Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: The grades of the Mujahidun)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
سبیل کا تفظ عربی زبان میں ھذا سبیلی و ھذہ سبیلی مذکر اور مونث دونوں طرخ استعمال ہوتا ہ
2790.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لائے، نماز قائم کرے اور رمضان کے روزے رکھے تو اللہ کے ذمے حق ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے، خواہ وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرے یا اپنی جائے پیدائش میں بیٹھا رہے۔‘‘ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: اللہ کےرسول ﷺ !کیا ہم لوگوں کو اس کی خوشخبری نہ دے دیں؟ آپ نے فرمایا: ’’بلاشبہ جنت میں سو درجے ہیں جو اللہ نے فی سبیل اللہ جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کیے ہیں۔ ان کے دو درجات کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے مابین ہے، لہذا جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کروتو فردوس کا سوال کرو کیونکہ یہ افضل اور اعلیٰ جنت ہے۔‘‘ راوی کہتا ہے کہ میرے خیال کے مطابق آپ نے فرمایا: ’’اور اس کے اوپر رحمٰن کاعرش ہے اور وہیں سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔‘‘ محمد بن فلیح نے اپنے والد سے یہ الفاظ بیان کیے ہیں۔ ’’اس کے اوپر عرش رحمٰن ہے۔‘‘
تشریح:
1۔جب رسول اللہ ﷺ نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے یا نہ کرنے کو دخول جنت میں برابر قراردیا تو اس سے مخاطب بہت خوش ہوا کہ اس پر جہاد کی مشقت نہیں رہی۔رسول اللہ ﷺ نے جہاد کی اہمیت اورفضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’جنت میں سودرجات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کے لیے تیار کیے ہیں۔‘‘ اس سے جہاد کی فضیلت اور مجاہدین کے درجات کا پتہ چلتا ہے۔2۔مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کو جہاد نصیب نہیں ہوتا لیکن دوسرے فرائض وواجبات ادا کرتاہے اور اسی حالت میں اسے موت آجائے تو آخرت میں اسے جنت نصب ہوگی اگرچہ اس کادرجہ مجاہدین سے کم ہوگا۔3۔امام ترمذی ؒ کی روایت میں ہے: ’’فردوس ،اعلیٰ درجے کی جنت ہے اور اسی درجے سے جنت کی چار نہریں پھوٹتی ہیں اور اس کے اوپر اللہ کا عرش ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، صفة الجنة، حدیث: 2531) ان چاروں نہروں سے مراد پانی،دودھ،شہد اور شراب طہور کی نہریں ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔امام بخاری ؒ نے آخر میں جس طریق کاحوالہ دیا ہے اسے آئندہ متصل سند سے بیان کیاہے۔اس روایت میں کسی شک کے بغیر (وَفَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ)کے الفاظ ہیں۔(صحیح البخاري، التوحید، حدیث 7423) 4۔اس حدیث سے جہاد کی فضیلت کا پتہ چلتا ہے،چنانچہ امام حاکم ؒ نے ایک روایت بیان کی ہے:’’جو کوئی سچی نیت سے جہاد کی خواہش رکھے،پھر وہ فوت ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اسے شہید کا ثواب عطا فرمائے گا۔‘‘ (المستدرك للحاکم:77/2 و صحیح الجامع الصغیر ، حدیث: 6277)
باب میں"فی سبیل اللہ" کا لفظ آیا ہے،اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے لفظ سبیل کی لغوی تشریح فرمائی کہ یہ لفظ عربی زبان میں مذکر اور مؤنث دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ هَـٰذِهِ سَبِيلِي اور هَـٰذا سَبِيلِي دونوں طرح درست ہے،نیز قرآن میں ہے:(غُزًّى) (آل عمران:3/156) یہ لفظ غازی کی جمع ہے اور(هُمْ دَرَجَاتٌ) (آل عمران:163/3) کے معنی (لَّهُمْ دَرَجَاتٌ) ہیں۔یعنی ان مجاہدین کے لیے اللہ کے ہاں کئی درجات ہیں۔
سبیل کا تفظ عربی زبان میں ھذا سبیلی و ھذہ سبیلی مذکر اور مونث دونوں طرخ استعمال ہوتا ہ
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لائے، نماز قائم کرے اور رمضان کے روزے رکھے تو اللہ کے ذمے حق ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے، خواہ وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرے یا اپنی جائے پیدائش میں بیٹھا رہے۔‘‘ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: اللہ کےرسول ﷺ !کیا ہم لوگوں کو اس کی خوشخبری نہ دے دیں؟ آپ نے فرمایا: ’’بلاشبہ جنت میں سو درجے ہیں جو اللہ نے فی سبیل اللہ جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کیے ہیں۔ ان کے دو درجات کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے مابین ہے، لہذا جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کروتو فردوس کا سوال کرو کیونکہ یہ افضل اور اعلیٰ جنت ہے۔‘‘ راوی کہتا ہے کہ میرے خیال کے مطابق آپ نے فرمایا: ’’اور اس کے اوپر رحمٰن کاعرش ہے اور وہیں سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔‘‘ محمد بن فلیح نے اپنے والد سے یہ الفاظ بیان کیے ہیں۔ ’’اس کے اوپر عرش رحمٰن ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔جب رسول اللہ ﷺ نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے یا نہ کرنے کو دخول جنت میں برابر قراردیا تو اس سے مخاطب بہت خوش ہوا کہ اس پر جہاد کی مشقت نہیں رہی۔رسول اللہ ﷺ نے جہاد کی اہمیت اورفضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’جنت میں سودرجات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کے لیے تیار کیے ہیں۔‘‘ اس سے جہاد کی فضیلت اور مجاہدین کے درجات کا پتہ چلتا ہے۔2۔مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کو جہاد نصیب نہیں ہوتا لیکن دوسرے فرائض وواجبات ادا کرتاہے اور اسی حالت میں اسے موت آجائے تو آخرت میں اسے جنت نصب ہوگی اگرچہ اس کادرجہ مجاہدین سے کم ہوگا۔3۔امام ترمذی ؒ کی روایت میں ہے: ’’فردوس ،اعلیٰ درجے کی جنت ہے اور اسی درجے سے جنت کی چار نہریں پھوٹتی ہیں اور اس کے اوپر اللہ کا عرش ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، صفة الجنة، حدیث: 2531) ان چاروں نہروں سے مراد پانی،دودھ،شہد اور شراب طہور کی نہریں ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔امام بخاری ؒ نے آخر میں جس طریق کاحوالہ دیا ہے اسے آئندہ متصل سند سے بیان کیاہے۔اس روایت میں کسی شک کے بغیر (وَفَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ)کے الفاظ ہیں۔(صحیح البخاري، التوحید، حدیث 7423) 4۔اس حدیث سے جہاد کی فضیلت کا پتہ چلتا ہے،چنانچہ امام حاکم ؒ نے ایک روایت بیان کی ہے:’’جو کوئی سچی نیت سے جہاد کی خواہش رکھے،پھر وہ فوت ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اسے شہید کا ثواب عطا فرمائے گا۔‘‘ (المستدرك للحاکم:77/2 و صحیح الجامع الصغیر ، حدیث: 6277)
ترجمۃ الباب:
کہا جاتا ہے هَٰذِهِ سَبِيلِي یا هذا سَبِيلِي یعنی یہ میرا راستہ ہے، ابو عبداللہ(امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ) نے فرمایا: غُزًّى کا واحد غازی ہے، نیز هُمْ دَرَجَاتٌ سے مراد لهُمْ دَرَجَاتٌ ہے۔
وضاحت: ۔باب میں"فی سبیل اللہ" کا لفظ آیا ہے، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے لفظ سبیل کی لغوی تشریح فرمائی کہ یہ لفظ عربی زبان میں مذکر اور مونث دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ هَٰذِهِ سَبِيلِي اور هذا سَبِيلِي دونوں طرح درست ہے، نیز قرآن میں ہے غُزًّى یہ لفظ غازی کی جمع ہے اور هُمْ دَرَجَاتٌ کا معنی لهُمْ دَرَجَاتٌ ہے، یعنی ان مجاہدین کے لیے اللہ کے ہاں متعدد درجات ہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحیٰ بن صالح نے بیان کیا‘ کہا ہم سے فلیح نے بیان کیا‘ ان سے ہلال بن علی نے ‘ ان سے عطاءبن یسار نے اوران سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اورنماز قائم کرے اور رمضان کے روزے رکھے تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ وہ جنت میں داخل کرے گا خواہ اللہ کے راستے میں وہ جہاد کرے یا اسی جگہ پڑارہے جہاں پیدا ہواتھا۔ صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ کیا ہم لوگوں کو اس کی بشارت نہ دے دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں سو درجے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لئے تیار کئے ہیں‘ ان کے دودرجوں میں اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان وزمین میں ہے۔ اس لئے جب اللہ تعالیٰ سے مانگنا ہو تو فردوس مانگو کیونکہ وہ جنت کا سب سے درمیانی درجہ ہے اور جنت کے سب سے بلند درجے پر ہے یحییٰ بن صالح نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں یوں کہا کہ اس کے اوپر پروردگار کا عرش ہے اوروہیں سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔ محمد بن فلیح نے اپنے والد سے وفوقہ عرش الرحمٰن ہی کی روایت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کو جہاد نصیب نہ ہو لیکن دوسرے فرائض ادا کرتا ہے اور اسی حال میں مر جائے تو آخرت میں اس کو بہشت ملے گی گو اس کا درجہ مجاہدین سے کم ہوگا۔ محمد بن فلیح کے روایت کردہ اضافہ میں شک نہیں ہے جیسے یحییٰ بن سلیمان کی روایت میں أراہ الح وارد ہے کہ میں سمجھتا ہوں۔ کہا بہشت کی نہروں سے وہ چار نہریں پانی اور دودھ اور شہد اور شراب کی مراد ہیں جن کا ذکر قرآن شریف میں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Whoever believes in Allah and His Apostle, offer prayer perfectly and fasts the month of Ramadan, will rightfully be granted Paradise by Allah, no matter whether he fights in Allah's Cause or remains in the land where he is born." The people said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Shall we acquaint the people with the is good news?" He said, "Paradise has one-hundred grades which Allah has reserved for the Mujahidin who fight in His Cause, and the distance between each of two grades is like the distance between the Heaven and the Earth. So, when you ask Allah (for something), ask for Al-firdaus which is the best and highest part of Paradise." (i.e. The sub-narrator added, "I think the Prophet (ﷺ) also said, 'Above it (i.e. Al-Firdaus) is the Throne of Beneficent (i.e. Allah), and from it originate the rivers of Paradise.")