ارشادباری تعالیٰ :" اہل ایمان میں سے کچھ ایسے ہیں کہ انھوں نے اللہ کے ساتھ جو عہد کیا اسے سچا کردکھایا۔ان میں سے کوئی تو اپنی ذمہ داری پوری کرچکا ہے اور کوئی موقع کا انتظار کررہا ہے۔اور انھوں نے اپنے عہد میں کوئی تبدیلی نہیں کی" کابیان
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: The Statement of Allah Aza wa'jal: "Among the believers are men who have been true to their covenant with Allah...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2805.
حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میرے چچا حضرت انس بن نضر ؓغزوہ بدر میں شریک نہ ہوسکے۔ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! میں پہلی جنگ ہی سے غائب رہا جو آپ نے مشرکین کے خلاف لڑی تھی لیکن اگر اب اللہ تعالیٰ نے مجھے مشرکین کے خلاف کسی لڑائی میں حاضری کا موقع دیا تو اللہ ضروردیکھے لے گاکہ میں کیا کرتا ہوں۔ پھر جب جنگ احد کا موقع آیا اور مسلمان بکھر گئے تو حضرت انس بن نضر ؓنے کہا: اے اللہ! جو کچھ مسلمانوں نے کیا میں اس سے معذرت کرتا ہوں اور جو کچھ ان مشرکین نے کیا میں اس سے بے زار ہوں، پھر وہ (مشرکین کی طرف) آگے بڑھے تو حضرت سعد بن معاذ ؓسے سامنا ہوا۔ ان سے حضرت انس بن نضر نے کہا: اے سعد بن معاذ !میں تو جنت میں جانا چاہتا ہوں اور رب نضر کی قسم!میں جنت کی خوشبو احد پہاڑ کے قریب پاتا ہوں۔ حضرت سعد ؓنے کہا: اللہ کے رسول ﷺ ! جو کچھ انھوں نے کردکھایا، اس کی مجھ میں ہمت نہ تھی۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ اس کے بعد جب ہم نے انس بن نضر ؓ کو پایا تو تلوار، نیزے اور تیر کے تقریباً اسی زخم ان کے جسم پر تھے۔ وہ شہید ہوچکے تھے اور مشرکین نے ان کے اعضاء کاٹ دیے تھے۔ کوئی شخص انھیں پہچان نہیں سکتا تھا صرف ان کی ہمشیر انھیں ان کے پوروں سے پہچان سکی۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے خیال کے مطابق یہ آیت ان کے اور ان جیسے دیگر اہل ایمان کے متعلق نازل ہوئی: ’’اہل ایمان میں سے کچھ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے اس وعدے کو سچا کردکھایا جو انھوں نے اللہ سے کیا تھا۔ ۔ ۔‘‘
اس آیت کریمہ میں وہ عہد مراد ہے جو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اُحد کے دن یا تھا کہ وہ جنگ سے پیٹھ نہیں پھریں گے یا اس سے مراد وہ عہد ہے جو انھوں نے عقبہ کی رات کیا تھا کہ ہم آپ کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے بلکہ ہر مقام پر آپ کے ساتھ رہیں گے۔بعض حضرات اپنا فرض اداکرچکے ہیں،یعنی شہادت کے مقام پر فائز ہوچکے ہیں اور کچھ شہادت کے منتظر ہیں اور دل میں شہادت کی تمنا رکھتے ہیں۔
حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میرے چچا حضرت انس بن نضر ؓغزوہ بدر میں شریک نہ ہوسکے۔ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! میں پہلی جنگ ہی سے غائب رہا جو آپ نے مشرکین کے خلاف لڑی تھی لیکن اگر اب اللہ تعالیٰ نے مجھے مشرکین کے خلاف کسی لڑائی میں حاضری کا موقع دیا تو اللہ ضروردیکھے لے گاکہ میں کیا کرتا ہوں۔ پھر جب جنگ احد کا موقع آیا اور مسلمان بکھر گئے تو حضرت انس بن نضر ؓنے کہا: اے اللہ! جو کچھ مسلمانوں نے کیا میں اس سے معذرت کرتا ہوں اور جو کچھ ان مشرکین نے کیا میں اس سے بے زار ہوں، پھر وہ (مشرکین کی طرف) آگے بڑھے تو حضرت سعد بن معاذ ؓسے سامنا ہوا۔ ان سے حضرت انس بن نضر نے کہا: اے سعد بن معاذ !میں تو جنت میں جانا چاہتا ہوں اور رب نضر کی قسم!میں جنت کی خوشبو احد پہاڑ کے قریب پاتا ہوں۔ حضرت سعد ؓنے کہا: اللہ کے رسول ﷺ ! جو کچھ انھوں نے کردکھایا، اس کی مجھ میں ہمت نہ تھی۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ اس کے بعد جب ہم نے انس بن نضر ؓ کو پایا تو تلوار، نیزے اور تیر کے تقریباً اسی زخم ان کے جسم پر تھے۔ وہ شہید ہوچکے تھے اور مشرکین نے ان کے اعضاء کاٹ دیے تھے۔ کوئی شخص انھیں پہچان نہیں سکتا تھا صرف ان کی ہمشیر انھیں ان کے پوروں سے پہچان سکی۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے خیال کے مطابق یہ آیت ان کے اور ان جیسے دیگر اہل ایمان کے متعلق نازل ہوئی: ’’اہل ایمان میں سے کچھ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے اس وعدے کو سچا کردکھایا جو انھوں نے اللہ سے کیا تھا۔ ۔ ۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن سعید خزاعی نے بیان کیا‘ کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا‘ ان سے حمید نے بیان کیا کہ میں نے انس ؓ سے پوچھا (دوسری سند) ہم سے عمر و بن زرارہ نے بیان کیا‘ کہا ہم سے زیاد نے بیان کیا‘ کہا کہ مجھ سے حمید طویل نے بیان کیا اوران سے انس ؓ نے بیان کیا کہ میرے چچا انس بن نضر ؓ بدر کی لڑائی میں حاضر نہ ہو سکے‘ اس لئے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں پہلی لڑائی ہی سے غائب رہا جو آپ نے مشرکین کے خلاف لڑی لیکن اگر اب اللہ تعالیٰ نے مجھے مشرکین کے خلاف کسی لڑائی میں حاضری کا موقع دیا تو اللہ تعالیٰ دیکھ لے گا کہ میں کیا کرتا ہوں۔ پھر جب احد کی لڑائی کا موقع آیا اورمسلمان بھاگ نکلے تو انس بن نضر نے کہا کہ اے اللہ! جو کچھ مسلمانوں نے کیا میں اس سے معذرت کرتا ہوں اورجو کچھ ان مشرکین نے کیا ہے میں اس سے بیزار ہوں ۔ پھر وہ آگے بڑھے (مشرکین کی طرف) تو سعد بن معاذ ؓ سے سامنا ہوا۔ ان سے انس بن نضر ؓ نے کہا اے سعد بن معاذ ! میں تو جنت میں جانا چاہتا ہوں اور نضر (ان کے باپ) کے رب کی قسم میں جنت کی خوشبو احد پہاڑ کے قریب پاتا ہوں۔ سعد ؓ نے کہا یارسول اللہ ﷺ! جو انہوں نے کر دکھایا اس کی مجھ میں ہمت نہ تھی۔ انس ؓ نے بیان کیا کہ اس کے بعد جب انس بن نضر ؓ کو ہم نے پایا تو تلوار نیزے اور تیر کے تقریباً اسی زخم ان کے جسم پر تھے اورکوئی شخص انہیں پہنچان نہ سکا تھا‘ صرف ان کی بہن انگلیوں سے انہیں پہنچان سکی تھیں۔ انس ؓ نے بیان کیا ہم سمجھتے ہیں (یا آپ نے بجائے نری کے نظن کہا) مطلب ایک ہی ہے کہ یہ آیت ان کے اور ان جیسے مومنین کے بارے میں نازل ہوئی تھی کہ ”مومنوں میں کچھ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے اس وعدے کو سچا کر دکھایا جو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا تھا۔“ آخر آیت تک۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): My uncle Anas bin An-Nadr was absent from the Battle of Badr. He said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I was absent from the first battle you fought against the pagans. (By Allah) if Allah gives me a chance to fight the pagans, no doubt. Allah will see how (bravely) I will fight." On the day of Uhud when the Muslims turned their backs and fled, he said, "O Allah! I apologize to You for what these (i.e. his companions) have done, and I denounce what these (i.e. the pagans) have done." Then he advanced and Sad bin Muadh met him. He said "O Sad bin Muadh ! By the Lord of An-Nadr, Paradise! I am smelling its aroma coming from before (the mountain of) Uhud," Later on Sad said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I cannot achieve or do what he (i.e. Anas bin An-Nadr) did. We found more than eighty wounds by swords and arrows on his body. We found him dead and his body was mutilated so badly that none except his sister could recognize him by his fingers." We used to think that the following Verse was revealed concerning him and other men of his sort: "Among the believers are men who have been true to their covenant with Allah.........." (33.23)