قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ (بَابُ مَنْ صَفَّ أَصْحَابَهُ عِنْدَ الهَزِيمَةِ، وَنَزَلَ عَنْ دَابَّتِهِ وَاسْتَنْصَرَ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

ترجمة الباب:

2930 .   حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ الحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ البَرَاءَ، وَسَأَلَهُ رَجُلٌ أَكُنْتُمْ فَرَرْتُمْ يَا أَبَا عُمَارَةَ يَوْمَ حُنَيْنٍ؟ قَالَ: لاَ وَاللَّهِ، مَا وَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَكِنَّهُ خَرَجَ شُبَّانُ أَصْحَابِهِ، وَأَخِفَّاؤُهُمْ حُسَّرًا لَيْسَ بِسِلاَحٍ، فَأَتَوْا قَوْمًا رُمَاةً، جَمْعَ هَوَازِنَ، وَبَنِي نَصْرٍ، مَا يَكَادُ يَسْقُطُ لَهُمْ سَهْمٌ، فَرَشَقُوهُمْ رَشْقًا مَا يَكَادُونَ يُخْطِئُونَ، فَأَقْبَلُوا هُنَالِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى بَغْلَتِهِ البَيْضَاءِ، وَابْنُ عَمِّهِ أَبُو سُفْيَانَ بْنُ الحَارِثِ بْنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ يَقُودُ بِهِ، فَنَزَلَ وَاسْتَنْصَرَ، ثُمَّ قَالَ: «أَنَا النَّبِيُّ لاَ كَذِبْ، أَنَا ابْنُ عَبْدِ المُطَّلِبْ»، ثُمَّ صَفَّ أَصْحَابَهُ

صحیح بخاری:

کتاب: جہاد کا بیان

 

تمہید کتاب  (

باب : ہار جانے کے بعد امام کا سواری سے اترنا اور بچے کھچے لوگوں کی صف باندھ کر اللہ سے مدد مانگنا

)
 

مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)

2930.   حضرت براء بن عازب  ؓسے روایت ہے، ان سے کسی نے پوچھا: اے ابو عمارہ! کیا آپ لوگوں نے غزوہ حنین میں فرار اختیار کیاتھا؟ انھوں نے کہا: اللہ کی قسم!رسول اللہ ﷺ نے ہر گز پیٹھ نہیں پھیری، البتہ آپ کے اصحاب میں جو نوجوان بے سروسامان تھے، جن کے پاس نہ زرہ تھی، نہ خود اور نہ کوئی دوسرا ہتھیار، ان کاپالا ایسی قوم سے پڑ گیا جو بہترین تیر انداز تھے، وہ ہوازن اور بنو نضر قبائل کی جماعتیں تھیں کہ ان کا تیر کم ہی خطا جاتا تھا، چنانچہ انھوں نے خوب تیر برسائے۔ وہ نشانے سے خطا نہیں کرتے تھے۔ اس دوران میں مسلمان نبی کریم ﷺ کے پاس جمع ہوگئے، آپ اپنے سفیدخچر پر سوار تھے اور آپ کے چچازاد بھائی حضرت ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب آپ کی سواری کی لگام تھامے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے سواری سے اتر کر اللہ تعالیٰ سے مدد کی دعامانگی، پھر فرمایا: ’’میں نبی ہوں۔ اس میں غلط بیانی کا کوئی شائبہ نہیں، اور میں جناب عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔‘‘ پھر آپ نے اپنے ساتھیوں کی (از سر نو) صف بندی کی۔