Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: Whoever beats somebody else's animal during the battle (intending to help its rider))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2861.
حضرت جابر بن عبد اللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ایک سفر کیا۔ ۔ ۔ (راوی حدیث) ابو عقیل کہتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں وہ سفر جہاد کا تھا یا عمرے کا۔ ۔ ۔ جب ہم فارغ ہو کر واپس ہوئے تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اپنے گھر جلدی جانا چاہے وہ جاسکتا ہے۔‘‘ حضرت جابر ؓنے کہا: پھر جب ہم آگے بڑھے۔ میں اپنے ایک بے داغ سیاہی مائل سرخ اونٹ پر سوار تھا۔ لوگ میرے پیچھے رہ گئے تھے۔ میں ایسی حالت میں سفر کر رہا تھا کہ اچانک میرا اونٹ رک گیا۔ نبی ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’جابر!اسے روک لو۔‘‘ آپ نے اسے اپنا کوڑا مارا تو وہ اچھل کر چلنے لگا۔ آپ نے پوچھا: ’’جابر!کیا تم اپنا اونٹ (مجھے) فروخت کروگے؟‘‘ میں نے عرض کیا: ہاں۔ جب ہم مدینہ پہنچے اور نبی ﷺ اپنے اصحاب کے ہمراہ مسجد نبوی میں داخل ہوئے تو میں بھی آپ کی خدمت میں پہنچا اور مسجد کے سامنے ایک میدان کے کنارے اپنا اونٹ باندھ دیا اور آپ ﷺ سے کہا: یہ آپ کا اونٹ ہے۔ آپ باہرتشریف لائے اور اونٹ کے ارد گرد چکر لگا کر فرمایا: ’’اونٹ تو ہمارا ہی ہے۔‘‘ پھر نبی ﷺ نے چند اوقیے سونا بھیجا اور فرمایا: ’’یہ جابر کو دے دو۔‘‘ پھر دریافت فرمایا: ’’تمھیں اس کی پوری قیمت مل گئی ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’یہ قیمت اور اونٹ دونوں تمھارے ہیں۔‘‘
تشریح:
1۔مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا:’’تم اپنے اونٹ کو بٹھاؤ۔‘‘ میں نے اسے بٹھایا تو آپ نے فرمایا: ’’مجھے لکڑی دو۔‘‘ میں نے وہ لکڑی آپ کو تھمادی تو آپ نے اس سے اونٹ کو کئی ایک ٹھونسے دیے۔اس کےبعد آپ ﷺنے فرمایا: ’’اب اس پر سوار ہوجاؤ۔‘‘ تو میں اس پر سوار ہوگیا۔ (مسندأحمد 375/1، 376) 2۔امام بخاری ؒنے ثابت کیا ہے کہ کسی مصلحت کے پیش نظر دوسرے کی سواری کو مارنا جائز ہے۔ یہ ظلم یا زیادتی نہیں۔واضح رہے کہ یہ سفر غزوہ تبوک سے واپسی کا تھا۔جیسا کہ بعض روایات میں اس کی صراحت ہے۔(صحیح البخاري، الشروط، حدیث 2718)
حضرت جابر بن عبد اللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ایک سفر کیا۔ ۔ ۔ (راوی حدیث) ابو عقیل کہتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں وہ سفر جہاد کا تھا یا عمرے کا۔ ۔ ۔ جب ہم فارغ ہو کر واپس ہوئے تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اپنے گھر جلدی جانا چاہے وہ جاسکتا ہے۔‘‘ حضرت جابر ؓنے کہا: پھر جب ہم آگے بڑھے۔ میں اپنے ایک بے داغ سیاہی مائل سرخ اونٹ پر سوار تھا۔ لوگ میرے پیچھے رہ گئے تھے۔ میں ایسی حالت میں سفر کر رہا تھا کہ اچانک میرا اونٹ رک گیا۔ نبی ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’جابر!اسے روک لو۔‘‘ آپ نے اسے اپنا کوڑا مارا تو وہ اچھل کر چلنے لگا۔ آپ نے پوچھا: ’’جابر!کیا تم اپنا اونٹ (مجھے) فروخت کروگے؟‘‘ میں نے عرض کیا: ہاں۔ جب ہم مدینہ پہنچے اور نبی ﷺ اپنے اصحاب کے ہمراہ مسجد نبوی میں داخل ہوئے تو میں بھی آپ کی خدمت میں پہنچا اور مسجد کے سامنے ایک میدان کے کنارے اپنا اونٹ باندھ دیا اور آپ ﷺ سے کہا: یہ آپ کا اونٹ ہے۔ آپ باہرتشریف لائے اور اونٹ کے ارد گرد چکر لگا کر فرمایا: ’’اونٹ تو ہمارا ہی ہے۔‘‘ پھر نبی ﷺ نے چند اوقیے سونا بھیجا اور فرمایا: ’’یہ جابر کو دے دو۔‘‘ پھر دریافت فرمایا: ’’تمھیں اس کی پوری قیمت مل گئی ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’یہ قیمت اور اونٹ دونوں تمھارے ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا:’’تم اپنے اونٹ کو بٹھاؤ۔‘‘ میں نے اسے بٹھایا تو آپ نے فرمایا: ’’مجھے لکڑی دو۔‘‘ میں نے وہ لکڑی آپ کو تھمادی تو آپ نے اس سے اونٹ کو کئی ایک ٹھونسے دیے۔اس کےبعد آپ ﷺنے فرمایا: ’’اب اس پر سوار ہوجاؤ۔‘‘ تو میں اس پر سوار ہوگیا۔ (مسندأحمد 375/1، 376) 2۔امام بخاری ؒنے ثابت کیا ہے کہ کسی مصلحت کے پیش نظر دوسرے کی سواری کو مارنا جائز ہے۔ یہ ظلم یا زیادتی نہیں۔واضح رہے کہ یہ سفر غزوہ تبوک سے واپسی کا تھا۔جیسا کہ بعض روایات میں اس کی صراحت ہے۔(صحیح البخاري، الشروط، حدیث 2718)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوعقیل و بشر بن عقبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابو المتوکل ناجی (علی بن داود) نے بیان کیا، انہوں نے کہا میں جابر بن عبداللہ انصاری ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے جو کچھ سنا ہے، ان میں سے مجھ سے بھی کوئی حدیث بیان کیجیے۔ انہوں نے بیان فرمایا کہ میں حضور اکرم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھا۔ ابوعقیل راوی نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں (یہ سفر) جہاد کے لیے تھا یا عمرہ کے لیے (واپس ہوتے ہوئے) جب (مدینہ منورہ) دکھائی دینے لگا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنے گھر جلدی جانا چاہے وہ جاسکتا ہے۔ جابر ؓ نے بیان کیا کہ پھر ہم آگے بڑھے۔ میں اپنے ایک سیاہی مائل سرخ اونٹ بے داغ پر سوار تھا دوسرے لوگ میرے پیچھے رہ گئے، میں اسی طرح چل رہا تھا کہ اونٹ رک گیا (تھک کر) حضور اکرم ﷺ نے فرمایا جابر! اپنا اونٹ تھام لے، آپ ﷺ نے اپنے کوڑے سے اونٹ کو مارا، اونٹ کود کر چل نکلا پھر آپ ﷺ نے دریافت فرمایا یہ اونٹ بیچو گے ؟ میں نے کہا ہاں! جب مدینہ پہنچے اور نبی کریم ﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ مسجد نبوی میں داخل ہوئے تو میں بھی آپ ﷺ کی خدمت میں پہنچا اور ''بلاط'' کے ایک کونے میں میں نے اونٹ کو باندھ دیا اور آنحضرت ﷺ سے عرض کیا یہ آپ ﷺ کا اونٹ ہے۔ پھر آپ ﷺ باہر تشریف لائے اور اونٹ کو گھمانے لگے اور فرمایا کہ اونٹ تو ہمارا ہی ہے، اس کے بعد آپ ﷺ نے چند اوقیہ سونا مجھے دلوایا اور دریافت فرمایا تم کو قیمت پوری مل گئی۔ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ پھر آپ نے فرمایا اب قیمت اور اونٹ (دونوں ہی) تمہارے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
امام احمد ؒ کی روایت میں یوں ہے آپ ﷺ نے فرمایا ذرا اس کو بٹھا‘ میں نے بٹھایا پھر آنحضرتﷺ نے فرمایا یہ لکڑی تو مجھ کو دے‘ میں نے دی‘ آپؐ نے اس لکڑی سے اس کو کئی گھونسے دئیے‘ اس کے بعد فرمایا کہ سوار ہو جا۔ میں سوار ہوگیا۔ ترجمہ باب یہیں سے نکلتا ہے کہ آپؐ نے پرائے اونٹ یعنی جابر کے اونٹ کو مارا۔ بلاط وہ پتھر کا فرش مسجد کے سامنے تھا۔ یہ سفر غزوہ تبوک کا تھا۔ ابن اسحاق نے غزوہ ذات الرقاع بتلایا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Muslim from Abu Aqil from Abu Al-Mutawakkil An-Naji (RA): I called on Jabir bin 'Abdullah Al-Ansari (RA) and said to him, "Relate to me what you have heard from Allah's Apostle (ﷺ) ." He said, "I accompanied him on one of the journeys." (Abu Aqil said, "I do not know whether that journey was for the purpose of Jihad or 'Umra.") "When we were returning," Jabir continued, "the Prophet (ﷺ) said, 'Whoever wants to return earlier to his family, should hurry up.' We set off and I was on a black red tainted camel having no defect, and the people were behind me. While I was in that state the camel stopped suddenly (because of exhaustion). On that the Prophet (ﷺ) said to me, 'O Jabir, wait!' Then he hit it once with his lash and it started moving on a fast pace. He then said, 'Will you sell the camel?' I replied in the affirmative when we reached Medina, and the Prophet (ﷺ) went to the Mosque along with his companions. I, too, went to him after tying the camel on the pavement at the Mosque gate. Then I said to him, 'This is your camel.' He came out and started examining the camel and saying, 'The camel is ours.' Then the Prophet (ﷺ) sent some Awaq (i.e. an amount) of gold saying, 'Give it to Jabir.' Then he asked, 'Have you taken the full price (of the camel)?' I replied in the affirmative. He said, 'Both the price and the camel are for you.' ''