باب : دشمن کو دیکھ کر بلند آواز سے یا صبا حاہ پکارنا
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: Shouting: "Ya Sabahah!")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
تاکہ لوگ سن لیں اور مدد کو آئیں ۔قال ابن المنيرموضع هذه الترجمةان هذه الدعوةليست من دعوى الجاهلية المنهى عنها لانهااستغاثه على الكفار(فتح)یعنی طرح پکارنا منع نہیں ہے۔
3041.
حضرت سلمہ بن اکوع ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں مدینہ طیبہ سے غابہ کی طرف جارہا تھا۔ جب میں غابہ کی پہاڑی پر پہنچا تو مجھے حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓ کا ایک غلام ملا۔ میں نےکہا: تیری خرابی ہوتو یہاں کیسے آیا؟اس نے کہا: نبی کریم ﷺ کی دودھیل اونٹنیاں چھین لی گئی ہیں۔ میں نے کہا: انھیں کس نے چھینا ہے؟ اس نے کہا: غطفان اور فزارہ کےلوگوں نے۔ اس کے بعد میں تین باریا صباحاہ!یا صباحاہ کہتا ہوا خوب چلایا حتیٰ کہ مدینہ طیبہ کے دونوں پتھریلے کناروں میں رہنے والوں نے میری آواز کو سنا۔ پھر میں دوڑتا ہوا ڈاکوؤں سے جا ملا۔ جبکہ وہ اونٹنیاں لیے جارہے تھے۔ اس کے بعد میں نے انھیں تیر مارنے شروع کردیے اور میں یہ کہہ رہا تھا: ’’میں ہوں سلمہ بن اکوع جان لو۔۔۔ آج کمینے سب مریں گے مان لو‘‘ چنانچہ میں نے دو اونٹنیاں ان سے چھین لیں قبل اس کے کہ وہ ان کا دودھ پیتے۔ میں انھیں ہانکتا ہوا لارہا تھا کہ نبی کریم ﷺ مجھے ملے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !ڈاکو پیاسے ہیں۔ میں نے انھیں پانی بھی نہیں پینے دیا، لہذا آپ جلد ہی ان کے تعاقب میں کسی کو روانہ کردیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اے ابن اکوع!تو ان پر غالب ہوچکا۔ اب انھیں جانے دو۔ وہ اپنی قوم میں پہنچ چکے ہیں اور وہاں ان کی مہمانی ہورہی ہے۔‘‘
تشریح:
1۔غابہ،مدینہ طیبہ سے شام کی طرف تقریبا چھ کلو میٹر کے فاصلے پر ایک جنگل کا نام ہے،وہاں بہت درخت تھے،وہیں کے جھاؤ کے درخت سے منبر نبوی بنایا گیا تھا۔ 2۔دور جاہلیت میں جب مصیبت آتی تو بآواز بلند یا صباحاہ یا صباحاہ پکاراجاتا، یعنی یہ صبح مصیبت بھری ہے جلدآؤ اور مدد کوپہنچو۔اس طرح کی آواز اگرکفار اور مشرکین کے خلاف استعمال کی جائے تو جائز ہے۔ یہ دعوت جاہلیت نہیں بلکہ کفار کے خلاف مدد طلب کرناہے اور اس سے دشمن کو خوفزدہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔بصورت دیگر منع ہے۔ (فتح الباري:197/6)
تاکہ لوگ سن لیں اور مدد کو آئیں ۔قال ابن المنيرموضع هذه الترجمةان هذه الدعوةليست من دعوى الجاهلية المنهى عنها لانهااستغاثه على الكفار(فتح)یعنی طرح پکارنا منع نہیں ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت سلمہ بن اکوع ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں مدینہ طیبہ سے غابہ کی طرف جارہا تھا۔ جب میں غابہ کی پہاڑی پر پہنچا تو مجھے حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓ کا ایک غلام ملا۔ میں نےکہا: تیری خرابی ہوتو یہاں کیسے آیا؟اس نے کہا: نبی کریم ﷺ کی دودھیل اونٹنیاں چھین لی گئی ہیں۔ میں نے کہا: انھیں کس نے چھینا ہے؟ اس نے کہا: غطفان اور فزارہ کےلوگوں نے۔ اس کے بعد میں تین باریا صباحاہ!یا صباحاہ کہتا ہوا خوب چلایا حتیٰ کہ مدینہ طیبہ کے دونوں پتھریلے کناروں میں رہنے والوں نے میری آواز کو سنا۔ پھر میں دوڑتا ہوا ڈاکوؤں سے جا ملا۔ جبکہ وہ اونٹنیاں لیے جارہے تھے۔ اس کے بعد میں نے انھیں تیر مارنے شروع کردیے اور میں یہ کہہ رہا تھا: ’’میں ہوں سلمہ بن اکوع جان لو۔۔۔ آج کمینے سب مریں گے مان لو‘‘ چنانچہ میں نے دو اونٹنیاں ان سے چھین لیں قبل اس کے کہ وہ ان کا دودھ پیتے۔ میں انھیں ہانکتا ہوا لارہا تھا کہ نبی کریم ﷺ مجھے ملے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !ڈاکو پیاسے ہیں۔ میں نے انھیں پانی بھی نہیں پینے دیا، لہذا آپ جلد ہی ان کے تعاقب میں کسی کو روانہ کردیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اے ابن اکوع!تو ان پر غالب ہوچکا۔ اب انھیں جانے دو۔ وہ اپنی قوم میں پہنچ چکے ہیں اور وہاں ان کی مہمانی ہورہی ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔غابہ،مدینہ طیبہ سے شام کی طرف تقریبا چھ کلو میٹر کے فاصلے پر ایک جنگل کا نام ہے،وہاں بہت درخت تھے،وہیں کے جھاؤ کے درخت سے منبر نبوی بنایا گیا تھا۔ 2۔دور جاہلیت میں جب مصیبت آتی تو بآواز بلند یا صباحاہ یا صباحاہ پکاراجاتا، یعنی یہ صبح مصیبت بھری ہے جلدآؤ اور مدد کوپہنچو۔اس طرح کی آواز اگرکفار اور مشرکین کے خلاف استعمال کی جائے تو جائز ہے۔ یہ دعوت جاہلیت نہیں بلکہ کفار کے خلاف مدد طلب کرناہے اور اس سے دشمن کو خوفزدہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔بصورت دیگر منع ہے۔ (فتح الباري:197/6)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا‘ کہا ہم کو یزید بن ابی عبید نے خبردی‘ انہیں سلمہ بن اکوع ؓ نے خبر دی ‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں مدینہ منورہ سے غابہ (شام کے راستے میں ایک مقام) جارہا تھا‘ غابہ کی پہاڑی پر ابھی میں پہنچا تھا کہ عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کا ایک غلام (رباح) مجھے ملا۔ میں نے کہا ‘ کیا بات پیش آئی ؟ کہنے لگا کہ رسول اللہ ﷺ کی دودھیل اونٹنیاں (دودھ دینے والیاں) چھین لی گئیں ہیں۔ میں نے پوچھا کس نے چھینا ہے؟ بتایا کہ قبیلہ غطفان اور فزارہ کے لوگوں نے۔ پھر میں نے تین مرتبہ بہت زور سے چیخ کر ''یا صباحاہ‘یا صباحاہ'' کہا۔ اتنی زور سے کہ مدینہ کے چاروں طرف میری آواز پہنچ گئی۔ اس کے بعد میں بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھا‘ اور ڈاکوؤں کو جا لیا‘ اونٹنیاں ان کے ساتھ تھیں‘ میں نے ان پر تیر برسانا شروع کر دیا‘ اور کہنے لگا‘ میں اکوع کا بیٹا سلمہ ہوں اور آج کا دن کمینوں کی ہلاکت کا دن ہے۔ آخر اونٹنیاں میں نے ان سے چھڑا لیں‘ ابھی وہ لوگ پانی نہ پینے پائے تھے اور انہیں ہانک کر واپس لا رہا تھا کہ اتنے میں رسول اللہ ﷺ بھی مجھ کو مل گئے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ڈاکو پیاسے ہیں اور میں نے مارے تیروں کے پانی بھی نہیں پینے دیا۔ اس لئے ان کے پیچھے کچھ لوگوں کو بھیج دیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا‘ اے ابن الاکوع ! تو ان پر غالب ہو چکا اب جانے دے‘ درگزر کر وہ تو اپنی قوم میں پہنچ گئے جہاں ان کی مہمانی ہو رہی ہے۔
حدیث حاشیہ:
: لفظ رضع راضع کی جمع ہے بمعنی پاجی‘ کمینہ اور بدمعاش بعض نے کہا بخیل جو بخل کی وجہ سے اپنے جانور کا دودھ منہ سے چوستا ہے دوہتا نہیں کہ کہیں دوہنے کی آواز سن کر دوسرے لوگ نہ آجائیں اور ان کو دودھ دینا پڑے‘ ایک بخیل کا ایسا ہی قصہ مشہور ہے۔ بعضوں نے کہا ترجمہ یوں ہے آج معلوم ہو جائے گا کس نے شریف ماں کا دودھ پیا ہے اور کس نے کمینی کا۔ عرب کا قاعدہ ہے کہ کوئی آفت آتی ہے تو زور سے پکارتے ہیں‘ یا صبا حاہ! یعنی یہ صبح مصیبت کی ہے‘ جلد آؤ اور ہماری مدد کرو۔ غابہ ایک مقام کا نام ہے مدینہ سے کئی میل پر شام کی طرف۔ وہاں درخت بہت تھے‘ وہیں کے جھاؤ سے منبر نبوی بنایا گیا تھا۔ غطفان اور فزارہ دو قبیلوں کے نام ہیں سلمہ بن اکوع ؓنے کہا تھا کہ وہ ڈاکو پانی پینے کو ٹھہرے ہوں گے‘ فوج کے لوگ ان کو پالیں گے اور پکڑ لائیں گے۔ ابن سعد کی روایت میں ہے کہ میرے ساتھ سو آدمی دیجئے تو میں ان کو معہ ان کے اسباب کے گرفتار کرکے لاتا ہوں۔ آپﷺ نے جو جواب دیا وہ آپ کا معجزہ تھا۔ واقعی وہ ڈاکو اپنے قبیلہ غطفان میں پہنچ چکے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Salama (RA): I went out of Madinah towards Al-Ghaba. When I reached the mountain path of Al-Ghaba, a slave of 'Abdur-Rahman bin 'Auf met me. I said to him, "Woe to you! What brought you here?" He replied, "The she-camels of the Prophet (ﷺ) have been taken away." I said, "Who took them?" He said, "Ghatafan and Fazara." So, I sent three cries, "O Sabaha-h ! O Sabahah !" so loudly that made the people in between its (i.e. Medina's) two mountains hear me. Then I rushed till I met them after they had taken the camels away. I started throwing arrows at them saying, "I am the son of Al-Akwa"; and today perish the mean people!" So, I saved the she-camels from them before they (i.e. the robbers) could drink water. When I returned driving the camels, the Prophet (ﷺ) met me, I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) Those people are thirsty and I have prevented them from drinking water, so send some people to chase them." The Prophet (ﷺ) said, "O son of Al-Akwa', you have gained power (over your enemy), so forgive (them). (Besides) those people are now being entertained by their folk."