باب : امام ( بادشاہ اسلام ) کے ساتھ ہو کر لڑنا اور اس کے زیر سایہ اپنا ( دشمن کے حملوں سے ) بچاو کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: The Imam should be defended)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2957.
اور اسی سند ہی سے روایت ہے (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا): ’’جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اور جس شخص نے حاکم شریعت کی فرمانبرداری کی تو بلا شبہ اس نے میری فرمانبرداری کی اور جو شخص حاکم شریعت کی نافرمانی کرے گا تو بلا شبہ اس نے میری نافرمانی کی۔ اور امام تو ڈھال کی طرح ہے جس کے زیر سایہ جنگ کی جاتی ہے اور اس کے ذریعے سے ہی دفاع کیا جا تا ہے۔ اگر وہ اللہ سے ڈرنے کا حکم دے اور عدل کرے تو اسے ثواب ملےگا اور اگر وہ اس کے خلاف کرے تو اس کے سبب گناہ گار ہوگا۔‘‘
تشریح:
1۔حاکم شریعت کی ذات لوگوں کے لیے اس طرح ڈھال ہوتی ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی دوسرے پر ظلم نہیں کرتا اور دشمن بھی خوفزدہ رہتاہے،لہذا اس ڈھال کی حفاظت کرنا تمام مسلمانوں کے لیے ضروری ہے۔ 2۔اس حدیث سے امام شریعت کی شخصیت اور اس کی طاقت کا بھی پتہ چلتا ہے،نیزشرعی حکومت کا مقام ظاہر ہوتا ہے جس کے نا ہونے کی وجہ سے آج ہرجگہ اسلام غربت کی حالت میں ہے اور مسلمان بھی غلامانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ 3۔امام سے مراد ہر وہ بااختیار شخص ہے جو لوگوں کے معاملات کا منتظم ہو جس کے امرونہی اور جہادی معاملات میں اتباع کیا جاتا ہو۔حدیث کے یہ معنی ہیں کہ امام اور حکمران کے ساتھ مل کر جہاد وقتال کیا جائے۔ اس کےبغیر جہاد کرنے کے وہ فوائد حاصل ہونے نہایت مشکل ہیں جو جہاد سے مقصود ہوتے ہیں۔
اور اسی سند ہی سے روایت ہے (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا): ’’جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اور جس شخص نے حاکم شریعت کی فرمانبرداری کی تو بلا شبہ اس نے میری فرمانبرداری کی اور جو شخص حاکم شریعت کی نافرمانی کرے گا تو بلا شبہ اس نے میری نافرمانی کی۔ اور امام تو ڈھال کی طرح ہے جس کے زیر سایہ جنگ کی جاتی ہے اور اس کے ذریعے سے ہی دفاع کیا جا تا ہے۔ اگر وہ اللہ سے ڈرنے کا حکم دے اور عدل کرے تو اسے ثواب ملےگا اور اگر وہ اس کے خلاف کرے تو اس کے سبب گناہ گار ہوگا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔حاکم شریعت کی ذات لوگوں کے لیے اس طرح ڈھال ہوتی ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی دوسرے پر ظلم نہیں کرتا اور دشمن بھی خوفزدہ رہتاہے،لہذا اس ڈھال کی حفاظت کرنا تمام مسلمانوں کے لیے ضروری ہے۔ 2۔اس حدیث سے امام شریعت کی شخصیت اور اس کی طاقت کا بھی پتہ چلتا ہے،نیزشرعی حکومت کا مقام ظاہر ہوتا ہے جس کے نا ہونے کی وجہ سے آج ہرجگہ اسلام غربت کی حالت میں ہے اور مسلمان بھی غلامانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ 3۔امام سے مراد ہر وہ بااختیار شخص ہے جو لوگوں کے معاملات کا منتظم ہو جس کے امرونہی اور جہادی معاملات میں اتباع کیا جاتا ہو۔حدیث کے یہ معنی ہیں کہ امام اور حکمران کے ساتھ مل کر جہاد وقتال کیا جائے۔ اس کےبغیر جہاد کرنے کے وہ فوائد حاصل ہونے نہایت مشکل ہیں جو جہاد سے مقصود ہوتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی، اس نے میری نافرمانی کی۔ امام کی مثال ڈھال جیسی ہے کہ اس کے پیچھے رہ کر اس کی آڑ میں (یعنی اس کے ساتھ ہو کر) جنگ کی جاتی ہے۔ اور اسی کے ذریعہ (دشمن کے حملہ سے) بچا جاتا ہے، پس اگر امام تمہیں اللہ سے ڈرتے رہنے کا حکم دے اور انصاف کرے اس کا ثواب اسے ملے گا، لیکن اگر بے انصافی کرے گا تو اس کا وبال اس پر ہو گا۔
حدیث حاشیہ:
یعنی امام کی ذات لوگوں کا بچاؤ ہوتی ہے۔ کوئی کسی پر ظلم کرنے نہیں پاتا۔ دشمنوں کے حملہ سے اسی کی وجہ سے حفاظت ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ ہمہ وقت مدافعت کے لئے تیار رہتا ہے۔ ان احادیث سے امام وقت کی شخصیت اور اس کی طاقت پر روشنی پڑتی ہے اور سیاست اسلامی و حکومت شرعی کا مقام ظاہر ہوتا ہے جس کے نہ ہونے کی وجہ سے آج ہر جگہ اسلام غریب ہے اور مسلمان غلامانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان احادیث پر ان حضرات کو بھی غور کرنا چاہئے جو اپنے کسی مولوی صاحب کو امام وقت کا نام دے کر اس کی بیعت کے لئے لوگوں کو دعوت دیتے ہیں اور حالت یہ کہ مولوی صاحب کو حکومت کے معمولی چپراسی جتنی طاقت و سیاست حاصل نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
He who obeys the chief, obeys me, and he who disobeys the chief, disobeys me. The Imam is like a shelter for whose safety the Muslims should fight and where they should seek protection. If the Imam orders people with righteousness and rules justly, then he will be rewarded for that, and if he does the opposite, he will be responsible for that."