باب : اسلام میں داخل ہوتے وقت اور معاملات بیع و شراء میں کون سی شرطیں لگانا جائز ہے ؟
)
Sahi-Bukhari:
Conditions
(Chapter: The conditions permissible on embracing Islam, and in contracts and transactions)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2715.
حضرت جریر بن عبد اللہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے بروقت نماز پڑھنے باقاعدہ زکاۃ دینے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔
تشریح:
ان دونوں احادیث میں بیعت کرتے وقت ہر مسلمان کی خیرخواہی کا ذکر ہے۔ ایک حدیث میں مکمل دین اسلام کو خیرخواہی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کس کے لیے خیرخواہی کی جائے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، حکمرانوں کے لیے اور عام انسانوں کے لیے خیرخواہی کے جذبات رکھیں جائیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:196(55)) اللہ تعالیٰ کے لیے خیرخواہی یہ ہے کہ اس پر ایمان و یقین رکھا جائے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے، اس کے احکام مانے جائیں اور اس کی نافرمانی سے بچا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے لیے خیرخواہی یہ ہے کہ دل و جان سے اس کی تعظیم کی جائے اور اس میں بیان کیے گئے احکام پر عمل کیا جائے۔ اللہ کے رسول ﷺ کے لیے خیرخواہی یہ ہے کہ اس کی لائی ہوئی شریعت کو اللہ کی طرف سے نازل کی ہوئی تسلیم کیا جائے اور آپ کی تعظیم و توقیر میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی جائے۔ حکمرانوں کے لیے خیرخواہی یہ ہے کہ شرعی معاملات میں ان کا تعاون کیا جائے اور ان کے خلاف بغاوت نہ کی جائے۔ عوام الناس کے لیے خیرخواہی یہ ہے کہ ان کی رہنمائی کی جائے اور انہیں تکلیف دینے سے بچا جائے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2618
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2715
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2715
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2715
تمہید کتاب
لغوی طور پر شرط کے معنی علامت کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں شرط وہ ہے جس پر کسی چیز کا موجود ہونا موقوف ہو اور خود وہ چیز اس میں داخل نہ ہو، جیسے نماز کے لیے وضو شرط ہے لیکن وضو نماز میں داخل نہیں ہے، البتہ نماز کا صحیح ہونا اس پر موقوف ہے۔ رکن اور شرط میں یہی فرق ہے کہ رکن اس چیز کا حصہ ہوتا ہے جبکہ شرط مشروط کا حصہ نہیں ہوتی جیسا کہ سجدہ اور رکوع نماز کا رکن ہے۔ ان پر نماز کا وجود موقوف ہے اور یہ دونوں نماز کا حصہ ہیں۔ اس عنوان کے تحت شرائط کے مسائل و احکام بیان ہوں گے۔شرط کی اہمیت کا اس امر سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمان آپس میں جو شرائط طے کر لیں ان کا پورا کرنا ضروری ہے اور ایسی شرائط کا کوئی اعتبار نہیں جو اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو حرام اور حرام کی ہوئی چیز کو حلال کر دیں۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "جس شرط کی بنیاد اللہ کی کتاب میں نہ ہو وہ سرے سے باطل ہے اگرچہ ایسی سو شرائط ہی کیوں نہ ہوں۔" (صحیح البخاری،الشروط،حدیث:2735) امام بخاری رحمہ اللہ نے شرائط کے احکام بیان کرنے کے لیے سینتالیس مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں بیالیس مکرر اور صرف پانچ احادیث خالص ہیں، پھر ان میں ستائیس معلق ہیں اور باقی بائیس احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے گیارہ آثار بھی ذکر کیے گئے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریباً انیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے شرائط کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ عنوانات پر سرسری نظر ڈالنے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فہم و فراست اور وسعت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے زندگی کے ہر شعبے سے متعلق شرائط کا تذکرہ بڑی جامعیت کے ساتھ کیا ہے، پھر ان کی حیثیت سے بھی ہمیں آگاہ فرمایا ہے۔ اس سلسلے میں اپنے بیان کردہ موقف کو دلائل سے ثابت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ احادیث کو صرف اپنی معلومات میں اضافے کے لیے زیر مطالعہ نہیں لانا چاہیے۔ اگرچہ یہ بھی ایک بڑا مقصد ہے لیکن ایک مسلمان کو اپنی عملی زندگی سنوارنے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ ان احادیث کی وضاحت کرتے وقت فکر محدثین کو زیادہ سے زیادہ اُجاگر کریں اور امام بخاری رحمہ اللہ کے محدثانہ مزاج کے مطابق ان کی وضاحت کریں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت جریر بن عبد اللہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے بروقت نماز پڑھنے باقاعدہ زکاۃ دینے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔
حدیث حاشیہ:
ان دونوں احادیث میں بیعت کرتے وقت ہر مسلمان کی خیرخواہی کا ذکر ہے۔ ایک حدیث میں مکمل دین اسلام کو خیرخواہی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کس کے لیے خیرخواہی کی جائے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، حکمرانوں کے لیے اور عام انسانوں کے لیے خیرخواہی کے جذبات رکھیں جائیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:196(55)) اللہ تعالیٰ کے لیے خیرخواہی یہ ہے کہ اس پر ایمان و یقین رکھا جائے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے، اس کے احکام مانے جائیں اور اس کی نافرمانی سے بچا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے لیے خیرخواہی یہ ہے کہ دل و جان سے اس کی تعظیم کی جائے اور اس میں بیان کیے گئے احکام پر عمل کیا جائے۔ اللہ کے رسول ﷺ کے لیے خیرخواہی یہ ہے کہ اس کی لائی ہوئی شریعت کو اللہ کی طرف سے نازل کی ہوئی تسلیم کیا جائے اور آپ کی تعظیم و توقیر میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی جائے۔ حکمرانوں کے لیے خیرخواہی یہ ہے کہ شرعی معاملات میں ان کا تعاون کیا جائے اور ان کے خلاف بغاوت نہ کی جائے۔ عوام الناس کے لیے خیرخواہی یہ ہے کہ ان کی رہنمائی کی جائے اور انہیں تکلیف دینے سے بچا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے قیس بن ابی حازم نے اور ان سے جریر بن عبداللہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے میں نے نماز قائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیرخواہی کرنے کی شرطوں کے ساتھ بیعت کی تھی۔
حدیث حاشیہ:
ہردو احادیث میں بیعت کے شرائط نماز قائم کرنے وغیرہ کے متعلق ذکر ہے، اسی لیے ان کو یہاں لایاگیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA): I gave the pledge of allegiance to Allah's Apostle (ﷺ) for offering the prayers perfectly paying the Zakat and giving good advice to every Muslim.