باب : جس کو اللہ کی راہ میں تکلیف پہنچے ( یعنی اس کے کسی عضو کو صدمہ ہو )
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: (The reward of) the injured in Allah's Cause)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2801.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے بنو سلیم کے ستر آدمی بنو عامر کے ہاں روانہ کیے۔ جب یہ لوگ بنو عامر کے پاس آئے تو میرے ماموں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: میں تم سے پہلے وہاں جاتا ہوں، اگرانھوں نے مجھے امن دیا تاکہ میں ان تک رسول اللہ ﷺ کا پیغام پہنچا سکوں تو زہے قسمت!بصورت دیگر تم لوگوں نے میرے قریب ہی رہنا ہے، چنانچہ وہ ان کے پاس گئے، انھوں نے امن بھی دے دیا، ابھی وہ اہل قبیلہ کو نبی کریم ﷺ کی باتیں سناہی رہے تھے کہ قبیلے والوں نے اپنے ایک آدمی کو اشارہ کیا تو اس نے انھیں نیزا مار کرگھائل کردیا۔ اس وقت ان کی زبان سے نکلا: اللہ اکبر، رب کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہوگیا۔ پھر قبیلے والے اس کے باقی ساتھیوں کی طرف بڑھے اور حملہ کرکے سب کو ہلاک کردیا۔ صرف ایک لنگڑا ساتھی بچا جو پہاڑ پر چڑھ گیا تھا۔ (راوی حدیث) ہمام نے کہا: میرے خیال کے مطابق اس کے ساتھ ایک اور بھی تھا۔ اسکے بعد حضرت جبرئیل ؑ نے نبی کریم ﷺ کو خبر دی کہ آپ کے ساتھی(سب قاری) اپنے رب سے جاملے ہیں۔ اللہ خود بھی ان سے خوش رہے اور اس نے انھیں بھی خوش کردیا ہے۔ حضرت انس ؓ نے کہا: اس واقعے کے بعد ہم یوں تلاوت کیاکرتے تھے : ہماری قوم کو ہمارا پیغام پہنچادو کہ ہم اپنے رب سے جا ملے ہیں۔ ہمارا رب خود بھی ہم سے خوش ہے اور اس نے ہمیں بھی خوش کر دیا ہے۔ پھر اس کے بعد یہ آیت منسوخ ہوگئی اور آپ ﷺ نے چالیس روز تک نماز صبح میں قبیلہ رعل، ذکوان، بنو لحیان اور بنو عصیہ پر بددعا کی تھی جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کی تھی۔
تشریح:
1۔ اصل واقعہ یوں ہے کہ بنوسلیم کے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے خود کو مسلمان ظاہر کرکے درخواست کی کہ ہمارے ہمراہ کچھ قراء بھیج دیں تاکہ وہ ہمیں دین اسلام کی تعلیم دیں۔رسول اللہ ﷺ نے حضرت ام سلیم ؓ کے بھائی حضرت حرام بن ملحان ؓ اور ستر آدمیوں کوان کے ہمراہ قبیلہ بنو عامر کی طرف روانہ کردیا۔یہ ستر آدمی انصار کے قاری اور قرآن کریم کے ماہر تھے لیکن راستے میں بنوسلیم نے غداری کی اور بئر معونہ کے پاس انھیں ناحق قتل کر دیا۔لغت کے سلسلے میں جن قبائل کا ذکر آیا ہے وہ سب بنوسلیم کی شاخیں ہیں۔ 2۔امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کے راستے میں جو زخمی ہوجائے یا اسے نیزاماراجائے اور وہ ایسی حالت میں فوت ہوجائے تو اسے بھی شہادت کا درجہ ملتا ہے جیسا کہ مذکورہ واقعے میں حضرت حرام بن ملحان ؒ کے ساتھ ہوا۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے بنو سلیم کے ستر آدمی بنو عامر کے ہاں روانہ کیے۔ جب یہ لوگ بنو عامر کے پاس آئے تو میرے ماموں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: میں تم سے پہلے وہاں جاتا ہوں، اگرانھوں نے مجھے امن دیا تاکہ میں ان تک رسول اللہ ﷺ کا پیغام پہنچا سکوں تو زہے قسمت!بصورت دیگر تم لوگوں نے میرے قریب ہی رہنا ہے، چنانچہ وہ ان کے پاس گئے، انھوں نے امن بھی دے دیا، ابھی وہ اہل قبیلہ کو نبی کریم ﷺ کی باتیں سناہی رہے تھے کہ قبیلے والوں نے اپنے ایک آدمی کو اشارہ کیا تو اس نے انھیں نیزا مار کرگھائل کردیا۔ اس وقت ان کی زبان سے نکلا: اللہ اکبر، رب کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہوگیا۔ پھر قبیلے والے اس کے باقی ساتھیوں کی طرف بڑھے اور حملہ کرکے سب کو ہلاک کردیا۔ صرف ایک لنگڑا ساتھی بچا جو پہاڑ پر چڑھ گیا تھا۔ (راوی حدیث) ہمام نے کہا: میرے خیال کے مطابق اس کے ساتھ ایک اور بھی تھا۔ اسکے بعد حضرت جبرئیل ؑ نے نبی کریم ﷺ کو خبر دی کہ آپ کے ساتھی(سب قاری) اپنے رب سے جاملے ہیں۔ اللہ خود بھی ان سے خوش رہے اور اس نے انھیں بھی خوش کردیا ہے۔ حضرت انس ؓ نے کہا: اس واقعے کے بعد ہم یوں تلاوت کیاکرتے تھے : ہماری قوم کو ہمارا پیغام پہنچادو کہ ہم اپنے رب سے جا ملے ہیں۔ ہمارا رب خود بھی ہم سے خوش ہے اور اس نے ہمیں بھی خوش کر دیا ہے۔ پھر اس کے بعد یہ آیت منسوخ ہوگئی اور آپ ﷺ نے چالیس روز تک نماز صبح میں قبیلہ رعل، ذکوان، بنو لحیان اور بنو عصیہ پر بددعا کی تھی جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کی تھی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اصل واقعہ یوں ہے کہ بنوسلیم کے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے خود کو مسلمان ظاہر کرکے درخواست کی کہ ہمارے ہمراہ کچھ قراء بھیج دیں تاکہ وہ ہمیں دین اسلام کی تعلیم دیں۔رسول اللہ ﷺ نے حضرت ام سلیم ؓ کے بھائی حضرت حرام بن ملحان ؓ اور ستر آدمیوں کوان کے ہمراہ قبیلہ بنو عامر کی طرف روانہ کردیا۔یہ ستر آدمی انصار کے قاری اور قرآن کریم کے ماہر تھے لیکن راستے میں بنوسلیم نے غداری کی اور بئر معونہ کے پاس انھیں ناحق قتل کر دیا۔لغت کے سلسلے میں جن قبائل کا ذکر آیا ہے وہ سب بنوسلیم کی شاخیں ہیں۔ 2۔امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کے راستے میں جو زخمی ہوجائے یا اسے نیزاماراجائے اور وہ ایسی حالت میں فوت ہوجائے تو اسے بھی شہادت کا درجہ ملتا ہے جیسا کہ مذکورہ واقعے میں حضرت حرام بن ملحان ؒ کے ساتھ ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حفص بن عمر حوضی نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ہمام نے ان سے اسحاق نے اور ان سے انس ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے بنو سلیم کے ستر آدمی (جو قاری تھے) بنو عامر کے یہاں بھیجے۔ جب یہ سب حضرات (بئر معونہ پر) پہنچے تومیرے ماموں حرام بن ملحان ؓ نے کہا میں (بنو سلیم کے یہاں) آگے جاتا ہوں اگر مجھے انہوں نے اس بات کا امن دے دیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی باتیں ان تک پہنچاؤں تو۔ بہتر ورنہ تم لوگ میرے قریب تو ہو ہی۔ چنانچہ وہ ان کے یہاں گئے اورانہوں نے امن بھی دے دیا۔ ابھی وہ قبیلہ کے لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کی باتیں سنا ہی رہے تھے کہ قبیلہ والوں نے اپنے ایک آدمی (عامر بن طفیل) کو اشارہ کیا اور اس نے آپ ﷺ کو برچھا پیوست کردیا جو آرپار ہوگیا۔ اس وقت ان کی زبان سے نکلا اللہ أکبرمیں کامیاب ہوگیا کعبہ کے رب کی قسم! اس کے بعد قبیلہ والے حرام ؓ کے دوسرے ساتھیوں کی طرف (جو ستر کی تعداد میں تھے) بڑھے اور سب کو قتل کردیا۔ البتہ ایک صاحب لنگڑے تھے‘ پہاڑ پر چڑھ گئے۔ ہمام (راوی حدیث) نے بیان کیا میں سمجھتا ہوں کہ ایک اور ان کے ساتھ (پہاڑ پر چڑھے تھے) (عمر بن امیہ ضمری) اس کے بعد جبرائیل نے نبی کریم ﷺ کوخبر دی کہ آپ کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے جاملے ہیں پس اللہ خود بھی ان سے خوش ہے اور انہیں بھی خوش کردیا ہے۔ اس کے بعد ہم (قرآن کی دوسری آیتوں کے ساتھ یہ آیت بھی) پڑھتے تھے (ترجمہ) ہماری قوم کے لوگوں کو یہ پیغام پہنچادو کہ ہم اپنے رب سے آملے ہیں‘ پس ہمارا رب خود بھی خوش ہے اور ہمیں بھی خوش کردیا ہے۔ اس کے بعد یہ آیت منسوخ ہوگئی‘ نبی کریم ﷺ نے چالیس دن تک صبح کی نماز میں قبیلہ رعل‘ ذکوان‘ نبی لحیان اور بنی عصیہ کے لئے بد دعاکی تھی جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کی تھی۔
حدیث حاشیہ:
حافظ ؒنے کہا اس میں حفص بن عمر امام بخاری ؒ کے شیخ سے سہو ہوگیا ہے اور صحیح یوں ہے کہ حضرت ﷺ نے ام سلیم کے ایک بھائی یعنی حرام بن ملحان ؓ کو ستر آدمیوں کے ساتھ بنی عامر کی طرف بھیجا تھا۔ یہ ستر آدمی انصار کے قاری تھے اور آپ نے دین کی تعلیم پھیلانے کے لئے قبیلہ بنی عامر کے ہاں بھیجے تھے جن کے لئے خود اس قبیلہ نے درخواست کی لیکن راستے میں بنو سلیم نے دغا کی اور ان غریب قاریوں کو ناحق قتل کردیا۔ بنو سلیم کا سردار عامر بن طفیل تھا۔ لعنت کے سلسلہ میں جن قبائل کا ذکر روایت میں آیا ہے یہ سب بنو سلیم کی شاخیں ہیں۔ آیت جس کا ذکر روایت میں آیا ہے ان آیتوں میں سے ہے جن کی تلاوت منسوخ ہوگئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): The Prophet (ﷺ) sent seventy men from the tribe of Bani Salim to the tribe of Bani Amir. When they reached there, my maternal uncle said to them, "I will go ahead of you, and if they allow me to convey the message of Allah's Apostle (ﷺ) (it will be all right); otherwise you will remain close to me." So he went ahead of them and the pagans granted him security But while he was reporting the message of the Prophet (ﷺ) , they beckoned to one of their men who stabbed him to death. My maternal uncle said, "Allah is Greater! By the Lord of the Kaba, I am successful." After that they attached the rest of the party and killed them all except a lame man who went up to the top of the mountain. (Hammam, a sub-narrator said, "I think another man was saved along with him)." Gabriel (ؑ) informed the Prophet (ﷺ) that they (i.e the martyrs) met their Lord, and He was pleased with them and made them pleased. We used to recite, "Inform our people that we have met our Lord, He is pleased with us and He has made us pleased " Later on this Qur'anic Verse was cancelled. The Prophet (ﷺ) invoked Allah for forty days to curse the murderers from the tribe of Ral, Dhakwan, Bani Lihyan and Bam Usaiya who disobeyed Allah and his Apostle