ارشادباری تعالیٰ :" اہل ایمان میں سے کچھ ایسے ہیں کہ انھوں نے اللہ کے ساتھ جو عہد کیا اسے سچا کردکھایا۔ان میں سے کوئی تو اپنی ذمہ داری پوری کرچکا ہے اور کوئی موقع کا انتظار کررہا ہے۔اور انھوں نے اپنے عہد میں کوئی تبدیلی نہیں کی" کابیان
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: The Statement of Allah Aza wa'jal: "Among the believers are men who have been true to their covenant with Allah...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2806.
حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ انس بن نضر ؓ کی بیع نامی بہن نے کسی خاتون کے اگلے دانت توڑدیےتھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے قصاص لینے کاحکم دیا تھا۔ حضرت انس بن نضر ؓنے عرض کیا : اللہ کے رسول ﷺ ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے !ان کے دانت نہیں توڑے جائیں گے، چنانچہ مدعی تاوان لینے پر راضی ہوگئے اور قصاص کا خیال چھوڑ دیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ہیں اگر وہ اللہ کا نام لے کر قسم اٹھا لیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم ضرور پوری کردیتا ہے۔‘‘
تشریح:
1۔غزوہ احد میں مسلمانوں کی ذرا سی غلطی سے جنگ کا نقشہ ہی بدل گیا۔ بھگدڑ مچ گئی اور اسلام کو بڑا زبردست نقصان پہنچا۔ اس کردار کے متعلق حضرت انس بن نضر ؓنے کہا تھا کہ میں مسلمانوں کی اس حرکت کو ناپسند کرتا ہوں اور اے اللہ! میں تیری بارگاہ میں ان کی طرف سے معذرت کا طالب ہوں۔ البتہ مشرک حق کے خلاف لڑرہے ہیں، میں ان سے قطعاً بے زار ہوں لیکن میں بھاگنے والوں میں نہیں ہوں۔یہ کہہ کر انھوں نے کفار پر حملہ کیا اور بہت سے کافروں کو جہنم رسید کرتے ہوئے آخر کار خود بھی جام شہادت نوش کرلیا۔۔۔ رضي اللہ تعالیٰ عنه ۔۔۔2۔دوسری حدیث میں حضرت انس بن نضر ؓ کی ایک کرامت کا ذکر ہے جو ان کی وفاداری اورجاں نثاری کی وجہ سے یہاں بیان کردی گئی ہے۔ان کامقصد رسول اللہ ﷺ کی بات کومسترد کرنا نہیں تھا بلکہ اس کے عدم وقوع کی خبردیناتھی جس کی تائید خود رسول اللہ ﷺ نے فرمادی کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی قسم پوری کرتا ہے،چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ قصاص لینے والوں کے دل نرم ہوگئے اور وہ قصاص معاف کرکے دیت لینے پر راضی ہوگئے۔
اس آیت کریمہ میں وہ عہد مراد ہے جو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اُحد کے دن یا تھا کہ وہ جنگ سے پیٹھ نہیں پھریں گے یا اس سے مراد وہ عہد ہے جو انھوں نے عقبہ کی رات کیا تھا کہ ہم آپ کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے بلکہ ہر مقام پر آپ کے ساتھ رہیں گے۔بعض حضرات اپنا فرض اداکرچکے ہیں،یعنی شہادت کے مقام پر فائز ہوچکے ہیں اور کچھ شہادت کے منتظر ہیں اور دل میں شہادت کی تمنا رکھتے ہیں۔
حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ انس بن نضر ؓ کی بیع نامی بہن نے کسی خاتون کے اگلے دانت توڑدیےتھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے قصاص لینے کاحکم دیا تھا۔ حضرت انس بن نضر ؓنے عرض کیا : اللہ کے رسول ﷺ ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے !ان کے دانت نہیں توڑے جائیں گے، چنانچہ مدعی تاوان لینے پر راضی ہوگئے اور قصاص کا خیال چھوڑ دیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ہیں اگر وہ اللہ کا نام لے کر قسم اٹھا لیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم ضرور پوری کردیتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔غزوہ احد میں مسلمانوں کی ذرا سی غلطی سے جنگ کا نقشہ ہی بدل گیا۔ بھگدڑ مچ گئی اور اسلام کو بڑا زبردست نقصان پہنچا۔ اس کردار کے متعلق حضرت انس بن نضر ؓنے کہا تھا کہ میں مسلمانوں کی اس حرکت کو ناپسند کرتا ہوں اور اے اللہ! میں تیری بارگاہ میں ان کی طرف سے معذرت کا طالب ہوں۔ البتہ مشرک حق کے خلاف لڑرہے ہیں، میں ان سے قطعاً بے زار ہوں لیکن میں بھاگنے والوں میں نہیں ہوں۔یہ کہہ کر انھوں نے کفار پر حملہ کیا اور بہت سے کافروں کو جہنم رسید کرتے ہوئے آخر کار خود بھی جام شہادت نوش کرلیا۔۔۔ رضي اللہ تعالیٰ عنه ۔۔۔2۔دوسری حدیث میں حضرت انس بن نضر ؓ کی ایک کرامت کا ذکر ہے جو ان کی وفاداری اورجاں نثاری کی وجہ سے یہاں بیان کردی گئی ہے۔ان کامقصد رسول اللہ ﷺ کی بات کومسترد کرنا نہیں تھا بلکہ اس کے عدم وقوع کی خبردیناتھی جس کی تائید خود رسول اللہ ﷺ نے فرمادی کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی قسم پوری کرتا ہے،چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ قصاص لینے والوں کے دل نرم ہوگئے اور وہ قصاص معاف کرکے دیت لینے پر راضی ہوگئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انہوں نے بیا ن کیا کہ انس بن نضر ؓ کی ایک بہن ربیع نامی ؓ نے کسی خاتون کے آگے کے دانت توڑ دیئے تھے‘ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے ان سے قصاص لینے کا حکم دیا ۔ انس بن نضر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنایا ہے (قصاص میں) ان کے دانت نہ ٹوٹیں گے۔ چنانچہ مدعی تاوان لینے پر راضی ہوگئے اورقصاص کا خیال چھوڑ دیا‘ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے کچھ بندے ہیں کہ اگر وہ اللہ کا نام لے کر قسم کھالیں تو اللہ خود ان کی قسم پوری کردیتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت انس بن نضر ؓنے جو کہا اس کا مطلب یہ تھا کہ میں دونوں کاموں سے ناراض ہوں‘ مشرک تو کم بخت ناپاک ہیں جو ناحق پر لڑ رہے ہیں۔ ان سے قطعاً بیزار ہوں اور مسلمان جن کو حق پر جم کر لڑنا چاہئے تھا وہ بھاگ نکلے ہیں‘ ان کی حرکت کو بھی ناپسند کرتا ہوں اور تیری درگاہ میں معذرت کرتا ہوں کہ میں ان بھاگنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ یہ کہہ کر انہوں نے کفار پر حملہ کیا اور کتنوں کو جہنم رسید کرتے ہوئے آخر جام شہادت پی لیا۔ بھاگنے والوں سے وہ لوگ مراد ہیں جن کو جنگ احد میں ایک درے کی حفاظت پر مامور کیا گیا تھا اور بتاکید کہہ دیا گیا تھا کہ تا اذن ہرگز درہ نہ چھوڑیں مگر انہوں نے شروع میں مسلمانوں کی فتح دیکھی تو درہ خالی چھوڑ دیا اور جس میں سے کفار قریش نے دوبارہ وار کیا اور میدان احد کا نقشہ ہی بدل گیا‘ جنگ احد اسلامی تاریخ کا ایک بہت ہی دردناک معرکہ ہے جس میں ستر مسلمان شہید ہوئے اور اسلام کو بڑا زبردست نقصان پہنچا۔ میدان احد میں گنج شہیدان ان ہی شہدائے احد کا یادگاری قبرستان ہے۔ جزاھم اللہ جزا حسنا بہار اب جو دنیا میں آئی ہوئی ہے یہ سب پود اسی کی لگائی ہوئی ہے
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
His sister Ar-Rubbaya' broke a front tooth of a woman and Allah's Apostle (ﷺ) ordered for retaliation. On that Anas (bin An-Nadr) said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! By Him Who has sent you with the Truth, my sister's tooth shall not be broken." Then the opponents of Anas's sister accepted the compensation and gave up the claim of retaliation. So Allah's Apostle (ﷺ) said, "There are some people amongst Allah's slaves whose oaths are fulfilled by Allah when they take them."