باب : اگر کچھ لوگ جو دارالحرب میں مقیم ہیں اسلام لے آئیں اور وہ مال وجائداد منقولہ وغیر منقولہ کے مالک ہیں تو وہ ان ہی کی ہو گی
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: If some people in a hostile non-Muslim country embrace Islam and they have possessions)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3058.
حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے حجۃالوداع میں عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !آپ کل کہاں قیام فرمائیں گے؟ آپ نے فرمایا:’’ کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی مکان چھوڑا ہے؟‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’ کل ہم لوگ بنو کنانہ کی وادی میں پڑاؤ کریں گے، جس کووادی محصب کہا جاتا ہے، جہاں قریش نے کفر پر اڑے رہنے کی قسمیں اٹھائی تھیں۔‘‘ اور یہ اس طرح کہ بنو کنانہ نے بنو ہاشم کے خلاف قریش سے قسم لی تھی کہ وہ بنو ہاشم سےخرید و فروخت نہیں کریں گے اور نہ انھیں رہنے کے لیے جگہ ہی دیں گے۔‘‘ امام زہری ؒ فرماتے ہیں کہ خیف کے معنی وادی کے ہیں۔
تشریح:
1۔ ابو طالب جناب عبدالمطلب کے بڑے بیٹے تھےجاہلیت کی رسم کے مطابق عبدالمطلب کی وفات کے بعد ابو طالب ان کی تمام جائیداد کے مالک بن گئے ۔ ابو طالب کے دوبیٹے حضرت جعفر ؓ اور حضرت علی ؓ مسلمان ہونے کی وجہ سے ان کی جائیداد کے وارث نہ بن سکے۔ عقیل اور طالب کافر تھے ابو طالب کی وفات کے بعد وہ مسلمان بن گئے اسلام لانے سے پہلے انھوں نے تمام جائیداد اور مکانات فروخت کر کے خوب مزے اڑائے رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے بعد بھی ان مکانات اور جائیداد کی خرید فروخت قائم رکھی اور عقیل کی ملکیت تسلیم کرلی۔ جب عقیل کے تصرفات اسلام سے پہلے نافذ ہوئے تو اسلام کے بعد بطریق اولیٰ نافذ رہیں گے۔ 2۔اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے مقصود ان حضرات کا رد کرنا ہے جو کہتے ہیں کہ حربی اگر دارالحرب میں مسلمان ہو کر وہیں مقیم رہے اور مسلمان اس شہر کو فتح کر لیں تو وہ اپنے ہر قسم کے مال کا حق دار رہے گا۔ البتہ غیر منقولہ جائیداد مثلاً زمین اور مکانات وغیرہ مسلمانوں کے لیے مال فےبن جائیں گے جبکہ جمہور اس موقف کے خلاف ہیں۔ مذکورہ حدیث بھی جمہور کے موقف کی تائید کرتی ہے۔ واللہ أعلم۔
حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے حجۃالوداع میں عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !آپ کل کہاں قیام فرمائیں گے؟ آپ نے فرمایا:’’ کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی مکان چھوڑا ہے؟‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’ کل ہم لوگ بنو کنانہ کی وادی میں پڑاؤ کریں گے، جس کووادی محصب کہا جاتا ہے، جہاں قریش نے کفر پر اڑے رہنے کی قسمیں اٹھائی تھیں۔‘‘ اور یہ اس طرح کہ بنو کنانہ نے بنو ہاشم کے خلاف قریش سے قسم لی تھی کہ وہ بنو ہاشم سےخرید و فروخت نہیں کریں گے اور نہ انھیں رہنے کے لیے جگہ ہی دیں گے۔‘‘ امام زہری ؒ فرماتے ہیں کہ خیف کے معنی وادی کے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ ابو طالب جناب عبدالمطلب کے بڑے بیٹے تھےجاہلیت کی رسم کے مطابق عبدالمطلب کی وفات کے بعد ابو طالب ان کی تمام جائیداد کے مالک بن گئے ۔ ابو طالب کے دوبیٹے حضرت جعفر ؓ اور حضرت علی ؓ مسلمان ہونے کی وجہ سے ان کی جائیداد کے وارث نہ بن سکے۔ عقیل اور طالب کافر تھے ابو طالب کی وفات کے بعد وہ مسلمان بن گئے اسلام لانے سے پہلے انھوں نے تمام جائیداد اور مکانات فروخت کر کے خوب مزے اڑائے رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے بعد بھی ان مکانات اور جائیداد کی خرید فروخت قائم رکھی اور عقیل کی ملکیت تسلیم کرلی۔ جب عقیل کے تصرفات اسلام سے پہلے نافذ ہوئے تو اسلام کے بعد بطریق اولیٰ نافذ رہیں گے۔ 2۔اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے مقصود ان حضرات کا رد کرنا ہے جو کہتے ہیں کہ حربی اگر دارالحرب میں مسلمان ہو کر وہیں مقیم رہے اور مسلمان اس شہر کو فتح کر لیں تو وہ اپنے ہر قسم کے مال کا حق دار رہے گا۔ البتہ غیر منقولہ جائیداد مثلاً زمین اور مکانات وغیرہ مسلمانوں کے لیے مال فےبن جائیں گے جبکہ جمہور اس موقف کے خلاف ہیں۔ مذکورہ حدیث بھی جمہور کے موقف کی تائید کرتی ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی انہیں زہری نے ‘ انہیں علی بن حسین نے ‘ انہیں عمرو بن عثمان بن عفان ؓ نے اور ان سے اسامہ بن زید ؓ نے بیان کیا کہ میں نے حجۃ الوداع کے موقع پر عرض کیا ‘ یا رسول اللہ ! کل آپ ( مکہ میں ) کہا ں قیام فرمائیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ‘ اجی ! عقیل ؓ نے ہمارے لئے کوئی گھر چھوڑا ہی کب ہے ۔ پھر فرمایا کہ کل ہمارا قیام حنیف بن کنانہ کے مقام محصب میں ہو گا ‘ جہاں پر قریش نے کفر پر قسم کھائی تھی ۔ واقعہ یہ ہوا تھا کہ بنی کنانہ اور قریش نے ( یہیں پر ) بنی ہاشم کے خلاف اس بات کی قسمیں کھائی تھیں کہ ان سے خرید و فروخت کی جائے اور نہ انہیں اپنے گھروں میں آنے دیں ۔ زہری نے کہا کہ خیف وادی کو کہتے ہیں ۔
حدیث حاشیہ:
ہوا یہ تھا کہ ابو طالب عبدالمطلب کے بڑے بیٹے تھے۔ ان کی وفات کے بعد جاہلیت کی رسم کے موافق کل ملک املاک پر ابو طالب نے قبضہ کر لیا۔ جب ابو طالب کا انتقال ہوا تو ان کے انتقال کے کچھ دن بعد آنحضرتﷺ اور حضرت على ؓ تو مدینہ منورہ ہجرت کر آئے‘ عقیل اس وقت تک ایمان نہ لائے تھے‘ وہ مکہ میں رہے۔ انہوں نے تمام جائداد اور مکانات بیچ کر اس کا روپیہ خوب اڑایا۔ اس حدیث سے باب کا مطلب امام بخاری ؒنے اس طرح نکالا کہ آنحضرتﷺ نے مکہ فتح ہونے کے بعد بھی ان مکانوں اور جائداد کی بیع قائم رکھی اور عقیل کی ملکیت تسلیم کر لی‘ تو جب عقیل کے تصرفات اسلام سے پہلے نافذ ہوئے تو اسلام کے بعد بطریق اولیٰ نافذ رہیں گے۔ وقال القرطبي یحتمل أن یکون مراد البخاري أن النبي صلی اللہ علیه وسلم من علی أهل مکة بأموالهم ودورهم من قبل أن یسلموا (فتح) یعنی شاید امام بخاری ؒ کی مراد یہ ہو کہ رسول کریمﷺ نے مکہ والوں پر ان کے اسلام سے پہلے ہی یہ احسان فرما دیا تھا کہ ان کے مال اور گھر ہر حالت میں ان کی ہی ملکیت تسلیم کر لئے‘ اس طرح عقیل ؓ کے لئے اپنے گھر سب پہلے ہی بخش دئیے تھے۔ (ﷺ
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Usama bin Zaid (RA): I asked the Prophet (ﷺ) during his Hajj, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Where will you stay tomorrow?" He said, "Has Aqil left for us any house?" He then added, "Tomorrow we will stay at Khaif Bani Kinana, i.e. Al-Muhassab, where (the Pagans of) Quraish took an oath of Kufr (i.e. to be loyal to heathenism) in that Bani Kinana got allied with Quraish against Bani Hashim on the terms that they would not deal with the members of the is tribe or give them shelter." (Az-Zuhri said, "Khaif means valley.") (See Hadith No. 659, Vol. 2)