قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الوَصَايَا (بَابُ الوَصِيَّةِ بِالثُّلُثِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ الحَسَنُ: «لاَ يَجُوزُ لِلذِّمِّيِّ وَصِيَّةٌ إِلَّا الثُّلُثَ» وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ} [المائدة: 49]

2744. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ، عَنْ هَاشِمِ بْنِ هَاشِمٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: مَرِضْتُ، فَعَادَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ لاَ يَرُدَّنِي عَلَى عَقِبِي، قَالَ: «لَعَلَّ اللَّهَ يَرْفَعُكَ وَيَنْفَعُ بِكَ نَاسًا»، قُلْتُ: أُرِيدُ أَنْ أُوصِيَ، وَإِنَّمَا لِي ابْنَةٌ، قُلْتُ: أُوصِي بِالنِّصْفِ؟ قَالَ: «النِّصْفُ كَثِيرٌ»، قُلْتُ: فَالثُّلُثِ؟ قَالَ: «الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ أَوْ كَبِيرٌ»، قَالَ: فَأَوْصَى النَّاسُ بِالثُّلُثِ، وَجَازَ ذَلِكَ لَهُمْ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور امام حسن بصری نے کہا کہ ذمی کافر کے لئے بھی تہائی مال سے زیادہ کی و صیت نافذ نہ ہو گی ۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ مائدہ میں فرمایا کہ آپ ان میں غیر مسلموں میں بھی اس کے مطابق فیصلہ کیجئے جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر نازل فرمایا ہے ۔ تشریح : ذمی اور مسلمانوں کا ایک ہی حکم ہے کسی کی وصیت تہائی ما ل سے زیادہ نافذ نہ ہوگی ۔ امام مالک اورشافعی اور امام احمد کایہی قول ہے کہ وصیت تہائی مال سے زیادہ میں نافذنہ ہوگی ، اگر میت کے وارث نہ ہو ں تو باقی مال بیت المال میں رکھا جائے گا اور حنفیہ کا یہ قول ہے کہ اگر وارث نہ ہو یا وارث ہوں اور وہ اجازت دیں تو ثلث سے زیادہ میں بھی وصیت نافذ ہو سکتی ہے ۔ ابن بطال نے کہا کہ امام بخاری  نے امام حسن بصری کا قول لا کر حنفیہ پر رد کیا اور اسی لئے قرآن کی یہ آیت لائے ( وان احکم بینھم بما انزل ) ( المائدہ : 49 ) کیونکہ آنحضرتﷺکا حکم بھی ( بما انزل اللہ ) میں داخل ہے ( وحیدی ) قال ابن بطال اراد البخاری بھذا الرد علی من قال کالحنفیۃ لجوازالوصیۃ بالزیادۃ علی الثلث لمن لا وارث لہ و کذالک احتج بقولہ وان احکم بینھم بما انزل اللہ والذی حکم بہ النبیﷺمن الثلث وھواالحکم بما انزل اللہ فمن تجاوز ما حدہ فقد اتی ما نھی عنہ و قال ابن المنیر لم یرد البخاری ھذا وانما اراد الاستشھاد بالایۃ علی ان الذی اذا تحاکم الینا ورثتہ لا تنفذ من وصیتہ الا بالثلث لانا لا نحکم فیھم الا بحکم الاسلام لقولہ تعالیٰ وان احکم بینھم بما انزل اللہ الایۃ ( فتح الباری ) عبارت کا خلاصہ وہی ہے جو مذکور ہوا۔

2744.

حضرت سعد بن ابی وقاص  ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں بیمار ہوا تو نبی کریم ﷺ میری تیمار داری کے لیے تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !آپ میرے لیے اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے ایڑیوں کے بل واپس نہ کردے (مکہ میں مجھے موت نہ آئے) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’شاید اللہ تعالیٰ تمھیں دراز عمر دے اور لوگوں کو تم سے نفع پہنچائے۔‘‘ میں نے عرض کیا: میرا وصیت کرنے کا ارادہ ہے اورمیری ایک ہی بیٹی ہے، کیا میں آدھے مال کی وصیت کردوں؟ آپ نے فرمایا: ’’نصف مال تو زیادہ ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا: تہائی مال کی وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں ثلث ٹھیک ہے لیکن ثلث کی مقدار بھی زیادہ یا بڑی ہے۔‘‘ راوی کہتا ہے کہ لوگ ایک تہائی مال کی وصیت کرنے لگے کیونکہ تہائی کی مقدار کو آپ نے ان کے لیے جائز قرار دیا۔