Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: Bidding farewell)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2954.
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں کسی لشکر کے ساتھ روانہ کیا اور ہم سے فرمایا: ’’اگر تم قریش کے فلاں فلاں دو آدمیوں کو پاؤ تو انھیں آگ میں جلا دینا۔‘‘ آپ نے ان کا نام بھی لیا تھا۔ حضرت ابو ہریرہ ٍ کہتے ہیں۔ پھر جب ہم چلنے لگے تو ہم آپ کے پاس رخصت کے لیے آئے تو آپ نے فرمایا: ’’میں نے تمھیں حکم دیا تھا کہ فلاں، فلاں کو آگ میں جلا دینا مگر آگ سے عذاب تو اللہ ہی دیتا ہے، لہٰذا تم اگر انھیں گرفتار کرو تو قتل کردینا۔‘‘
تشریح:
1۔ان دونوں نے رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی حضرت زینب ؓ کو دوران سفر میں برچھا ماراجس سے ان کا حمل ساقط ہوگیا تھا،اس لیے آپ نے پہلے انھیں جلادینے کا حکم دیا،پھر بعد میں انھیں قتل کردینے کا فرمایا۔ 2۔بوقت سفر الوداع کہنا سنت ہے،خواہ مسافر،مقیم کو کہے یا اس کے برعکس مقیم،مسافر سے کہے۔حدیث میں پہلی صورت کا بیان ہے۔ دوسری صورت کو اس پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں دوسری صورت ہی عام ہے،یعنی مقیم آدمی مسافر کو الوداع کہتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں کسی لشکر کے ساتھ روانہ کیا اور ہم سے فرمایا: ’’اگر تم قریش کے فلاں فلاں دو آدمیوں کو پاؤ تو انھیں آگ میں جلا دینا۔‘‘ آپ نے ان کا نام بھی لیا تھا۔ حضرت ابو ہریرہ ٍ کہتے ہیں۔ پھر جب ہم چلنے لگے تو ہم آپ کے پاس رخصت کے لیے آئے تو آپ نے فرمایا: ’’میں نے تمھیں حکم دیا تھا کہ فلاں، فلاں کو آگ میں جلا دینا مگر آگ سے عذاب تو اللہ ہی دیتا ہے، لہٰذا تم اگر انھیں گرفتار کرو تو قتل کردینا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ان دونوں نے رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی حضرت زینب ؓ کو دوران سفر میں برچھا ماراجس سے ان کا حمل ساقط ہوگیا تھا،اس لیے آپ نے پہلے انھیں جلادینے کا حکم دیا،پھر بعد میں انھیں قتل کردینے کا فرمایا۔ 2۔بوقت سفر الوداع کہنا سنت ہے،خواہ مسافر،مقیم کو کہے یا اس کے برعکس مقیم،مسافر سے کہے۔حدیث میں پہلی صورت کا بیان ہے۔ دوسری صورت کو اس پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں دوسری صورت ہی عام ہے،یعنی مقیم آدمی مسافر کو الوداع کہتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور عبداللہ بن وہب نے کہا کہ مجھ کو عمرو بن حارث نے خبر دی، انہیں بکیر نے، انہیں سلیمان بن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک فوج میں بھیجا اور ہدایت فرمائی کہ اگر فلاں فلاں دو قریشی (ہبا بن اسود اور نافع بن عبد عمر) جن کا آپ نے نام لیا تم کو مل جائیں تو انہیں آگ میں جلا دینا۔ ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ جب ہم آپ ﷺ کی خدمت میں آپ ﷺ سے رخصت ہونے کی اجازت کے لیے حاضر ہوئے، اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں پہلے ہدایت کی تھی کہ فلاں فلاں قریشی اگر تمہیں مل جائیں تو انہیں آگ میں جلا دینا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ آگ کی سزا دینا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لیے سزاوار نہیں ہے۔ اس لیے اگر وہ تمہیں مل جائیں تو انہیں قتل کر دینا۔ (آگ میں نہ جلانا)
حدیث حاشیہ:
ان ہر دو مردودوں نے آنحضرتﷺ کی صاحبزادی حضرت زینبؓ کو راستے میں بحالت حمل ایسا برچھا مارا تھا کہ آپ کا حمل ساقط ہوگیا۔ اس لئے آپ نے پہلے ان کو ملنے پر آگ میں جلانے کا حکم دیا۔ پھر بعد میں قتل کا حکم دیا۔ معلوم ہوا کہ آگ میں جلانا حرام ہے‘ پہلے آپﷺ نے رائے سے حکم دیا تھا۔ پھر وحی الٰہی سے اس کو منسوخ فرما دیا۔ قسطلانی نے کہا پسو اور کھٹمل وغیرہ کا بھی آگ میں جلانا مکروہ ہے۔ اور بعض ڈاکوؤں کے لئے جو آپﷺ نے آنکھوں میں گرم سلائیاں ڈالنے کا حکم دیا تھا وہ قصاصاً تھا‘ کیونکہ ان ظالموں نے اصحاب رسولﷺ کے ساتھ یہی حرکت کی تھی۔ ارشاد باری ہے ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنْثَى بِالْأُنْثَى﴾یعنی قصاص میں آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت قتل کی جائے گی بلکہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت توڑے جائیں گے۔ اسی قانون الٰہی کے تحت ان ڈاکوؤں کو یہ سنگین سزا دی گئی تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Allah's Messenger (ﷺ) sent us on military expedition telling us, "If you find such and such persons (he named two men from Quraish), burn them fire." Then we came to bid him farewell, when we wanted to set out, he said: "Previously I ordered you to burn so-and-so and so-and-so with fire, but as punishment with fire is done by none except Allah, if you capture them, kill them, (instead)."