہ دستاویز ہے جس کے مطابق محمد بن عبداللہ نے صلح کی ہے کہ وہ مکہ میں ہتھیار لے کر داخل نہیں ہوں گے مگر وہ اپنے نیام میں ہوں گے اور اگر اہل مکہ میں سے کوئی بھی آپ کے ساتھ جانے کو تیار ہوگا تو آپ اسے مکہ سے باہر نہیں لے جاسکیں گے اور اگر آپ کے ساتھیوں میں سے کوئی شخص مکہ میں رہنا چاہے گا تو آپ اسے نہیں روکیں گے۔‘‘ آئندہ سال جب آپ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور مدت گزرنے والی تھی تو مشرکین حضرت علی ؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے: اپنےساتھی سے کہو کہ آپ ہمارے پاس سے چلے جائیں کیونکہ مدت معاہدہ گزر چکی ہے، چنانچہ نبی کریم ﷺ جب مکہ سے جانے لگے توحضرت حمزہ ؓ کی دختر چچا چچا کہہ کر پیچھا کرنے لگی۔ حضرت علی ؓ نے اسے لے لیا، اس کاہاتھ پکڑ کر حضرت فاطمہ ؓ سے کہا: اسے اٹھا لو یہ تمہاری چچازاد ہے۔ اسے اپنے ساتھ سوار کرلو، پھر اس لڑکی کے متعلق حضرت علی ؓ، حضرت زید ؓ اور حضرت جعفر ؓ نے جھگڑا کیا۔ حضرت علی ؓ نے کہا: میں اس کا زیادہ حقدار ہوں۔ یہ میرے چچا کی صاحبزادی ہے۔ حضرت جعفر ؓ نے کہا: یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میرے عقد میں ہے۔ اور حضرت زید بن حارثہ ؓ نے کہا: یہ میرے بھائی کی دختر ہے۔ نبی کریم ﷺ نے خالہ کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’(پرورش کرنے میں) ماں کی جگہ ہوتی ہے۔‘‘ اس کے بعد حضرت علی ؓسے فرمایا: ’’تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں۔‘‘ نیز حضرت جعفر ؓ سے فرمایا: ’’تم صورت اور سیرت میں میری مانند ہو۔‘‘ حضرت زید بن حارثہ ؓ سے فرمایا: ’’تم ہمارے بھائی بھی ہو اور ہمارے آزاد کردہ غلام بھی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ صلح کی دستاویز میں نسب وغیرہ کا بیان کرنا تعین اور رفع ابہام کے لیے ہوتا ہے۔ اگر اس کے بغیر یہ مقصد حاصل ہو جائے تو پھر نسب بیان کرنے کی ضرورت نہیں جیسا کہ اس حدیث کے مطابق صلح نامے میں صرف محمد بن عبداللہ لکھا گیا۔ فقہاء نے لکھا ہے: اس طرح کی دستاویز میں والدین، نسب اور قبیلے وغیرہ کا ذکر التباس کی صورت میں ضروری ہے، بسورت دیگر ان کا تحریر کرنا ضروری نہیں۔ (2) اس روایت کے مطابق حضرت علی ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ قوتِ ایمان کے جوش سے یہ نہ ہو سکا کہ آپ کی رسالت جو سراسر برحق اور صحیح تھی اس کو اپنے ہاتھ سے مٹائیں۔ حضرت علی ؓ کو قرائن سے معلوم ہو گیا تھا کہ آپ کا یہ ارشاد، وجوب کے طور پر نہیں ہے ورنہ یہ ممکن نہ تھا کہ آپ اس کی تعمیل نہ کرتے۔ (3) واضح رہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر مصلحت کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ نے مشرکین مکہ کی کئی شرائط کو تسلیم کیا۔ آئندہ سال خود مشرکین ہی کو ان غلط شرائط کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ ہم اس کی تفصیل آئندہ بیان کریں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا اسرائیل سے، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء بن عازب ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ذی قعدہ کے مہینے میں عمرہ کا احرام باندھا۔ لیکن مکہ والوں نے آپ کوشہر میں داخل نہیں ہونے دیا۔ آخر صلح اس پر ہوئی کہ (آئندہ سال) آپ مکہ میں تین روز قیام کریں گے۔ جب صلح نامہ لکھا جانے لگا تو اس میں لکھا گیا کہ یہ وہ صلح نامہ ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ نے کیا ہے۔ لیکن مشرکین نے کہا کہ ہم تو اسے نہیں مانتے۔ اگر ہمیں علم ہوجائے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو نہ روکیں۔ بس آپ صرف محمد بن عبداللہ ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں رسول اللہ بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں۔ اس کے بعد آپ نے علی ؓ سے فرمایا کہ رسول اللہ کا لفظ مٹادو ، انہوں نے عرض کیا نہیں خدا کی قسم! میں تو یہ لفظ کبھی نہ مٹاوں گا۔ آخر آپ ﷺ نے خود دستاویز لی اور لکھا کہ یہ اس کی دستاویز ہے کہ محمد بن عبداللہ نے اس شرط پر صلح کی ہے کہ مکہ میں وہ ہتھیار میان میں رکھے بغیر داخل نہ ہوں گے۔ اگر مکہ کا کوئی شخص ان کے ساتھ جانا چاہے گا تو وہ اسے ساتھ نہ لے جائیں گے۔ لیکن اگر ان کے اصحاب میں سے کوئی شخص مکہ میں رہنا چاہے گا تو اسے وہ نہ روکیں گے۔ جب (آئندہ سال) آپ مکہ تشریف لے گئے اور (مکہ میں قیام کی) مدت پوری ہوگئی تو قریش علی ؓ کے پاس آئے اور کہا کہ اپنے صاحب سے کہئے کہ مدت پوری ہوگئی ہے اور اب وہ ہمارے یہاں سے چلے جائیں۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ مکہ سے روانہ ہونے لگے۔ اس وقت حمزہ ؓ کی ایک بچی چچا چچا کرتی آئیں۔ علی ؓ نے انہیں اپنے ساتھ لے لیا، پھر فاطمہ ؓ کے پاس ہاتھ پکڑ کر لائے اور فرمایا، اپنی چچا زاد بہن کو بھی ساتھ لے لو، انہوں نے اس کو اپنے ساتھ سوار کرلیا، پھر علی، زید اور جعفر ؓ کا جھگڑا ہوا۔ علی ؓ نے فرمایا کہ اس کا میں زیادہ مستحق ہوں، یہ میرے چچا کی بچی ہے۔ جعفر ؓ نے فرمایا کہ یہ میرے بھی چچا کی بچی ہے اور اس کی خالہ میرے نکاح میں بھی ہیں۔ زید ؓ نے فرمایا کہ میرے بھائی کی بچی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بچہ کی خالہ کے حق میں فیصلہ کیا اور فرمایا کہ خالہ ماں کی جگہ ہوتی ہے، پھر علی ؓ سے فرمایا کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔ جعفر ؓ سے فرمایا کہ تم صورت اور عادات و اخلاق سب میں مجھ سے مشابہ ہو۔ زید ؓ سے فرمایا کہ تم ہمارے بھائی بھی ہو اور ہمارے مولا بھی۔
حدیث حاشیہ:
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ آنحضرت ﷺ کے رضائی بھائی تھے۔ اس لیے ان کی صاحبزادی نے آپ کو چچا چچا کہہ کر پکارا۔ حضرت زید ؓ نے اس بچی کو اپنی بھتیجی اس لیے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت زید ؓ کو حضرت حمزہ ؓ کا بھائی بنادیا تھا۔ زید ؓ سے آنحضرت ﷺ نے لفظ مولانا سے خطاب فرمایا، مولیٰ اس غلام کو کہتے ہیں جس کو مالک آزاد کردے۔ آپ ﷺ نے حضرت زید کو آزادکرکے اپنا بیٹا بنالیا تھا۔ جب آپ نے یہ لڑکی ازروئے انصاف حضرت جعفر ؓ کو دلوائی تو اوروں کا دل خوش کرنے کے لیے یہ حدیث فرمائی۔ اس حدیث سے حضرت علی ؓ کی بڑی فضیلت نکلی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا، میں تیرا ہوں، تو میرا ہے۔ مطلب یہ کہ ہم تم دونوں ایک ہی دادا کی اولاد ہیں اور خون ملا ہوا ہے۔ حضرت علی ؓ نے مٹانے اور آپ کا نام نامی لکھنے سے انکار عدول حکمی کے طورپر نہیں کیا، بلکہ قوت ایمانیہ کے جوش سے ان سے یہ نہیں ہوسکا کہ آپ کی رسالت جو سراسر برحق ہے اور صحیح تھی، اس کو اپنے ہاتھ سے مٹائیں۔ حضرت علی ؓ کو یہ بھی معلوم ہوگیا تھا کہ آپ کا حکم بطور وجوب کے نہیں ہے۔ ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ ترجمہ میں صرف فلاں بن فلاں لکھنے پر اقتصار کیا اور زیادہ نسب نامہ خاندان وغیرہ نہیں لکھوایا۔ روایت ہذا میں جو آپ کے خود لکھنے کا ذکر ہے یہ بطور معجزہ ہوگا، ورنہ درحقیقت آپ نبی امی تھے اور لکھنے پڑھنے سے آپ کا کوئی تعلق نہ تھا۔ پھر اللہ نے آپ کو علوم الاولین و الآخرین سے مالا مال فرمایا۔ جو لوگ حضور ﷺ کے امی ہونے کا انکار کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ امی ہونا بھی آپ کا معجزہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara (RA): When the Prophet (ﷺ) intended to perform 'Umra in the month of Dhul-Qada, the people of Makkah did not let him enter Makkah till he settled the matter with them by promising to stay in it for three days only. When the document of treaty was written, the following was mentioned: 'These are the terms on which Muhammad, Allah's Apostle (ﷺ) agreed (to make peace).' They said, "We will not agree to this, for if we believed that you are Allah's Apostle (ﷺ) we would not prevent you, but you are Muhammad bin 'Abdullah." The Prophet (ﷺ) said, "I am Allah's Apostle (ﷺ) and also Muhammad bin 'Abdullah." Then he said to 'Ali, "Rub off (the words) 'Allah's Apostle' ", but 'Ali said, "No, by Allah, I will never rub off your name." So, Allah's Apostle (ﷺ) took the document and wrote, 'This is what Muhammad bin 'Abdullah has agreed upon: No arms will be brought into Makkah except in their cases, and nobody from the people of Makkah will be allowed to go with him (i.e. the Prophet) even if he wished to follow him and he (the Prophet) will not prevent any of his companions from staying in Makkah if the latter wants to stay.' When the Prophet (ﷺ) entered Makkah and the time limit passed, the Makkahns went to 'Ali and said, "Tell your Friend (i.e. the Prophet) to go out, as the period (agreed to) has passed." So, the Prophet (ﷺ) went out of Makkah. The daughter of Hamza ran after them (i.e. the Prophet (ﷺ) and his companions), calling, "O Uncle! O Uncle!" 'Ali received her and led her by the hand and said to Fatima, "Take your uncle's daughter." Zaid and Ja'far quarrel ed about her. 'Ali said, "I have more right to her as she is my uncle's daughter." Ja'far said, "She is my uncle's daughter, and her aunt is my wife." Zaid said, "She is my brother's daughter." The Prophet (ﷺ) judged that she should be given to her aunt, and said that the aunt was like the mother. He then said to 'All, "You are from me and I am from you", and said to Ja'far, "You resemble me both in character and appearance", and said to Zaid, "You are our brother (in faith) and our freed slave."