Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: Exhortation to archery (i.e., arrow throwing))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
( اور سورہ انفال میں ) اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ” اور ان ( کافروں ) کے مقابلے کے لیے جس قدر بھی تم سے ہو سکے سامان تیار رکھو ، قوت سے اور پلے ہوئے گھوڑوں سے ، جس کے ذریعہ سے تم اپنا رعب رکھتے ہو اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں پر “ ۔
2899.
حضر ت سلمہ بن اکوع ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ قبیلہ اسلم کے چند صحابہ کرام ؓکے پاس سے گزرے جو تیر اندازی کی مشق کررہے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اے اولاد اسماعیل!تیر اندازی کروکیونکہ تمہارے بزرگ دادا حضرت اسماعیل ؑ بھی تیر انداز تھے۔ ہاں تم تیر اندازی کرو، میں بنو فلاں کی طرف ہوں۔‘‘ جب آپ ایک فریق کے ساتھ ہوگئے تو دوسرے فریق نے ہاتھ روک لیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ کیابات ہے، تم تیر اندازی کیوں نہیں کرتے؟‘‘ دوسرے فریق نے عرض کیا: جب آپ ایک فریق کے ساتھ ہیں تو ہم کس طرح مقابلہ کرسکتے ہیں؟ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اچھا تم تیر اندازی جاری رکھو، میں تم سب کے ساتھ ہوں۔‘‘
تشریح:
1۔ سیرت طیبہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے تمام صحابہ کرام ؓ کو سپاہیانہ اور مجاہدانہ زندگی بسر کرنے کی تلقین فرمائی جیسا کہ مذکورہ حدیث سے واضح ہوتا ہے، نیز یہ بھی معلوم ہو اکہ حضرت اسماعیل ؑبھی بہت بڑے سپاہی تھے اور نیز ہ بازی ہی ان کا مشغلہ تھا۔ آج کل بندوق،توپ،میزائل الغرض جتنے بھی جنگی ہتھیار وجود میں آچکے ہیں وہ سب اس میں شامل ہیں۔ ان سب میں مہارت پیدا کرنا مسلمانوں کے لیے ضروری ہے۔ 2۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے اس رمی کو ہی طاقت قراردیا ہے۔ (صحیح مسلم، الإمارة، حدیث 4946(1917)چنانچہ آج ہر حکومت کو رمی پر فخر ہے۔ جس حکومت کو رمی جیسی پوری قوت حاصل ہے، اس کی دوسروں پر برتری ہے، بم، ایٹم بم اور میزائل وغیرہ سب کو رمی شامل ہے اور سب آلات جنگ اسی رمی کے ضمن میں آتے ہیں۔
قرآنی آیت میں لفظ (قُوَّۃ) عام ہے،جس سے میدان جنگ میں کام آنے والی ہرقسم کی قوت مراد ہے۔اس میں تمام آلات جنگ شامل ہیں جواب تک وجود میں آچکے ہیں اور قیامت تک جو وجود میں آئیں گے۔مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ تمام جنگی ہتھیار مہیا کریں۔ان سے پوری پوری واقفیت حاصل کریں،انھیں خود بنائیں،ان کا استعمال سیکھیں۔اس ایٹمی دور میں تمام جنگی قوتیں اس آیت کی تفسیر ہوسکتی ہیں۔آیت کا آخری حصہ بھی توجہ طلب ہے کہ آلات جنگ کا استعمال محض ملک حاصل کرنےکے لیے نہ ہوبلکہ ان کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ اللہ کے دشمن اور مسلمانوں کے دشمن دباؤ میں رہیں تاکہ اللہ کی زمین امن اورعافیت کاگہوارہ بن جائے اور لوگ چین اور سکون سے زندگی بسرکریں۔واللہ اعلم۔
( اور سورہ انفال میں ) اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ” اور ان ( کافروں ) کے مقابلے کے لیے جس قدر بھی تم سے ہو سکے سامان تیار رکھو ، قوت سے اور پلے ہوئے گھوڑوں سے ، جس کے ذریعہ سے تم اپنا رعب رکھتے ہو اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں پر “ ۔
حدیث ترجمہ:
حضر ت سلمہ بن اکوع ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ قبیلہ اسلم کے چند صحابہ کرام ؓکے پاس سے گزرے جو تیر اندازی کی مشق کررہے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اے اولاد اسماعیل!تیر اندازی کروکیونکہ تمہارے بزرگ دادا حضرت اسماعیل ؑ بھی تیر انداز تھے۔ ہاں تم تیر اندازی کرو، میں بنو فلاں کی طرف ہوں۔‘‘ جب آپ ایک فریق کے ساتھ ہوگئے تو دوسرے فریق نے ہاتھ روک لیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ کیابات ہے، تم تیر اندازی کیوں نہیں کرتے؟‘‘ دوسرے فریق نے عرض کیا: جب آپ ایک فریق کے ساتھ ہیں تو ہم کس طرح مقابلہ کرسکتے ہیں؟ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اچھا تم تیر اندازی جاری رکھو، میں تم سب کے ساتھ ہوں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ سیرت طیبہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے تمام صحابہ کرام ؓ کو سپاہیانہ اور مجاہدانہ زندگی بسر کرنے کی تلقین فرمائی جیسا کہ مذکورہ حدیث سے واضح ہوتا ہے، نیز یہ بھی معلوم ہو اکہ حضرت اسماعیل ؑبھی بہت بڑے سپاہی تھے اور نیز ہ بازی ہی ان کا مشغلہ تھا۔ آج کل بندوق،توپ،میزائل الغرض جتنے بھی جنگی ہتھیار وجود میں آچکے ہیں وہ سب اس میں شامل ہیں۔ ان سب میں مہارت پیدا کرنا مسلمانوں کے لیے ضروری ہے۔ 2۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے اس رمی کو ہی طاقت قراردیا ہے۔ (صحیح مسلم، الإمارة، حدیث 4946(1917)چنانچہ آج ہر حکومت کو رمی پر فخر ہے۔ جس حکومت کو رمی جیسی پوری قوت حاصل ہے، اس کی دوسروں پر برتری ہے، بم، ایٹم بم اور میزائل وغیرہ سب کو رمی شامل ہے اور سب آلات جنگ اسی رمی کے ضمن میں آتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "کفار کے مقابلے کے لیے جس قدر بھی تم سے ہوسکے سامان تیار رکھو، خواہ تیراندازی ہو یا گھوڑے باندھنا ہو۔ اس تیاری کے ساتھ تم اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کوہراساں کرو۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا، انہوں نے سلمہ بن اکوع ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کا قبیلہ بنو اسلم کے چند لوگوں پر گزر ہوا جو تیراندازی کی مشق کر رہے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اسماعیل ؑ کے بیٹو! تیراندازی کرو کہ تمہارے بزرگ دادا اسماعیل ؑ بھی تیرانداز تھے۔ ہاں ! تیراندازی کرو، میں بنی فلاں (ابن الاورع ؓ) کی طرف ہوں۔ بیان کیا، جب آپ ﷺ ایک فریق کے ساتھ ہو گئے تو (مقابلے میں حصہ لینے والے) دوسرے ایک فریق نے ہاتھ روک لیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا بات پیش آئی، تم لوگوں نے تیراندازی بند کیوں کردی؟ دوسرے فریق نے عرض کیا جب آپ ﷺ ایک فریق کے ساتھ ہو گئے تو بھلا ہم کس طرح مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اس پر آنحضور ﷺ نے فرمایا اچھا تیراندازی جاری رکھو میں تم سب کے ساتھ ہوں۔
حدیث حاشیہ:
سیرۃ طیبہ کے مطالعہ کرنے والوں پر واضح ہے کہ آپﷺ نے اپنے پیروکاروں کو ہمیشہ سپاہی بنانے کی کوشش فرمائی اور مجاہدانہ زندگی گزارنے کے لئے شب و روز تلقین فرماتے رہے جیسا کہ اس حدیث سے بھی واضح ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح ہوا کہ عربوں کے جد امجد حضرت اسماعیل ؑ بھی بڑے زبردست سپاہی تھے اور نیزہ بازی ہی ان کا مشغلہ تھا۔ آج کل بندوق‘ توپ‘ ہوائی جہاز اور جتنے بھی آلات حرب وجود میں آچکے ہیں وہ سب اسی ذیل ہیں۔ ان سب میں مہارت پیدا کرنا سب کو اپنانا یہ خدا پرستی کے خلاف نہیں ہے بلکہ ہر مسلمان پر ان کا سیکھنا فرض ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Salama bin Al-Akwa (RA): The Prophet (ﷺ) passed by some people of the tribe of Bani Aslam who were practicing archery. The Prophet (ﷺ) said, "O Bani Ismail ! Practice archery as your father Isma'il was a great archer. Keep on throwing arrows and I am with Bani so-and-so." So one of the parties ceased throwing. Allah's Apostle (ﷺ) said, "Why do you not throw?" They replied, "How should we throw while you are with them (i.e. on their side)?" On that the Prophet (ﷺ) said, "Throw, and I am with all of you."