باب : حملہ کرتے وقت یوں کہنا اچھا لے میں میں فلاں کا بیٹا ہوں
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: Saying: "Take it! I am the son of so-and-so.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
سلمہ بن اکوعؓ نے ڈاکوؤں پر تیر چلائے اور کہا‘ لے میں اکوع کا بیٹاہوں لڑائی کے وقت میں جب دشمن پر وار کرے ایسا کہنا جائز ہے ‘اور یہ اس فخر اور تکبر میں داخل نہیں ہے جو منع ہے قال ابن المنیر موقعها من الاحكام انها خارجةعن الافتخار المنهى عنه لاقتضاء الحال ذالك قلت وهو قريب من جواز الاختيال بالخاء المعجمة فى الحرب دون غيرها(فتح)
3042.
حضرت براء ؓسے روایت ہے کہ ان سے ایک آدمی نے پوچھا: اے ابو عمارہ!کیا غزوہ حنین کے موقع پر تم بھاگ گئے تھے؟ حضرت براء ؓنے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس دن راہ فرار اختیار نہیں کی تھی بلکہ ابو سفیان بن حارث ؓنے آپ کے خچر کی لگام کو پکڑا ہوا تھا، جب مشرکین نے آپ کا گھیراؤ کرلیا تو آپ نے اتر کر یہ کہنا شروع کردیا: ’’میں نبی ہوں، اس میں جھوٹ نہیں، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔‘‘ راوی کہتے ہیں: اس روز آپ سے بڑھ کر کوئی بہادر نہیں دیکھا گیا۔
تشریح:
1۔اپنے قول یا فعل سے بہادری اور شجاعت کا اظہار کرنا دور جاہلیت کا وتیرہ تھا۔ نیز اس دور میں اپنے باپ دادا کی نسبت سے فخر کیا جاتا تھا جس سے اسلام نے منع فرمایاہے۔ البتہ میدان جنگ میں دشمن کو مرعوب کرنے اور اپنے ساتھیوں کے حوصلے بلند کرنے کے لیے ایسا کرنا جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺنے غزوہ حنین کے موقع پر خود کو اپنے دادا کی طرف منسوب کیا جو بہادری اور شجاعت میں اونچا مقام رکھتے تھے نیز حضرت سلمہ ابن اکوع ؓنے بھی ایسا کیا۔ 2۔امام بخارى ؒ کا مقصد ہے کہ ذاتی طور پر ایسا کرنا اگرچہ معیوب ہے لیکن کسی عظیم مقصد کے پیش نظر یہ انداز اختیار کرنے میں چنداں حرج نہیں اور میدان جنگ میں قومی نعرہ لگانا مذموم نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔
دوران جنگ میں دشمن پر ضرب کاری لگاتے ہوئے ایسا کہنا جائز ہے اور یہ اس فخر و غرور میں شامل نہیں جس کی شرعاً ممانعت ہے حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک موقع پر یہ انداز اختیار کیا تھا جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے۔(صحیح مسلم الجہاد والسیر حدیث 4678(1807)
سلمہ بن اکوعؓ نے ڈاکوؤں پر تیر چلائے اور کہا‘ لے میں اکوع کا بیٹاہوں لڑائی کے وقت میں جب دشمن پر وار کرے ایسا کہنا جائز ہے ‘اور یہ اس فخر اور تکبر میں داخل نہیں ہے جو منع ہے قال ابن المنیر موقعها من الاحكام انها خارجةعن الافتخار المنهى عنه لاقتضاء الحال ذالك قلت وهو قريب من جواز الاختيال بالخاء المعجمة فى الحرب دون غيرها(فتح)
حدیث ترجمہ:
حضرت براء ؓسے روایت ہے کہ ان سے ایک آدمی نے پوچھا: اے ابو عمارہ!کیا غزوہ حنین کے موقع پر تم بھاگ گئے تھے؟ حضرت براء ؓنے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس دن راہ فرار اختیار نہیں کی تھی بلکہ ابو سفیان بن حارث ؓنے آپ کے خچر کی لگام کو پکڑا ہوا تھا، جب مشرکین نے آپ کا گھیراؤ کرلیا تو آپ نے اتر کر یہ کہنا شروع کردیا: ’’میں نبی ہوں، اس میں جھوٹ نہیں، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔‘‘ راوی کہتے ہیں: اس روز آپ سے بڑھ کر کوئی بہادر نہیں دیکھا گیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔اپنے قول یا فعل سے بہادری اور شجاعت کا اظہار کرنا دور جاہلیت کا وتیرہ تھا۔ نیز اس دور میں اپنے باپ دادا کی نسبت سے فخر کیا جاتا تھا جس سے اسلام نے منع فرمایاہے۔ البتہ میدان جنگ میں دشمن کو مرعوب کرنے اور اپنے ساتھیوں کے حوصلے بلند کرنے کے لیے ایسا کرنا جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺنے غزوہ حنین کے موقع پر خود کو اپنے دادا کی طرف منسوب کیا جو بہادری اور شجاعت میں اونچا مقام رکھتے تھے نیز حضرت سلمہ ابن اکوع ؓنے بھی ایسا کیا۔ 2۔امام بخارى ؒ کا مقصد ہے کہ ذاتی طور پر ایسا کرنا اگرچہ معیوب ہے لیکن کسی عظیم مقصد کے پیش نظر یہ انداز اختیار کرنے میں چنداں حرج نہیں اور میدان جنگ میں قومی نعرہ لگانا مذموم نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ نے کہا: اس وار کو وصول کرو میں اکوع کا بیٹا ہوں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے ‘ ان سے اسرائیل نے ‘ ان سے ابو اسحاق نے بیان کیا کہ انہوں نے براء بن عازب ؓ سے پوچھا تھا‘ اے ابو عمارہ ! کیا آپ لوگ حنین کی جنگ میں واقعی فرار ہو گئے تھے؟ ابو اسحاق نے کہا میں سن رہا تھا‘ براء ؓ نے یہ جواب دیا کہ رسول کریم ﷺ اس دن اپنی جگہ سے بالکل نہیں ہٹے تھے۔ ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب آپ کے خچر کی لگام تھامے ہوئے تھے‘ جس وقت مشرکین نے آپ کو چاروں طرف سے گھیر لیا تو آپ سواری سے اترے اور (تنہا میدان میں آ کر) فرمانے لگے میں اللہ کا نبی ہوں‘ اس میں بالکل جھوٹ نہیں۔ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ براء نے کہا کہ آنحضرت ﷺ سے زیادہ بہادر اس دن کوئی بھی نہیں تھا۔ اگر کافر لوگ ایک مسلمان کے فیصلے پر راضی ہو کر اپنے قلعے سے اتر آئیں؟
حدیث حاشیہ:
جنگ حنین کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے۔ ﴿وَّيَوْمَ حُنَيْنٍ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ ﴾ (التوبة: 25) یعنی حنین کی لڑائی میں تم کو تمہاری کثرت نے گھمنڈو غرور میں ڈال دیا تھا جس کا نتیجہ یہ کہ تمہاری کثرت نے تم کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچایا اور قبیلہ ہوازن کے تیر اندازوں نے عام مسلمانوں کے منہ موڑ دئیے۔ بعد میں رسول کریمﷺ کی استقامت و بہادری نے اکھڑے ہوئے مجاہدین کے دل بڑھا دئیے اور ذرا سی ہمت و بہادری نے میدان جنگ کا نقشہ بدل دیا‘ اس موقع پر آنحضرتﷺ نے أنا النبيُ لا کَذب کا نعرہ بلند فرمایا‘ میدان جنگ میں ایسے قومی نعرے بلند کرنا مذموم نہیں ہے۔ حضرت امام بخاریؒ کا یہی مقصد ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Ishaq (RA): A man asked Al-Bara "O Abu 'Umara! Did you flee on the day (of the battle) of Hunain?" Al-Bara replied while I was listening, "As for Allah's Apostle (ﷺ) he did not flee on that day. Abu Sufyan (RA) bin Al-Harith was holding the reins of his mule and when the pagans attacked him, he dismounted and started saying, 'I am the Prophet, and there is no lie about it; I am the son of 'Abdul Muttalib.' On that day nobody was seen braver than the Prophet