باب : اگر کسی نے اپنے عزیزوں پر کوئی چیز وقف کی یا ان کے لئے وصیت کی تو کیا حکم ہے اور عزیزوں سے کون لوگ مراد ہوں گے
)
Sahi-Bukhari:
Wills and Testaments (Wasaayaa)
(Chapter: If somebody founds an endowment (or bequeathes) his relatives by a will)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ثابت نے انسؓ سے روایت کیا کہ آنحضرت ﷺ نے ابو طلحہ سے فرمایا تو یہ باغ اپنے عزیزوں کو دے ڈال۔ انہوں نے حسان اور ابی بن کعب کو دے دیا ( جو ابو طلحہ کے چچا کی اولاد تھے ) اور محمد بن عبد اللہ انصاری نے کہا مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا‘ انہوں نے ثمامہ سے ‘ انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے ثابت کی طرف روایت کی ‘ اس میں یوں ہے اپنے قرابت دار محتاجوں کو دے۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا تو ابو طلحہ نے وہ باغ حسان اورابی بن کعب کو دے دیا‘ وہ مجھ سے زیادہ ابو طلحہ ؓ کے قریبی رشتہ دار تھے اورحسان اور ابی بن کعب کی قرابت ابو طلحہ سے یو ں تھی کہ ابو طلحہ کا نام زید ہے وہ سہیل کے بیٹے‘ وہ اسود کے ‘ وہ حرام کے‘ وہ عمر وبن زید مناۃ بن عدی بن عمرو بن مالک بن نجار کے اور حسان ثابت کے بیٹے‘ وہ منذر کے ‘وہ حرام کے تو دونوں حرام میں جاکر مل جاتے ہیں جو پردادا ہے تو حرام بن عمروبن زید‘ مناۃ بن عدی بن عمرو بن مالک بن نجارحسان اور ابو طلحہ کو ملادیتا ہے اور ابی بن کعب چھٹی پشت میں یعنی عمرو بن مالک میں ابو طلحہ سے ملتے ہیں، ابی بن کعب کے بیٹے‘ وہ قیس کے‘ وہ عبید کے‘ وہ زید کے‘ وہ معاویہ کے‘ وہ عمروبن مالک بن نجار کے تو عمرو بن مالک حسان اور ابو طلحہ اور ابی تینوں کو ملادیتا ہے اور بعضوں نے ( امام ابو یوسف امام ابو حنیفہ کے شاگرد نے ) کہا عزیزوں کے لئے وصیت کرے تو جتنے مسلمان باپ دادا گزرے ہیں وہ سب داخل ہوں گے۔
2752.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو طلحہ ؓ سے فرمایا: ’’میری رائے کے مطابق آپ اپنا باغ قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کردیں۔‘‘ حضرت ابو طلحہ ؓ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ﷺ ! میں ایسا ہی کروں گا، چنانچہ ابو طلحہ ؓ نے وہ(باغ) اپنے قرابت داروں اور چچا زاد بھائیوں میں تقسیم کردیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: جب یہ آیت نازل ہوئی: ’’آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کوڈرائیں۔‘‘ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اے بنو فہر! اے بنو عدی!‘‘ یہ قریش کے مختلف خاندانوں کے نام ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی: ’’آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو خبردار کریں۔‘‘ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اے قریش کے لوگو!(اللہ سے ڈرو)۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے یہاں تین روایات کو یکجا بیان کیا ہے۔ پہلی روایت انتہائی مختصر ہے، آئندہ تفصیل سے بیان ہو گی کہ حضرت ابو طلحہ ؓ انصار میں باغات کے اعتبار سے زیادہ مال دار تھے۔ ان کا ایک باغ مسجد نبوی کے سامنے تھا جہاں رسول اللہ ﷺ تشریف لے جاتے اور وہاں قدرتی چشموں سے میٹھا پانی پیا کرتے۔ اس باغ کو انہوں نے اپنے رشتے داروں حضرت ابی بن کعبؓ، حضرت حسان بن ثابتؓ، ان کے بھائی حضرت شداد بن اوس ؓ اور نبیط بن جابر ؓ میں تقسیم کر دیا تھا۔ حضرت حسان ؓ نے اپنا حصہ ایک لاکھ درہم کے عوض حضرت معاویہ ؓ کو فروخت کر دیا تھا۔ (فتح الباري:486/5) (2) دوسری اور تیسری روایت حضرت ابن عباس ؓاور حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مختصر طور پر بیان ہوئی ہے۔ تفصیلی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنو عبد مناف، حضرت عباسؓ، حضرت صفیہ ؓاور اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ ؓ کو آواز دے کر پکارا اور کہا: ’’میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکوں گا۔ اس دنیا میں رہتے ہوئے اپنا تحفظ خود کر لو۔‘‘ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4771) (3) امام بخاری ؒ کا مطلب یہ ہے کہ رشتے داروں میں مرد اور عورتیں سب شامل ہوتے ہیں، نیز یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ اگر قریبی رشتے داروں کے لیے وصیت ہو تو تمام قریبی رشتے داروں کو دینا ضروری نہیں ہوتا کیونکہ بنو حرام جس میں ابو طلحہ اور حسان ؓ جمع ہوئے ہیں وہ مدینہ طیبہ میں بکثرت آباد تھے اور عمرو بن مالک کے قرابت دار جس میں ابو طلحہ اور ابی بن کعب ؓ جمع ہوئے تھے وہ تو بے حد و شمار تھے لیکن ان سب میں باغ تقسیم نہیں کیا بلکہ صرف ابی بن کعب اور حضرت حسان ؓ میں تقسیم کر دیا گیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2652
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2752
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2752
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2752
تمہید کتاب
وصايا، وصيت کی جمع ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی جانشین بنانے اور تاکید کرنے کے ہیں۔ اس کا اطلاق وصیت کرنے والے کے فعل پر بھی ہوتا ہے۔ اس صورت میں اس کے مصدری معنی مراد ہوتے ہیں۔ اور اس مال پر بھی بولا جاتا ہے جس کے متعلق وصیت کرنے والا وصیت کر جائے۔ اس صورت میں اسم مصدر ہو گا۔ شرعی طور پر وصیت اس خاص عہد کا نام ہے جس کی نسبت مرنے کے بعد کسی کام کی طرف کی گئی ہو، اور اس کا مدار حصول ثواب اور احسان پر ہوتا ہے۔ وصیت کرنے والے کو موصی اور جس کے لیے وصیت کی جائے اس کو موصی لہ اور جس کو کسی کے لیے وصیت کی جائے اس کو وصی کہا جاتا ہے۔ وصی کی حیثیت ایک امین کی ہوتی ہے، اس لیے اسے موصی کے مال اور جائیداد میں اسی طرح تصرف کرنا چاہیے جس طرح وہ کہہ گیا ہو یا جس طرح وہ اپنے مال و جائیداد میں تصرف کرتا تھا۔ شریعت میں وصیت کو تین لغوی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے:(1) کسی کو اچھے کام کرنے اور برے کام چھوڑنے کی تاکید کرنا۔ اسے اخلاقی وصیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(2) کسی کو اپنی زندگی ہی میں اپنے مرنے کے بعد کسی کام کی ذمہ داری سونپنا۔ اسے معاشرتی وصیت کہا جاتا ہے۔(3) کسی غیر وارث کو اپنی جائیداد سے 13 یا اس سے کم کی ہدایت و تاکید کر جانا۔ اسے مالی وصیت کا نام دیا جاتا ہے۔ مذکورہ عنوان کے تحت اس آخری قسم کی وصیت کا ذکر ہو گا۔اس مالی وصیت میں ایک کی طرف سے دوسرے کو انتقال ملکیت ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک انتقال ملکیت کی دو قسمیں ہیں: ایک اختیاری اور دوسری غیر اختیاری۔ اختیاری ملکیت اگر معاوضے سے ہے تو اسے خریدوفروخت کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر معاوضے کے بغیر ہے تو اس کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی میں معاوضے کے بغیر اپنی کوئی چیز دوسرے کی ملک میں دے دے۔ اسے ہبہ یا عطیہ کہا جاتا ہے۔ اگر مرنے کے بعد عمل میں آئے تو اسے وصیت کہتے ہیں۔ غیر اختیاری انتقال ملکیت وراثت کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ دین اسلام میں وصیت کا ایک ضابطہ ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ ابتدائے اسلام میں وصیت فرض تھی کیونکہ دور جاہلیت میں وراثت ان مردوں کو ملتی تھی جو جنگ میں جانے کے قابل ہوتے۔ بوڑھوں، بچوں، عورتوں، یتیموں اور بیواؤں کو ترکے سے کچھ نہیں ملتا تھا۔ قرآن کریم نے حکم دیا کہ مرنے والا اپنے والدین، یتیموں، بیواؤں اور اپنے غریب رشتے داروں کو کچھ دینے کی وصیت ضرور کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ﴿١٨٠﴾) "تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچے اور وہ کچھ مال و دولت چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب طور پر والدین اور رشتے داروں کے حق میں وصیت کر جائے۔ یہ وصیت کرنا متقی لوگوں پر فرض ہے۔" (البقرۃ180:2) اس کے بعد وراثت کی تقسیم کا مفصل ضابطہ نازل ہوا تو وصیت کی فرضیت کو استحباب میں بدل دیا گیا۔٭ مرنے کے بعد تجہیز و تکفین کے اخراجات اور قرض وغیرہ کی ادائیگی کے بعد اگر کچھ بچ رہے تو وصیت پر عمل کیا جائے، بصورت دیگر وصیت نافذ العمل نہیں ہو گی۔٭ انسان کو اپنے مال یا جائیداد سے 13 حصے کی وصیت کرنے کا حق ہے۔ اس سے زیادہ وصیت کرنے کا حق کسی کے پاس نہیں ہے۔ اگر کوئی اس سے زیادہ کی وصیت کرتا ہے تو تہائی کے اندر ہی اس کی وصیت پوری کی جائے کیونکہ اس سے زیادہ کی وصیت کرنا دوسرے ورثاء کی حق تلفی ہے، اگر ورثاء اجازت دیں تو الگ بات ہے۔٭ جس کے حق میں وصیت کی گئی ہے وہ شرعی طور پر میت کے ترکے کا وارث نہ ہو کیونکہ اس نے ترکے سے حصہ لینا ہے، اسے دوہرا حصہ دینے کی ضرورت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے جیسا کہ آئندہ اس کی وضاحت ہو گی۔٭ وصیت کسی ناجائز کام کے لیے نہ ہو۔ اگر کسی حرام یا مکروہ کام کی وصیت ہے تو اسے پورا نہیں کیا جائے گا، مثلاً: مرنے والے نے وصیت کی کہ مجھے ریشمی کفن دیا جائے یا میری قبر کو پختہ بنایا جائے یا دھوم دھام سے چہلم کیا جائے تو اس صورت میں وصیت پر عمل نہیں ہو گا کیونکہ ان میں کوئی چیز بھی شریعت کی رو سے جائز نہیں۔٭ ایسی وصیت بھی کالعدم ہو گی جس کے ذریعے سے کسی وارث کی حق تلفی ہوتی ہو یا اسے نقصان ہوتا ہو۔ قرآن کریم میں وصیت اور قرض کی ادائیگی کا حکم بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وراثت کی تقسیم وصیت کے نفاذ اور قرض کی ادائیگی کے بعد ہو گی بشرطیکہ وہ قرض اور وصیت کسی کو نقصان پہنچانے والا نہ ہو۔" (النساء12:4)٭ اگر کوئی شخص غلط یا ناجائز وصیت کر جائے تو پسماندگان کا فرض ہے کہ وہ اس کی اصلاح کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ) "پس جو شخص کسی وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی قسم کی جانبداری یا گناہ سے ڈرے تو وہ وارثان کے درمیان اصلاح کرا دے، اس طرح اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔" (البقرۃ182:2)٭ وصیت کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عاقل اور بالغ ہو۔ پورے ہوش و حواس سے وصیت کرے۔ اس کے برعکس اگر کوئی بچہ یا پاگل وصیت کرے گا تو وہ بے کار ہو گی۔ اسی طرح جب تک وصیت کرنے والا زندہ ہے اسے اپنی وصیت سے رجوع کر لینے کا حق باقی ہے۔ اگر کسی نے زبان سے رجوع نہیں کیا مگر اس نے کوئی ایسا طرز عمل اختیار کیا جس سے ثابت ہو کہ اس نے رجوع کر لیا ہے تو بھی وصیت کالعدم ہو جائے گی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے وصیت کے سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ چونکہ وقف بھی وصیت کی ایک قسم ہے، اس لیے انہوں نے وقف کے آداب و شرائط کی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ساٹھ مرفوع احادیث اور بائیس آثار پیش کیے ہیں۔ مرفوع احادیث میں سے اٹھارہ معلق ہیں اور اڑتالیس متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں بیالیس مکرر اور اٹھارہ خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ مصالح عباد پر گہری نظر رکھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ نصوص کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ اس سے آپ کی وسعت علم اور گہری نظر کا پتہ چلتا ہے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی گئی احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری گزارشات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ اسے شرف قبولیت سے نوازے اور ہماری نجات کا ذریعہ بنائے۔ ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم (آمين)
تمہید باب
اس عنوان سے امام بخاری رحمہ اللہ نے وقف کے مسائل بیان کرنا شروع کیے ہیں۔ چونکہ یہ وصیت ہی کی ایک قسم ہے، اس لیے اس کے متعلقہ احکام و مسائل وصیت جیسے ہیں، پھر وصیت بھی چونکہ وراثت ہی کی طرح ہے، اس لیے اس میں قریب تر لوگوں کا اعتبار ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے وقف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کو شریک نہیں کیا گیا کیونکہ حضرت حسان اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے اعتبار سے ان کا رشتہ دور کا تھا، اس لیے کہ وہ دونوں عمرو تک چھ واسطوں سے ملتے ہیں اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کے وہاں تک بارہ واسطے آتے ہیں۔ حضرت انس کا نسب اس طرح ہے: انس بن مالک بن نضر بن ضمضم بن زید بن حرام بن جندب بن عامر بن غنم بن عدی بن عمرو بن زید مناۃ بن عدی بن عمرو بن مالک۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضرت ابو طلحہ نے اپنا باغ حضرت حسان بن ثابت اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہما میں تقسیم کر دیا، حالانکہ میرا رشتہ قریبی تھا لیکن مجھے اس میں شریک نہیں کیا۔ (صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4555) اس کا جواب یہ ہے کہ واقعی حضرت انس رضی اللہ عنہ نسب کے اعتبار سے ابعد (زیادہ دور) تھے لیکن تربیت کے لحاظ سے اقرب (زیادہ قریب) تھے کیونکہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے ان کی والدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا سے نکاح کر لیا تھا اور حضرت انس رضی اللہ عنہ ربیب، یعنی سوتیلے بیٹے کی حیثیت سے ان کی تربیت میں تھے۔ اس اعتبار سے محرومیت کا شکوہ نہیں رہتا کیونکہ وہ تو مستقل طور پر حضرت ابو طلحہ کے زیر کفالت تھے۔ واللہ اعلم
اور ثابت نے انسؓ سے روایت کیا کہ آنحضرت ﷺ نے ابو طلحہ سے فرمایا تو یہ باغ اپنے عزیزوں کو دے ڈال۔ انہوں نے حسان اور ابی بن کعب کو دے دیا ( جو ابو طلحہ کے چچا کی اولاد تھے ) اور محمد بن عبد اللہ انصاری نے کہا مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا‘ انہوں نے ثمامہ سے ‘ انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے ثابت کی طرف روایت کی ‘ اس میں یوں ہے اپنے قرابت دار محتاجوں کو دے۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا تو ابو طلحہ نے وہ باغ حسان اورابی بن کعب کو دے دیا‘ وہ مجھ سے زیادہ ابو طلحہ ؓ کے قریبی رشتہ دار تھے اورحسان اور ابی بن کعب کی قرابت ابو طلحہ سے یو ں تھی کہ ابو طلحہ کا نام زید ہے وہ سہیل کے بیٹے‘ وہ اسود کے ‘ وہ حرام کے‘ وہ عمر وبن زید مناۃ بن عدی بن عمرو بن مالک بن نجار کے اور حسان ثابت کے بیٹے‘ وہ منذر کے ‘وہ حرام کے تو دونوں حرام میں جاکر مل جاتے ہیں جو پردادا ہے تو حرام بن عمروبن زید‘ مناۃ بن عدی بن عمرو بن مالک بن نجارحسان اور ابو طلحہ کو ملادیتا ہے اور ابی بن کعب چھٹی پشت میں یعنی عمرو بن مالک میں ابو طلحہ سے ملتے ہیں، ابی بن کعب کے بیٹے‘ وہ قیس کے‘ وہ عبید کے‘ وہ زید کے‘ وہ معاویہ کے‘ وہ عمروبن مالک بن نجار کے تو عمرو بن مالک حسان اور ابو طلحہ اور ابی تینوں کو ملادیتا ہے اور بعضوں نے ( امام ابو یوسف امام ابو حنیفہ کے شاگرد نے ) کہا عزیزوں کے لئے وصیت کرے تو جتنے مسلمان باپ دادا گزرے ہیں وہ سب داخل ہوں گے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو طلحہ ؓ سے فرمایا: ’’میری رائے کے مطابق آپ اپنا باغ قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کردیں۔‘‘ حضرت ابو طلحہ ؓ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ﷺ ! میں ایسا ہی کروں گا، چنانچہ ابو طلحہ ؓ نے وہ(باغ) اپنے قرابت داروں اور چچا زاد بھائیوں میں تقسیم کردیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: جب یہ آیت نازل ہوئی: ’’آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کوڈرائیں۔‘‘ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اے بنو فہر! اے بنو عدی!‘‘ یہ قریش کے مختلف خاندانوں کے نام ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی: ’’آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو خبردار کریں۔‘‘ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اے قریش کے لوگو!(اللہ سے ڈرو)۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے یہاں تین روایات کو یکجا بیان کیا ہے۔ پہلی روایت انتہائی مختصر ہے، آئندہ تفصیل سے بیان ہو گی کہ حضرت ابو طلحہ ؓ انصار میں باغات کے اعتبار سے زیادہ مال دار تھے۔ ان کا ایک باغ مسجد نبوی کے سامنے تھا جہاں رسول اللہ ﷺ تشریف لے جاتے اور وہاں قدرتی چشموں سے میٹھا پانی پیا کرتے۔ اس باغ کو انہوں نے اپنے رشتے داروں حضرت ابی بن کعبؓ، حضرت حسان بن ثابتؓ، ان کے بھائی حضرت شداد بن اوس ؓ اور نبیط بن جابر ؓ میں تقسیم کر دیا تھا۔ حضرت حسان ؓ نے اپنا حصہ ایک لاکھ درہم کے عوض حضرت معاویہ ؓ کو فروخت کر دیا تھا۔ (فتح الباري:486/5) (2) دوسری اور تیسری روایت حضرت ابن عباس ؓاور حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مختصر طور پر بیان ہوئی ہے۔ تفصیلی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنو عبد مناف، حضرت عباسؓ، حضرت صفیہ ؓاور اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ ؓ کو آواز دے کر پکارا اور کہا: ’’میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکوں گا۔ اس دنیا میں رہتے ہوئے اپنا تحفظ خود کر لو۔‘‘ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4771) (3) امام بخاری ؒ کا مطلب یہ ہے کہ رشتے داروں میں مرد اور عورتیں سب شامل ہوتے ہیں، نیز یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ اگر قریبی رشتے داروں کے لیے وصیت ہو تو تمام قریبی رشتے داروں کو دینا ضروری نہیں ہوتا کیونکہ بنو حرام جس میں ابو طلحہ اور حسان ؓ جمع ہوئے ہیں وہ مدینہ طیبہ میں بکثرت آباد تھے اور عمرو بن مالک کے قرابت دار جس میں ابو طلحہ اور ابی بن کعب ؓ جمع ہوئے تھے وہ تو بے حد و شمار تھے لیکن ان سب میں باغ تقسیم نہیں کیا بلکہ صرف ابی بن کعب اور حضرت حسان ؓ میں تقسیم کر دیا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حضرت انس ؓ بیان کر تے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو طلحہ ؓ سے فرمایا: "تم اپنے باغ کو اپنے قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کردو۔ "تو انھوں نے وہ حضرت حسان بن ثابت اور حضرت ابی بن کعب ؓ میں تقسیم کردیا۔ انصاری نے بھی اپنی سند کے ساتھ اسی طرح روایت کیاہے جس طرح ثابت کی حدیث حضرت انسؓ سے مروی ہے۔ اس کے یہ الفاظ ہیں: "وہ باغ اپنے محتاج قریبی رشتہ داروں میں بانٹ دو۔ "چنانچہ انھوں نے وہ باغ حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دے دیا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں ان(حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کے مجھ سے زیادہ قریب تھے۔ حضرت حسان اور ابی کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رشتہ داری تھی(جس کی وضاحت اس طرح ہے کہ) حضرت ابو طلحہ کا نام زید بن سہل بن اسود بن حرام بن عمرو بن زیدمناۃ بن عدی عمرو بن مالک بن نجاراور حسان کانام حسان بن ثابت بن منذر بن حرام ہے۔ گویا یہ دونوں (اپنے جد) "حرام"میں جمع ہوجاتے ہیں جو ان کا تیسراباپ ہے اور حرام بن عمرو بن زید مناۃ بن عدی بن عمرو بن مالک بن نجار وہ حضرت حسان، حضرت ابو طلحہ اور حضرت ابی بن کعب رضوان اللہ عنھم اجمعین کو چھ آباءاجداد کے واسطے سے عمرو بن مالک کے ساتھ ملاتا ہے، چنانچہ ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سلسلہ نسب یوں ہے: ابی بن کعب بن قیس بن عبید بن زید بن معاویہ بن عمرو بن مالک بن نجار۔ اس طرح عمرو بن مالک نے حضرت حسان، حضرت ابو طلحہ اورحضرت ابی بن کعب رضوان اللہ عنھم اجمعین کو جمع کردیا ہے۔ بعض لوگوں نے کہا ہے: اگر کوئی اپنے قرابت داروں کے لیے وصیت کرے تو وہ صرف مسلمان آباءواجداد تک محدود ہوگی
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا‘ کہا ہم کو امام مالک نے خبردی‘ انہوں نے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ سے، انہوں نے انس ؓ سے سنا‘ انہوں نے کہا آنحضرت ﷺ نے ابو طلحہ سے فرمایا (جب انہوں نے اپنا باغ بیر حاء اللہ کی راہ میں دینا چاہا) میں مناسب سمجھتاہوں تو یہ باغ اپنے عزیزوں کو دے دے۔ ابو طلحہ نے کہا بہت خوب ایسا ہی کروں گا۔ پھر ابو طلحہ نے وہ باغ اپنے عزیزوں اور چچا کے بیٹوں میں تقسیم کردیا اور ابن عباس ؓ نے کہا جب (سورۃ شعراءکی) یہ آیت اتری اور اپنے قریب کے ناطے والوں کو ( خدا کے عذاب سے ) ڈرا تو آنحضرت ﷺ قریش کے خاندانوں بنی فہر‘ بنی عدی کو پکار نے لگے (ان کو ڈرایا) اور ابو ہریرہ ؓ نے کہا جب یہ آیت اتری ﴿وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ﴾ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اے قریش کے لوگو ! (اللہ سے ڈرو)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): The Prophet (ﷺ) said to Abu Talha, "I recommend that you divide (this garden) amongst your relatives." Abu Talha said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I will do the same." So Abu Talha divided it among his relatives and cousins. Ibn 'Abbes said, "When the Qur'anic Verse: "Warn your nearest kinsmen." (26.214) Was revealed, the Prophet (ﷺ) started calling the various big families of Quraish, "O Bani Fihr! O Bani Adi!". Abu Hurairah (RA) said, "When the Verse: "Warn your nearest kinsmen" was revealed, the Prophet (ﷺ) said (in a loud voice), "O people of Quraish!"