باب: اگر حاکم صلح کرنے کے لیے اشارہ کرے اور کوئی فریق نہ مانے تو قاعدے کا حکم دے دے
)
Sahi-Bukhari:
Peacemaking
(Chapter: If the Imam (i.ei., ruler) suggests a (re)conciliation)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2708.
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، وہ حضرت زبیر بن عوام ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ ان کا ایک انصاری بدری صحابی سے حرہ کے برساتی نالے کے متعلق جھگڑا ہوا جس سے وہ دونوں (اپنی زمینوں کو) پانی پلایاکرتے تھے۔ وہ اپنا مقدمہ رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’زبیر! تم زمین سیراب کر کے پھر اپنے پڑوسی کے لیے پانی چھوڑدو۔‘‘ اس سے انصاری غضبناک ہوکر کہنے لگا: اللہ کے رسول ﷺ ! یہ اس وجہ سے کہ وہ آپ کا پھوپھی زاد ہے؟یہ بات سن کر رسول اللہ ﷺ کاچہرہ انور متغیر ہوگیا، پھر آپ نے فرمایا: ’’اے زبیر! تم ا پنی زمین کو سیراب کرو، پھر پانی کو روکے رکھو حتیٰ کہ وہ منڈیر تک چڑھ جائے۔‘‘ اس مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زبیر ؓ کو ان کا پورا پورا حق دیا۔ قبل ازیں رسول اللہ ﷺ نے جو فیصلہ کیا تھا اس میں حضرت زبیر ؓ اور انصاری دونوں کی رعایت تھی۔ پھر جب انصاری نے رسول اللہ ﷺ کو غصہ دلایا تو آپ نے حضرت زبیر ؓ کو قانون کے مطابق ان کا پورا حق عطا فرمایا۔ حضرت عروہ نے حضرت زبیر ؓ کے حوالے سے بیان کیاکہ اللہ کی قسم! میرے خیال کے مطابق یہ آیت کریمہ اس جھگڑے کے متعلق نازل ہوئی: ’’مجھے تیرے رب کی قسم!یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوں گے تاآنکہ اپنے اختلافات میں آپ کے فیصلے کو دل وجان سے تسلیم نہ کرلیں۔‘‘
تشریح:
(1) اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زبیر ؓ کو جو پہلے حکم دیا تھا اس میں فریقین کے لیے وسعت اور رعایت تھی، لیکن جب انصاری نے اس رعایت کو غلط رنگ دیا تو قاعدے اور ضابطے کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے حضرت زبیر ؓ کو پورا پورا حق دیا۔ اس آیت کریمہ میں رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کو ایمان کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ جب حاکم فریقین کو آپس میں صلح کا حکم دے لیکن کوئی فریق اس پر دل و جان سے آمادہ نہ ہو تو پھر حسب قاعدہ کاروائی کرنا ہو گی اور قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا جس میں کسی کے لیے رعایت کا پہلو نہیں ہو گا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2612
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2708
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2708
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2708
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے لفظ صلح مصالحت کا اسم مصدر ہے۔ لڑائی جھگڑے کے برعکس امن و آشتی اس کے معنی ہیں۔ شریعت میں اس سے مراد وہ معاہدہ ہے جس کے ذریعے اور مدعا علیہ کے درمیان جھگڑا ختم کرایا جاتا ہے۔ صلح کے مقابلے میں لڑائی جھگڑا اور دنگا فساد ہے جس کی سنگینی کو قرآن مجید نے بیان کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ﴿٢٠٥﴾) "اور اللہ تعالیٰ جھگڑے اور فساد کو پسند نہیں کرتا۔" (البقرۃ205:2)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جو نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور صدقہ و خیرات کرنے سے بہتر ہے؟" صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: ضرور بتلائیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ کیا ہے؟ آپس میں صلح و آشتی سے رہنا۔ باہمی فساد تو نیکیاں ختم کر دیتا ہے۔" (مسند احمد:6/445،444) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صلح کی کئی قسمیں ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:(1) مسلمانوں کی کافروں کے ساتھ صلح کہ وہ ایک دوسرے کو بلاوجہ تنگ نہیں کریں گے۔(2) میاں بیوی کے درمیان صلح کہ وہ دونوں گھر میں پیار محبت سے رہیں گے۔(3) باغی گروہ اور عدل پسند جماعت کے درمیان صلح۔ اس کی قرآن نے ترغیب دی ہے۔(4) آپس میں ناراض ہونے والوں کے درمیان صلح کرانا۔ یہ بہت بڑی نیکی ہے۔(5) زخمی ہونے والے کو قصاص، یعنی بدلہ لینے کے بجائے مال پر صلح کے لیے آمادہ کرنا۔(6) آئندہ لڑائی جھگڑے کا دروازہ بند کرنے کے لیے لوگوں کے مابین صلح کرانا۔یہ آخری قسم املاک اور مشترک چیزوں میں صلح کی ہو سکتی ہے، جیسے راستے وغیرہ۔ فقہ کی کتابوں میں اس آخری قسم کی فروعات کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صلح کے متعلق انتہائی قیمتی معلومات اور احکام و مسائل سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ مذکورہ قسموں میں سے اکثر پر عنوان بندی کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اکتیس مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے بارہ معلق اور انیس متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں انیس مکرر اور بارہ خالص ہیں۔ تین احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے تین آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ واضح رہے کہ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے چودہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو انتہائی اہم اور دور حاضر کی ضرورت ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں صلح کی اہمیت و افادیت، فضیلت و منقبت، آداب و شرائط اور احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان احادیث کو پڑھتے ہوئے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ ہم کس حد تک ان پر عمل پیرا ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے گروہ میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
حکم یہی ہے کہ جس کا کھیت اوپر ہو وہ مینڈوں تک پانی بھر جانے کے بعد اپنے ہمسایہ کے کھیت میں پانی چھوڑ دے۔
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، وہ حضرت زبیر بن عوام ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ ان کا ایک انصاری بدری صحابی سے حرہ کے برساتی نالے کے متعلق جھگڑا ہوا جس سے وہ دونوں (اپنی زمینوں کو) پانی پلایاکرتے تھے۔ وہ اپنا مقدمہ رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’زبیر! تم زمین سیراب کر کے پھر اپنے پڑوسی کے لیے پانی چھوڑدو۔‘‘ اس سے انصاری غضبناک ہوکر کہنے لگا: اللہ کے رسول ﷺ ! یہ اس وجہ سے کہ وہ آپ کا پھوپھی زاد ہے؟یہ بات سن کر رسول اللہ ﷺ کاچہرہ انور متغیر ہوگیا، پھر آپ نے فرمایا: ’’اے زبیر! تم ا پنی زمین کو سیراب کرو، پھر پانی کو روکے رکھو حتیٰ کہ وہ منڈیر تک چڑھ جائے۔‘‘ اس مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زبیر ؓ کو ان کا پورا پورا حق دیا۔ قبل ازیں رسول اللہ ﷺ نے جو فیصلہ کیا تھا اس میں حضرت زبیر ؓ اور انصاری دونوں کی رعایت تھی۔ پھر جب انصاری نے رسول اللہ ﷺ کو غصہ دلایا تو آپ نے حضرت زبیر ؓ کو قانون کے مطابق ان کا پورا حق عطا فرمایا۔ حضرت عروہ نے حضرت زبیر ؓ کے حوالے سے بیان کیاکہ اللہ کی قسم! میرے خیال کے مطابق یہ آیت کریمہ اس جھگڑے کے متعلق نازل ہوئی: ’’مجھے تیرے رب کی قسم!یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوں گے تاآنکہ اپنے اختلافات میں آپ کے فیصلے کو دل وجان سے تسلیم نہ کرلیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زبیر ؓ کو جو پہلے حکم دیا تھا اس میں فریقین کے لیے وسعت اور رعایت تھی، لیکن جب انصاری نے اس رعایت کو غلط رنگ دیا تو قاعدے اور ضابطے کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے حضرت زبیر ؓ کو پورا پورا حق دیا۔ اس آیت کریمہ میں رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کو ایمان کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ جب حاکم فریقین کو آپس میں صلح کا حکم دے لیکن کوئی فریق اس پر دل و جان سے آمادہ نہ ہو تو پھر حسب قاعدہ کاروائی کرنا ہو گی اور قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا جس میں کسی کے لیے رعایت کا پہلو نہیں ہو گا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبردی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ زبیر ؓ بیان کرتے تھے کہ ان میں اور ایک انصاری صحابی میں جو بدر کی لڑائی میں بھی شریک تھے، مدینہ کی پتھریلی زمین کی نالی کے باب میں جھگڑا ہوا۔ وہ اپنا مقدمہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے گئے۔ دونوں حضرات اس نالے سے (اپنے باغ) سیراب کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، زبیر ! تم پہلے سیراب کرلو، پھر اپنے پڑوسی کو بھی سیراب کرنے دو، اس پر انصاری کو غصہ آگیا اور کہا، یا رسول اللہ! اس وجہ سے کہ یہ آپ کی پھوپھی کے لڑکے ہیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آپ نے فرمایا، اے زبیر! تم سیراب کرو اور پانی کو (اپنے باغ میں) اتنی دیر تک آنے دو کہ دیوار تک چڑھ جائے۔ اس مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے زبیر ؓ کو ان کا پورا حق عطا فرمایا، اس سے پہلے آپ نے ایسا فیصلہ کیا تھا ، جس میں حضرت زبیر ؓ اور انصاری صحابی دونوں کی رعایت تھی۔ لیکن جب انصاری نے رسول اللہ ﷺ کو غصہ دلایا تو آپ نے زبیر ؓ کو قانون کے مطابق پورا حق عطا فرمایا۔ عروہ نے بیان کیا کہ زبیر ؓ نے بیان کیا، قسم اللہ کی! میرا خیال ہے کہ یہ آیت اسی واقعہ پر نازل ہوئی تھی ”پس ہرگز نہیں ! تیرے رب کی قسم ، یہ لوگ اس وقت تک مومن نہ ہوں گے جب تک اپنے اختلافات میں آپ کے فیصلے کو دل و جان سے تسلیم نہ کرلیں۔“
حدیث حاشیہ:
قاعدے اور ضابطے کا جہاں تک تعلق ہے آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی حضرت زبیر ؓ کے حق میں بالکل انصاف پر مبنی تھا۔ مگر انصاری صحابی کو اس میں رو رعایت کا پہلو نظر آیا جو صحیح نہ تھا، اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور بلا چوں و چرا اطاعت رسول ﷺ کو ایمان کی بنیاد قرار دیاگیا۔ آیت کریمہ سے ان مقلدین جامدین کا بھی رد ہوتا ہے جو صحیح احادیث پر اپنے ائمہ کو ترجیح دیتے اور مختلف حیلوں بہانوں سے فیصلہ نبوی کو ٹال دیتے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ حجۃ اللہ البالغہ جلد اول صفحہ: 365، 366 پر فرماتے ہیں۔ ’’پس اگر ہمیں رسول معصوم کی حدیث بہ سند صحیح پہنچے جس کی اطاعت خدا نے ہم پر فرض کی ہے اور مجتہد کا مذہب اس سے مخالف ہو اور اس کے باوجود ہم حدیث صحیح کو چھوڑ کر مجتہد کی تخمین اور ظنی بات کی پیروی کریں تو ہم سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا اور ہم اس وقت کیا عذر پیش کریں گے جب کہ لوگ اللہ رب العالمین کے سامنے حاضر ہوں گے ۔‘‘ دوسری جگہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب ؒنے ایسی تقلید کو آیت ﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ﴾(التوبة:31) کا مصداق قرار دیا ہے۔ (حجة اللہ البالغة)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Urwa bin Az-Zubair (RA): Az-Zubair told me that he quarrelled with an Ansari man who had participated in (the battle of) Badr in front of Allah's Apostle (ﷺ) about a water stream which both of them used for irrigation. Allah's Apostle (ﷺ) said to Az-Zubair, "O Zubair! Irrigate (your garden) first, and then let the water flow to your neighbor." The Ansari became angry and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Is it because he is your cousin?" On that the complexion of Allah's Apostle (ﷺ) changed (because of anger) and said (to Az-Zubair), "I irrigate (your garden) and then with-hold the water till it reaches the walls (surrounding the palms)." So, Allah's Apostle (ﷺ) gave Az-Zubair his full right. Before that Allah's Apostle (ﷺ) had given a generous judgment beneficial for Az-Zubair and the Ansari, but when the Ansan irritated Allah's Apostle (ﷺ) he gave Az-Zubair his full right according to the evident law. Az-Zubair said, "By Allah ! I think the following Verse was revealed concerning that case: "But no by your Lord They can have No faith Until they make you judge In all disputes between them." (4.65)