باب : نبی کریم ﷺکا (غیر مسلموں کو) اسلام کی طرف دعوت دینا اور اس بات کی دعوت کہ وہ خدا کو چھوڑ کر باہم ایک دوسرے کو اپنا رب نہ بنائیں
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: The invitation of the Prophet saws to embrace Islam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ کسی بندے کے لیے یہ لائق نہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ اسے ( کتاب و حکمت ) عطا فرمائے تو ( وہ بجائے اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لوگوں سے اپنی عبادت کے لیے کہے ) آخر آیت تک ۔
2942.
حضرت سہل بن سعد ؓسے روایت ہے، ’’میں اب جھنڈا اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ فتح دے گا۔‘‘ اس پر صحابہ کرام ؓ اس امید میں کھڑے ہو گئے کہ ان میں سے کس کو جھنڈا ملتا ہے؟ اور دوسرے دن ہر شخص کو یہی امید تھی کہ جھنڈا اسے دیا جائے گا مگر آپ نے فرمایا: ’’علی ؓ کہاں ہیں۔‘‘ عرض کیا گیا : وہ تو آشوب چشم میں مبتلا ہیں۔ آپ کے حکم پر انھیں بلایا گیا۔ آپ نے ان کی دونوں آنکھوں میں اپنا لعب دہن لگایا جس سے وہ فوراً صحت یاب ہو گئے گویا انھیں کوئی شکایت ہی نہیں تھی۔ پھر حضرت علی ؓنے کہا: ہم ان سے جنگ لڑیں گے یہاں تک کہ وہ ہماری طرح (مسلمان) ہو جائیں ؟ آپ نے فرمایا: ’’ آرام سے چلو! جب تم ان کے میدان میں جاؤ تو سب سے پہلے انھیں دعوت اسلام دو اور ان کے فرائض سے انھیں آگاہ کرو۔ اللہ کی قسم!اگر تمھاری وجہ سے ایک شخص کو بھی ہدایت مل گئی تو وہ تمھارے لیے سرخ اونٹوں سےبہتر ہے۔‘‘
تشریح:
1۔سرخ اونٹ عربوں کے ہاں پسندیدہ اور مرغوب سرمایہ تھا۔ رسول اللہ ﷺنے حضرت علی ؓسے فرمایا: ’’اگر اس قدر محبوب سرمایہ اللہ کی راہ میں صدقہ کروتو بھی اس ثواب کو نہیں پاسکتے ہو جو کسی آدمی کے مسلمان ہونے سے تمھیں ملے گا‘‘ امام بخاری ؒیہ بتانا چاہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے لڑائی شروع کرنے سے پہلے فریق مقابل کے سامنے حضرت علی ؓ کو دعوتِ اسلام پیش کرنے کا حکم دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مخالفین کو پہلے راہ راست پر لانے کی بھر پور کوشش کی جائے کیونکہ ہماری تبلیغی کوشش سے اگر ایک آدمی بھی راہ راست پر آگیا تو اللہ کے ہاں یہ عمل بہت اجروثواب کا باعث ہے۔ 2۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلامی بنیادی طور پر جنگ وقتال نہیں چاہتا وہ صرف صلح اور امن وامان چاہتا ہے مگر جب دفاع ناگزیر ہوتو پھر بھر پور مقابلے کا حکم بھی دیتا ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اسلامی جہاد کا مقصد عبادت الٰہی اور مساوات انسانی کو فروغ دینا ہے اور اس ملوکیت کو جڑ سے اکھاڑنا ہے جس میں ایک انسان تخت حکومت پر بیٹھ کر اپنی خدائی تسلیم کرائے۔حضرات انبیاء کے لیے بھی یہ لائق نہیں کہ الوہیت وربویت کے کچھ حصے دار بننے کا دعوی کریں۔ اس آیت کریمہ میں اسلامی جہاد کی دعوت کا بیان ہے۔
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ کسی بندے کے لیے یہ لائق نہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ اسے ( کتاب و حکمت ) عطا فرمائے تو ( وہ بجائے اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لوگوں سے اپنی عبادت کے لیے کہے ) آخر آیت تک ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت سہل بن سعد ؓسے روایت ہے، ’’میں اب جھنڈا اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ فتح دے گا۔‘‘ اس پر صحابہ کرام ؓ اس امید میں کھڑے ہو گئے کہ ان میں سے کس کو جھنڈا ملتا ہے؟ اور دوسرے دن ہر شخص کو یہی امید تھی کہ جھنڈا اسے دیا جائے گا مگر آپ نے فرمایا: ’’علی ؓ کہاں ہیں۔‘‘ عرض کیا گیا : وہ تو آشوب چشم میں مبتلا ہیں۔ آپ کے حکم پر انھیں بلایا گیا۔ آپ نے ان کی دونوں آنکھوں میں اپنا لعب دہن لگایا جس سے وہ فوراً صحت یاب ہو گئے گویا انھیں کوئی شکایت ہی نہیں تھی۔ پھر حضرت علی ؓنے کہا: ہم ان سے جنگ لڑیں گے یہاں تک کہ وہ ہماری طرح (مسلمان) ہو جائیں ؟ آپ نے فرمایا: ’’ آرام سے چلو! جب تم ان کے میدان میں جاؤ تو سب سے پہلے انھیں دعوت اسلام دو اور ان کے فرائض سے انھیں آگاہ کرو۔ اللہ کی قسم!اگر تمھاری وجہ سے ایک شخص کو بھی ہدایت مل گئی تو وہ تمھارے لیے سرخ اونٹوں سےبہتر ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔سرخ اونٹ عربوں کے ہاں پسندیدہ اور مرغوب سرمایہ تھا۔ رسول اللہ ﷺنے حضرت علی ؓسے فرمایا: ’’اگر اس قدر محبوب سرمایہ اللہ کی راہ میں صدقہ کروتو بھی اس ثواب کو نہیں پاسکتے ہو جو کسی آدمی کے مسلمان ہونے سے تمھیں ملے گا‘‘ امام بخاری ؒیہ بتانا چاہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے لڑائی شروع کرنے سے پہلے فریق مقابل کے سامنے حضرت علی ؓ کو دعوتِ اسلام پیش کرنے کا حکم دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مخالفین کو پہلے راہ راست پر لانے کی بھر پور کوشش کی جائے کیونکہ ہماری تبلیغی کوشش سے اگر ایک آدمی بھی راہ راست پر آگیا تو اللہ کے ہاں یہ عمل بہت اجروثواب کا باعث ہے۔ 2۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلامی بنیادی طور پر جنگ وقتال نہیں چاہتا وہ صرف صلح اور امن وامان چاہتا ہے مگر جب دفاع ناگزیر ہوتو پھر بھر پور مقابلے کا حکم بھی دیتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: " کسی بندے کے لیے یہ لائق نہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے کتاب وحکمت اور نبوت عطا فرمائے (تو وہ لوگوں کو اللہ کے سوا اپنی عبادت کے متعلق دعوت دے)۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے سہل بن سعد ساعدی ؓ نے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے خیبر کی لڑائی کے دن فرمایا تھا کہ اسلامی جھنڈا میں ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دوں گا جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ فتح عنایت فرمائے گا۔ اب سب اس انتظار میں تھے کہ دیکھئے جھنڈا کسے ملتا ہے، جب صبح ہوئی تو سب سرکردہ لوگ اسی امید میں رہے کہ کاش! انہیں کو مل جائے لیکن آنحضرت ﷺ نے دریافت فرمایا علی کہاں ہیں ؟ عرض کیا گیا کہ وہ آنکھوں کے درد میں مبتلا ہیں، آخر آپ ﷺ کے حکم سے انہیں بلایاگیا۔ آپ ﷺ نے اپنا لعاب دہن مبارک ان کی آنکھوں میں لگادیا اور فوراً ہی وہ اچھے ہو گئے۔ جیسے پہلے کوئی تکلیف ہی نہ رہی ہو۔ حضرت علی ؓ نے کہا ہم ان (یہودیوں سے) اس وقت تک جنگ کریں گے جب تک یہ ہمارے جیسے (مسلمان) نہ ہو جائیں۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے فرمایا ابھی ٹھہرو پہلے ان کے میدان میں اتر کر انہیں تم اسلام کی دعوت دے لو اور ان کے لیے جو چیز ضروری ہیں ان کی خبرکردو (پھر وہ نہ مانیں تو لڑنا) اللہ کی قسم! اگر تمہارے ذریعہ ایک شخص کو بھی ہدایت مل جائے تو یہ تمہارے حق میں سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے باب کی مطابقت یوں ہے کہ آنحضرتﷺ نے لڑائی شروع کرنے سے پہلے فریق مقابل کے سامنے حضرت علی ؓ کو دعوت پیش کرنے کا حکم فرمایا ساتھ ہی یوں ارشاد ہوا کہ پہلے مخالفین کو راہِ راست پر لانے کی پوری کوشش کرو اور یاد رکھو اگر ایک آدمی بھی تمہاری تبلیغی کوشش سے نیک راستے پر آگیا تو تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ قیمتی چیز ہے۔ عرب میں کالے اونٹوں کے مقابلے پر سرخ اونٹوں کی بڑی قیمت تھی۔ اس لئے مثال کے طور پر آپﷺ نے یہ ارشاد فرمایا۔ اسلام کسی سے جنگ جہاد لڑائی کا خواہاں ہرگز نہیں ہے۔ وہ صرف صلح صفائی امن و امان چاہتا ہے مگر جب مدافعت ناگزیر ہو تو پھر بھرپور مقابلہ کا حکم بھی دیتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Sad (RA): That he heard the Prophet (ﷺ) on the day (of the battle) of Khaibar saying, "I will give the flag to a person at whose hands Allah will grant victory." So, the companions of the Prophet (ﷺ) got up, wishing eagerly to see to whom the flag will be given, and everyone of them wished to be given the flag. But the Prophet (ﷺ) asked for 'Ali. Someone informed him that he was suffering from eye-trouble. So, he ordered them to bring 'Ali in front of him. Then the Prophet (ﷺ) spat in his eyes and his eyes were cured immediately as if he had never any eye-trouble. 'Ali said, "We will fight with them (i.e. infidels) till they become like us (i.e. Muslims)." The Prophet (ﷺ) said, "Be patient, till you face them and invite them to Islam and inform them of what Allah has enjoined upon them. By Allah! If a single person embraces Islam at your hands (i.e. through you), that will be better for you than the red camels."