باب : اگر کسی نے ایک زمین وقف کی ( جو مشہور و معلوم ہے ) اس کی حدیں بیان نہیں کیں تو یہ جائز ہوگا‘ اسی طرح ایسی زمین کا صدقہ دینا
)
Sahi-Bukhari:
Wills and Testaments (Wasaayaa)
(Chapter: If somebody gives a piece of land as an endowment and does not mark its boundaries)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2769.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت ابو ر ؓ مدینہ طیبہ میں تمام انصار سے زیادہ مال دار تھے۔ ان کے پاس کھجوروں کے باغات تھے۔ مسجد نبوی کے سامنے ان کا سب سے پسندیدہ مال بیرحاء کا باغ تھا جس میں نبی ﷺ تشریف لاتے اور اس کا بہترین پانی نوش جاں کرتے تھے۔ حضرت انس ؓ نے کہا: جب یہ آیت اتری: ’’تم لوگ اس وقت تک نیکی حاصل نہیں کر سکتے جب تک اپنی محبوب ترین چیز خرچ نہ کرو۔‘‘ تو حضرت ابو طلحہ ؓ رسول اللہ ﷺ کے حضور کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’تم ہرگزنیکی نہیں حاصل کر سکتے جب تک اپنی پیاری چیز اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو۔‘‘ اور میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب مال بیرحاء نامی باغ ہے۔ یہ اللہ کے لیے صدقہ ہے۔ میں اللہ کے حضور اس کے ثواب اور ذخیرے کی امید رکھتا ہوں۔ آپ اسے رکھ لیں اور جہاں مناسب خیال فرمائیں اسے خرچ کریں۔ آپ نے فرمایا: ’’واہ واہ!یہ مال نفع دینے والا ہے۔ ۔ ۔ یا جانے والا ہے۔ (راوی حدیث ) ابن مسلمہ نے شک کیا ہے۔ ۔ ۔ جو کچھ تم نے کہا میں نے اسے سن لیا ہے۔ میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اس کو اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کردو۔‘‘ حضرت ابو طلحہ ؓ نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !میں ایسا ہی کروں گا۔ چنانچہ حضرت ابو طلحہ ؓ نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچا کے بیٹوں میں تقسیم کردیا۔ اسماعیل، عبد اللہ بن یوسف اور یحییٰ بن یحییٰ نے امام مالک سے مَالٌ رَايِحٌ، کے الفاظ بیان کیے ہیں۔
تشریح:
(1) وقف کرنے والے کو چاہیے کہ وہ اپنی وقف کی ہوئی چیز کی حدود کو متعین کرے، مثلاً: بہت سے باغات ہیں تو جب تک وقف کے لیے کسی باغ کا تعین نہیں کرے گا وقف صحیح نہیں ہو گا۔ اسی طرح جب کوئی زمین وقف کرے اور اس کی حدود اربعہ کا ذکر نہ کرے تو وقف جائز ہے بشرطیکہ لوگوں میں اس کی حدود اربعہ معروف ہوں، بصورت دیگر اس کی حدود اربعہ متعین کرنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر وقف صحیح نہیں ہو گا کیونکہ حدود متعین نہ ہونے کی صورت میں دوسری حدود سے التباس کا اندیشہ ہے۔ اس سے دوسروں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ بہرحاء کا باغ ممتاز اور اس کی حدود متعین تھیں، اس کے التباس کا اندیشہ نہیں تھا، اس لیے حدود ذکر نہیں کی گئیں۔ (2) حکم کے اعتبار سے صدقہ اور وقف ملتے جلتے ہیں اور ان کا ایک ہی حکم ہے۔ (3) امام بخاری ؒ نے اسماعیل بن ابی اویس کی روایت کو "کتاب التفسیر" میں، عبداللہ بن یوسف کی روایت کو "کتاب الزکاۃ" میں اور یحییٰ بن یحییٰ کی روایت کو "کتاب الوکالۃ" میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:486/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2669
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2769
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2769
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2769
تمہید کتاب
وصايا، وصيت کی جمع ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی جانشین بنانے اور تاکید کرنے کے ہیں۔ اس کا اطلاق وصیت کرنے والے کے فعل پر بھی ہوتا ہے۔ اس صورت میں اس کے مصدری معنی مراد ہوتے ہیں۔ اور اس مال پر بھی بولا جاتا ہے جس کے متعلق وصیت کرنے والا وصیت کر جائے۔ اس صورت میں اسم مصدر ہو گا۔ شرعی طور پر وصیت اس خاص عہد کا نام ہے جس کی نسبت مرنے کے بعد کسی کام کی طرف کی گئی ہو، اور اس کا مدار حصول ثواب اور احسان پر ہوتا ہے۔ وصیت کرنے والے کو موصی اور جس کے لیے وصیت کی جائے اس کو موصی لہ اور جس کو کسی کے لیے وصیت کی جائے اس کو وصی کہا جاتا ہے۔ وصی کی حیثیت ایک امین کی ہوتی ہے، اس لیے اسے موصی کے مال اور جائیداد میں اسی طرح تصرف کرنا چاہیے جس طرح وہ کہہ گیا ہو یا جس طرح وہ اپنے مال و جائیداد میں تصرف کرتا تھا۔ شریعت میں وصیت کو تین لغوی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے:(1) کسی کو اچھے کام کرنے اور برے کام چھوڑنے کی تاکید کرنا۔ اسے اخلاقی وصیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(2) کسی کو اپنی زندگی ہی میں اپنے مرنے کے بعد کسی کام کی ذمہ داری سونپنا۔ اسے معاشرتی وصیت کہا جاتا ہے۔(3) کسی غیر وارث کو اپنی جائیداد سے 13 یا اس سے کم کی ہدایت و تاکید کر جانا۔ اسے مالی وصیت کا نام دیا جاتا ہے۔ مذکورہ عنوان کے تحت اس آخری قسم کی وصیت کا ذکر ہو گا۔اس مالی وصیت میں ایک کی طرف سے دوسرے کو انتقال ملکیت ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک انتقال ملکیت کی دو قسمیں ہیں: ایک اختیاری اور دوسری غیر اختیاری۔ اختیاری ملکیت اگر معاوضے سے ہے تو اسے خریدوفروخت کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر معاوضے کے بغیر ہے تو اس کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی میں معاوضے کے بغیر اپنی کوئی چیز دوسرے کی ملک میں دے دے۔ اسے ہبہ یا عطیہ کہا جاتا ہے۔ اگر مرنے کے بعد عمل میں آئے تو اسے وصیت کہتے ہیں۔ غیر اختیاری انتقال ملکیت وراثت کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ دین اسلام میں وصیت کا ایک ضابطہ ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ ابتدائے اسلام میں وصیت فرض تھی کیونکہ دور جاہلیت میں وراثت ان مردوں کو ملتی تھی جو جنگ میں جانے کے قابل ہوتے۔ بوڑھوں، بچوں، عورتوں، یتیموں اور بیواؤں کو ترکے سے کچھ نہیں ملتا تھا۔ قرآن کریم نے حکم دیا کہ مرنے والا اپنے والدین، یتیموں، بیواؤں اور اپنے غریب رشتے داروں کو کچھ دینے کی وصیت ضرور کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ﴿١٨٠﴾) "تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچے اور وہ کچھ مال و دولت چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب طور پر والدین اور رشتے داروں کے حق میں وصیت کر جائے۔ یہ وصیت کرنا متقی لوگوں پر فرض ہے۔" (البقرۃ180:2) اس کے بعد وراثت کی تقسیم کا مفصل ضابطہ نازل ہوا تو وصیت کی فرضیت کو استحباب میں بدل دیا گیا۔٭ مرنے کے بعد تجہیز و تکفین کے اخراجات اور قرض وغیرہ کی ادائیگی کے بعد اگر کچھ بچ رہے تو وصیت پر عمل کیا جائے، بصورت دیگر وصیت نافذ العمل نہیں ہو گی۔٭ انسان کو اپنے مال یا جائیداد سے 13 حصے کی وصیت کرنے کا حق ہے۔ اس سے زیادہ وصیت کرنے کا حق کسی کے پاس نہیں ہے۔ اگر کوئی اس سے زیادہ کی وصیت کرتا ہے تو تہائی کے اندر ہی اس کی وصیت پوری کی جائے کیونکہ اس سے زیادہ کی وصیت کرنا دوسرے ورثاء کی حق تلفی ہے، اگر ورثاء اجازت دیں تو الگ بات ہے۔٭ جس کے حق میں وصیت کی گئی ہے وہ شرعی طور پر میت کے ترکے کا وارث نہ ہو کیونکہ اس نے ترکے سے حصہ لینا ہے، اسے دوہرا حصہ دینے کی ضرورت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے جیسا کہ آئندہ اس کی وضاحت ہو گی۔٭ وصیت کسی ناجائز کام کے لیے نہ ہو۔ اگر کسی حرام یا مکروہ کام کی وصیت ہے تو اسے پورا نہیں کیا جائے گا، مثلاً: مرنے والے نے وصیت کی کہ مجھے ریشمی کفن دیا جائے یا میری قبر کو پختہ بنایا جائے یا دھوم دھام سے چہلم کیا جائے تو اس صورت میں وصیت پر عمل نہیں ہو گا کیونکہ ان میں کوئی چیز بھی شریعت کی رو سے جائز نہیں۔٭ ایسی وصیت بھی کالعدم ہو گی جس کے ذریعے سے کسی وارث کی حق تلفی ہوتی ہو یا اسے نقصان ہوتا ہو۔ قرآن کریم میں وصیت اور قرض کی ادائیگی کا حکم بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وراثت کی تقسیم وصیت کے نفاذ اور قرض کی ادائیگی کے بعد ہو گی بشرطیکہ وہ قرض اور وصیت کسی کو نقصان پہنچانے والا نہ ہو۔" (النساء12:4)٭ اگر کوئی شخص غلط یا ناجائز وصیت کر جائے تو پسماندگان کا فرض ہے کہ وہ اس کی اصلاح کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ) "پس جو شخص کسی وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی قسم کی جانبداری یا گناہ سے ڈرے تو وہ وارثان کے درمیان اصلاح کرا دے، اس طرح اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔" (البقرۃ182:2)٭ وصیت کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عاقل اور بالغ ہو۔ پورے ہوش و حواس سے وصیت کرے۔ اس کے برعکس اگر کوئی بچہ یا پاگل وصیت کرے گا تو وہ بے کار ہو گی۔ اسی طرح جب تک وصیت کرنے والا زندہ ہے اسے اپنی وصیت سے رجوع کر لینے کا حق باقی ہے۔ اگر کسی نے زبان سے رجوع نہیں کیا مگر اس نے کوئی ایسا طرز عمل اختیار کیا جس سے ثابت ہو کہ اس نے رجوع کر لیا ہے تو بھی وصیت کالعدم ہو جائے گی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے وصیت کے سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ چونکہ وقف بھی وصیت کی ایک قسم ہے، اس لیے انہوں نے وقف کے آداب و شرائط کی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ساٹھ مرفوع احادیث اور بائیس آثار پیش کیے ہیں۔ مرفوع احادیث میں سے اٹھارہ معلق ہیں اور اڑتالیس متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں بیالیس مکرر اور اٹھارہ خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ مصالح عباد پر گہری نظر رکھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ نصوص کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ اس سے آپ کی وسعت علم اور گہری نظر کا پتہ چلتا ہے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی گئی احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری گزارشات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ اسے شرف قبولیت سے نوازے اور ہماری نجات کا ذریعہ بنائے۔ ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم (آمين)
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت ابو ر ؓ مدینہ طیبہ میں تمام انصار سے زیادہ مال دار تھے۔ ان کے پاس کھجوروں کے باغات تھے۔ مسجد نبوی کے سامنے ان کا سب سے پسندیدہ مال بیرحاء کا باغ تھا جس میں نبی ﷺ تشریف لاتے اور اس کا بہترین پانی نوش جاں کرتے تھے۔ حضرت انس ؓ نے کہا: جب یہ آیت اتری: ’’تم لوگ اس وقت تک نیکی حاصل نہیں کر سکتے جب تک اپنی محبوب ترین چیز خرچ نہ کرو۔‘‘ تو حضرت ابو طلحہ ؓ رسول اللہ ﷺ کے حضور کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’تم ہرگزنیکی نہیں حاصل کر سکتے جب تک اپنی پیاری چیز اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو۔‘‘ اور میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب مال بیرحاء نامی باغ ہے۔ یہ اللہ کے لیے صدقہ ہے۔ میں اللہ کے حضور اس کے ثواب اور ذخیرے کی امید رکھتا ہوں۔ آپ اسے رکھ لیں اور جہاں مناسب خیال فرمائیں اسے خرچ کریں۔ آپ نے فرمایا: ’’واہ واہ!یہ مال نفع دینے والا ہے۔ ۔ ۔ یا جانے والا ہے۔ (راوی حدیث ) ابن مسلمہ نے شک کیا ہے۔ ۔ ۔ جو کچھ تم نے کہا میں نے اسے سن لیا ہے۔ میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اس کو اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کردو۔‘‘ حضرت ابو طلحہ ؓ نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !میں ایسا ہی کروں گا۔ چنانچہ حضرت ابو طلحہ ؓ نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچا کے بیٹوں میں تقسیم کردیا۔ اسماعیل، عبد اللہ بن یوسف اور یحییٰ بن یحییٰ نے امام مالک سے مَالٌ رَايِحٌ، کے الفاظ بیان کیے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) وقف کرنے والے کو چاہیے کہ وہ اپنی وقف کی ہوئی چیز کی حدود کو متعین کرے، مثلاً: بہت سے باغات ہیں تو جب تک وقف کے لیے کسی باغ کا تعین نہیں کرے گا وقف صحیح نہیں ہو گا۔ اسی طرح جب کوئی زمین وقف کرے اور اس کی حدود اربعہ کا ذکر نہ کرے تو وقف جائز ہے بشرطیکہ لوگوں میں اس کی حدود اربعہ معروف ہوں، بصورت دیگر اس کی حدود اربعہ متعین کرنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر وقف صحیح نہیں ہو گا کیونکہ حدود متعین نہ ہونے کی صورت میں دوسری حدود سے التباس کا اندیشہ ہے۔ اس سے دوسروں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ بہرحاء کا باغ ممتاز اور اس کی حدود متعین تھیں، اس کے التباس کا اندیشہ نہیں تھا، اس لیے حدود ذکر نہیں کی گئیں۔ (2) حکم کے اعتبار سے صدقہ اور وقف ملتے جلتے ہیں اور ان کا ایک ہی حکم ہے۔ (3) امام بخاری ؒ نے اسماعیل بن ابی اویس کی روایت کو "کتاب التفسیر" میں، عبداللہ بن یوسف کی روایت کو "کتاب الزکاۃ" میں اور یحییٰ بن یحییٰ کی روایت کو "کتاب الوکالۃ" میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:486/5)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا‘ کہا ہم سے امام مالک نے‘ ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے‘ انہوں نے انس بن مالک ؓ سے سناآپ بیان کرتے تھے کہ ابو طلحہ ؓ کجھور کے باغات کے اعتبار سے مدینہ کے انصار میں سب سے بڑے مالدار تھے اور انہیں اپنے تمام مالوں میں مسجد نبوی کے سامنے بیرحاء کا باغ سب سے زیادہ پسند تھا۔ خود نبی کریم ﷺ بھی اس باغ میں تشریف لے جاتے اور اس کا میٹھا پانی پیتے تھے۔ انس ؓ نے بیان کیا کہ پھر جب یہ آیت نازل ہوئی ”نیکی تم ہرگز نہیں حاصل کروگے جب تک اپنے اس مال سے نہ خرچ کرو جو تمہیں پسند ہوں۔“ تو ابو طلحہ ؓ اٹھے اور آکر رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یارسول اللہ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”تم نیکی ہرگز نہیں حاصل کرسکو گے جب تک اپنے ان مالوں میں سے نہ خرچ کرو جو تمہیں زیادہ پسند ہوں۔“ اور میرے اموال میں مجھے سب سے زیادہ پسند بیرحاءہے اور یہ اللہ کے راستہ میں صدقہ ہے‘ میں اللہ کی بارگاہ سے اس کی نیکی اور ذخیرئہ آخرت ہونے کی امید رکھتا ہوں ‘ آپ کو جہاں اللہ تعالیٰ بتائے اسے خرچ کریں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا شاباش یہ تو بڑا فائدہ بخش مال ہے یا (آپ نے بجائے رابح کے رائح کہا) یہ شک عبداللہ بن مسلمہ راوی کو ہوا تھا۔ اور جو کچھ تم نے کہا میں نے سب سن لیا ہے اور میرا خیال ہے کہ تم اسے اپنے ناطے والوں کو دے دو۔ ابو طلحہ نے عرض کیا یارسول اللہ! میں ایساہی کروں گا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے عزیزوں اور اپنے چچا کے لڑکوں میں تقسیم کردیا۔ اسماعیل‘ عبداللہ بن یوسف اور یحییٰ بن یحییٰ نے مالک کے واسطہ سے۔ رابح کے بجائے رايح بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب کی مطابقت صاف ظاہر ہے کہ ابو طلحہ نے بیرحاءکو صدقہ کردیا۔ اس کے حدود بیان نہیں کئے کیونکہ بیرحاءباغ مشہورو معروف تھا‘ ہر کوئی اس کو جانتا تھا اگر کوئی ایسی زمین وقف کرے کہ وہ معروف و مشہور نہ ہو تب تو اس کی حدود بیان کرنی ضروری ہیں لفظ بیرحاءدو کلموں سے مرکب ہے پہلا کلمہ بیئر ہے جس کے معنی کنویں کے ہیں دوسرا کلمہ حاءہے اس کے بارے میں اختلاف ہے کہ کسی مرد یا عورت کا نام ہے یا کسی جگہ کا نام جس کی طرف یہ کنواں منسوب کیا گیا ہے یا یہ کلمہ اونٹوں کے ڈانٹنے کے لئے بولا جاتا تھا اور اس جگہ اونٹ بکثرت چرائے جاتے تھے‘ لوگ ان کو ڈانٹنے کیلئے لفظ حاءکا استعمال کرتے ۔ اسی سے یہ لفظ بیرحاءمل کر ایک کلمہ بن گیا۔ پھر حضرت ابو طلحہ ؓ کا سارا باغ ہی اس نام سے موسوم ہوگیا کیونکہ یہ کنواں اس کے اندر تھا لفظ بخ بخواہ واہ کی جگہ بولا جاتا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Abu Talha had the greatest wealth of date-palms amongst the Ansar in Medina, and he prized above all his wealth (his garden) Bairuha', which was situated opposite the Mosque (of the Prophet (ﷺ) ). The Prophet (ﷺ) used to enter It and drink from its fresh water. When the following Divine Verse came:-- "By no means shall you attain piety until you spend of what you love," (3.92) Abu Talha got up saying. "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Allah says, 'You will not attain piety until you spend of what you love,' and I prize above al I my wealth, Bairuha' which I want to give in charity for Allah's Sake, hoping for its reward from Allah. So you can use it as Allah directs you." On that the Prophet (ﷺ) said, "Bravo! It is a profitable (or perishable) property. (Ibn Maslama is not sure as to which word is right, i.e. profitable or perishable.) I have heard what you have said, and I recommend that you distribute this amongst your relatives." On that Abu Talha said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I will do (as you have suggested)." So, Abu Talha distributed that garden amongst his relatives and cousins.