Sahi-Bukhari:
Conditions
(Chapter: The conditions of selling)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2717.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ حضرت بریرہ ؓ ان کے پاس آئیں اور وہ ان سے اپنی کتابت کی رقم کے سلسلے میں مددلینا چاہتی تھیں، جبکہ انھوں نے کتابت کی رقم سے ابھی کچھ بھی ادا نہیں کیا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ نے ان سے فرمایا: تم اپنے آقاؤں کے پاس جاؤ اگر وہ پسند کریں تو میں تیری کتابت کی رقم یکمشت ادا کر دوں بشرطیکہ تیری ولا میرے لیےہو گی، میں ایسا کرنے کو تیار ہوں۔ حضرت بریرہ ؓ نے اپنے مالکان سے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے اس سے انکار کر دیا اور کہا: اگرحضرت عائشہ ؓ ثواب لینے کے لیے ایسا کرنا چاہیں تو کر لیں لیکن ولا ہمارے لیے رہے گی۔ حضرت عائشہ ؓ نے جب اس کا تذکرہ رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ نے ان سے فرمایا: ’’تم بریرہ ؓ کو خرید کر آزاد کرو۔ ولا تو اسی کا حق ہے جس نے آزاد کیا ہے۔‘‘
تشریح:
امام بخاری ؒ نے خریدوفروخت میں شرط کے جائز یا ناجائز ہونے کی وضاحت نہیں کی بلکہ اسے مطلق رکھا ہے کیونکہ اس میں اختلاف ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم اسے خرید لو اور ان کے لیے ولا کی شرط بھی کر لو۔ بلاشبہ ولا تو اسی کی ہے جس نے آزاد کیا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث:2168) اس روایت کے مطابق اگر خریدوفروخت کرتے وقت کوئی ناجائز شرط رکھی گئی تو بیع صحیح اور شرط باطل ہو گی جبکہ بعض فقہاء کے ہاں بیع اور شرط دونوں باطل ہوں گی۔ اس طرح یہ حدیث عنوان کے مطابق ہو گی۔ (عمدة القاري:611/9)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2620
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2717
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2717
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2717
تمہید کتاب
لغوی طور پر شرط کے معنی علامت کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں شرط وہ ہے جس پر کسی چیز کا موجود ہونا موقوف ہو اور خود وہ چیز اس میں داخل نہ ہو، جیسے نماز کے لیے وضو شرط ہے لیکن وضو نماز میں داخل نہیں ہے، البتہ نماز کا صحیح ہونا اس پر موقوف ہے۔ رکن اور شرط میں یہی فرق ہے کہ رکن اس چیز کا حصہ ہوتا ہے جبکہ شرط مشروط کا حصہ نہیں ہوتی جیسا کہ سجدہ اور رکوع نماز کا رکن ہے۔ ان پر نماز کا وجود موقوف ہے اور یہ دونوں نماز کا حصہ ہیں۔ اس عنوان کے تحت شرائط کے مسائل و احکام بیان ہوں گے۔شرط کی اہمیت کا اس امر سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمان آپس میں جو شرائط طے کر لیں ان کا پورا کرنا ضروری ہے اور ایسی شرائط کا کوئی اعتبار نہیں جو اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو حرام اور حرام کی ہوئی چیز کو حلال کر دیں۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "جس شرط کی بنیاد اللہ کی کتاب میں نہ ہو وہ سرے سے باطل ہے اگرچہ ایسی سو شرائط ہی کیوں نہ ہوں۔" (صحیح البخاری،الشروط،حدیث:2735) امام بخاری رحمہ اللہ نے شرائط کے احکام بیان کرنے کے لیے سینتالیس مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں بیالیس مکرر اور صرف پانچ احادیث خالص ہیں، پھر ان میں ستائیس معلق ہیں اور باقی بائیس احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے گیارہ آثار بھی ذکر کیے گئے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریباً انیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے شرائط کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ عنوانات پر سرسری نظر ڈالنے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فہم و فراست اور وسعت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے زندگی کے ہر شعبے سے متعلق شرائط کا تذکرہ بڑی جامعیت کے ساتھ کیا ہے، پھر ان کی حیثیت سے بھی ہمیں آگاہ فرمایا ہے۔ اس سلسلے میں اپنے بیان کردہ موقف کو دلائل سے ثابت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ احادیث کو صرف اپنی معلومات میں اضافے کے لیے زیر مطالعہ نہیں لانا چاہیے۔ اگرچہ یہ بھی ایک بڑا مقصد ہے لیکن ایک مسلمان کو اپنی عملی زندگی سنوارنے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ ان احادیث کی وضاحت کرتے وقت فکر محدثین کو زیادہ سے زیادہ اُجاگر کریں اور امام بخاری رحمہ اللہ کے محدثانہ مزاج کے مطابق ان کی وضاحت کریں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ حضرت بریرہ ؓ ان کے پاس آئیں اور وہ ان سے اپنی کتابت کی رقم کے سلسلے میں مددلینا چاہتی تھیں، جبکہ انھوں نے کتابت کی رقم سے ابھی کچھ بھی ادا نہیں کیا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ نے ان سے فرمایا: تم اپنے آقاؤں کے پاس جاؤ اگر وہ پسند کریں تو میں تیری کتابت کی رقم یکمشت ادا کر دوں بشرطیکہ تیری ولا میرے لیےہو گی، میں ایسا کرنے کو تیار ہوں۔ حضرت بریرہ ؓ نے اپنے مالکان سے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے اس سے انکار کر دیا اور کہا: اگرحضرت عائشہ ؓ ثواب لینے کے لیے ایسا کرنا چاہیں تو کر لیں لیکن ولا ہمارے لیے رہے گی۔ حضرت عائشہ ؓ نے جب اس کا تذکرہ رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ نے ان سے فرمایا: ’’تم بریرہ ؓ کو خرید کر آزاد کرو۔ ولا تو اسی کا حق ہے جس نے آزاد کیا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے خریدوفروخت میں شرط کے جائز یا ناجائز ہونے کی وضاحت نہیں کی بلکہ اسے مطلق رکھا ہے کیونکہ اس میں اختلاف ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم اسے خرید لو اور ان کے لیے ولا کی شرط بھی کر لو۔ بلاشبہ ولا تو اسی کی ہے جس نے آزاد کیا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث:2168) اس روایت کے مطابق اگر خریدوفروخت کرتے وقت کوئی ناجائز شرط رکھی گئی تو بیع صحیح اور شرط باطل ہو گی جبکہ بعض فقہاء کے ہاں بیع اور شرط دونوں باطل ہوں گی۔ اس طرح یہ حدیث عنوان کے مطابق ہو گی۔ (عمدة القاري:611/9)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے اور انہیں عائشہ ؓ نے خبر دی کہ بریرہ ؓ عائشہ ؓ کے یہاں اپنی مکاتبت کے بارے میں ان سے مدد لینے کے لیے آئیں، انہوں نے ابھی تک اس معاملے میں (اپنے مالکوں کو) کچھ دیا نہیں تھا۔ عائشہ ؓ نے ان سے فرمایا کہ اپنے مالکوں کے یہاں جاکر (ان سے دریافت کرو) اگر وہ یہ صورت پسند کریں کہ تمہاری مکاتبت کی ساری رقم میں ادا کردوں اور تمہاری ولاءمیرے ساتھ قائم ہوجائے تو میں ایسا کرسکتی ہوں۔ بریرہ ؓنے اس کا تذکرہ جب اپنے مالکوں کے سامنے کیا تو انہوں نے انکار کیا اور کہا کہ وہ (عائشہ ؓ) اگر چاہیں تو یہ کارثواب تمہارے ساتھ کرسکتی ہیں لیکن ولاءتو ہمارے ہی ساتھ قائم ہوگی۔ عائشہ ؓ نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ نے ان سے فرمایا کہ تم انہیں خرید کر آزاد کردو، ولاءتو بہر حال اسی کے ساتھ قائم ہوتی ہے جو آزاد کردے۔
حدیث حاشیہ:
بیع میں خلاف شرع شرطیں لگانا جائز نہیں، اگر کوئی ایسی شرطیں لگائے بھی تو وہ شرطیں باطل ہوں گی، باب اور حدیث کا یہاں یہی مقصد ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Urwa (RA): Aisha told me that Buraira came to seek her help in writing for emancipation and at that time she had not paid any part of her price. 'Aisha (RA) said to her, "Go to your masters and if they agree that I will pay your price (and free you) on condition that your Wala' will be for me, I will pay the money." Buraira told her masters about that, but they refused, and said, "If 'Aisha (RA) wants to do a favor she could, but your Wala will be for us." Aisha (RA) informed Allah's Apostle (ﷺ) of that and he said to her, "Buy and manumit Buraira as the Wala' will go to the manumitted."