باب : اگر کچھ لوگ جو دارالحرب میں مقیم ہیں اسلام لے آئیں اور وہ مال وجائداد منقولہ وغیر منقولہ کے مالک ہیں تو وہ ان ہی کی ہو گی
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: If some people in a hostile non-Muslim country embrace Islam and they have possessions)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3059.
حضرت عمر ؓسے روایت ہے، انھوں نے "ہُنی" نامی اپنے آزاد کردہ غلام کو سر کاری چراگاہ پر حاکم بنایا اور فرمایا: اے ہُنی!مسلمانوں سے اپنے ہاتھ روکے رکھنا (ان پر ظلم نہ کرنا بلکہ ان پر مہربانی کرنا) اور مسلمانوں کی بددعا لینے سے اجتناب کرنا کیونکہ مظلوم کی بددعا قبول ہوتی ہے۔ اور اس چراگاہ میں تھوڑے اونٹ اور تھوڑی بکریاں رکھنے والوں کو داخلے کی اجازت دینا لیکن عبد الرحمٰن بن عوف اور حضرت عثمان بن عفان ؓ کے مویشیوں کو اندر آنے کی اجازت نہ دینا کیونکہ اگر ان (اغنیاء)مویشی ہلاک ہو گئے تو یہ لوگ اپنے نخلستان اور کھیتوں سے اپنی معاش حاصل کر سکتے ہیں لیکن اگر گنے چنے اونٹ اور گنی چنی بکریاں رکھنے والوں کے مویشی ہلاک ہو جائیں تو وہ اپنے بچوں کو لے کر میرے پاس آئیں گے اور فریا د کریں گے۔ اے امیر المومنین! اےامیر المومنین!تیرا باپ نہ رہے، کیا میں ان کو یونہی چھوڑسکتا ہوں؟ ان کو پانی اور گھاس دینا میرے لیے سونا چاندی دینے سے آسان ہے۔ اللہ کی قسم!یہ لوگ گمان کریں گے کہ میں نے ان پر ظلم کیا ہے کیونکہ یہ زمین انھی کی ہے۔ انھوں نے زمانہ جاہلیت میں ان کے لیے لڑائیاں لڑی ہیں اور اسلام لانے کے بعد ان کی ملکیت کو برقراررکھا گیا ہے۔ اس ذات کی قسم!جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر میرے ایسے جانور نہ ہوتے جن کو میں اللہ کی راہ میں سواری کے لیے دیتا ہوں تو میں ان کے علاقوں سے ایک بالشت زمین بھی چرا گاہ نہ بناتا۔
تشریح:
1۔حمی اس چراگاہ کو کہا جاتا ہے جسے حاکم صدقے کے جانوروں کے لیے مختص کردے،ایسی چراگاہ میں غریبوں کے جانوروں کا پہلے حق ہے کیونکہ اگر ان کے جانور بھوکے مر گئے تو بیت المال سے انھیں نقد وظیفہ دینا پڑے گا، اس کے برعکس اگر مال داروں کے جانور ہلاک ہو گئے تو وہ اپنے باغات اور زراعت کی طرف رجوع کرلیں گے۔ اور بیت المال سے نقد وظیفے کا مطالبہ نہیں کریں گے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی گاؤں کی شاملات جہاں لوگ مویشی وغیرہ چراتے ہیں وہ گاؤں والوں کا حق ہے حاکم وقت انھیں فروخت نہیں کر سکتا ۔ 2۔امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان حضرت عمر ؓ کے ارشاد سے ثابت کیا۔ ’’وہ زمین انھی کی تھی زمانہ جاہلیت میں انھوں نے اس کے لیے لڑائیاں لڑیں اور اسلام لانے کے بعد انھی کی ملکیت میں رہی۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ کافر کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد اسلام لانے کے بعد اسی کی رہتی ہے اگرچہ وہ دارالحرب ہی میں رہے جبکہ کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ صرف منقولہ جائیداد کے حق دار ہیں لیکن غیر منقولہ جائیداد حکومت کی ملکیت ہوگی مذکورہ حدیث کی بنا پر یہ موقف محل نظر ہے۔ واللہ أعلم۔
حضرت عمر ؓسے روایت ہے، انھوں نے "ہُنی" نامی اپنے آزاد کردہ غلام کو سر کاری چراگاہ پر حاکم بنایا اور فرمایا: اے ہُنی!مسلمانوں سے اپنے ہاتھ روکے رکھنا (ان پر ظلم نہ کرنا بلکہ ان پر مہربانی کرنا) اور مسلمانوں کی بددعا لینے سے اجتناب کرنا کیونکہ مظلوم کی بددعا قبول ہوتی ہے۔ اور اس چراگاہ میں تھوڑے اونٹ اور تھوڑی بکریاں رکھنے والوں کو داخلے کی اجازت دینا لیکن عبد الرحمٰن بن عوف اور حضرت عثمان بن عفان ؓ کے مویشیوں کو اندر آنے کی اجازت نہ دینا کیونکہ اگر ان (اغنیاء)مویشی ہلاک ہو گئے تو یہ لوگ اپنے نخلستان اور کھیتوں سے اپنی معاش حاصل کر سکتے ہیں لیکن اگر گنے چنے اونٹ اور گنی چنی بکریاں رکھنے والوں کے مویشی ہلاک ہو جائیں تو وہ اپنے بچوں کو لے کر میرے پاس آئیں گے اور فریا د کریں گے۔ اے امیر المومنین! اےامیر المومنین!تیرا باپ نہ رہے، کیا میں ان کو یونہی چھوڑسکتا ہوں؟ ان کو پانی اور گھاس دینا میرے لیے سونا چاندی دینے سے آسان ہے۔ اللہ کی قسم!یہ لوگ گمان کریں گے کہ میں نے ان پر ظلم کیا ہے کیونکہ یہ زمین انھی کی ہے۔ انھوں نے زمانہ جاہلیت میں ان کے لیے لڑائیاں لڑی ہیں اور اسلام لانے کے بعد ان کی ملکیت کو برقراررکھا گیا ہے۔ اس ذات کی قسم!جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر میرے ایسے جانور نہ ہوتے جن کو میں اللہ کی راہ میں سواری کے لیے دیتا ہوں تو میں ان کے علاقوں سے ایک بالشت زمین بھی چرا گاہ نہ بناتا۔
حدیث حاشیہ:
1۔حمی اس چراگاہ کو کہا جاتا ہے جسے حاکم صدقے کے جانوروں کے لیے مختص کردے،ایسی چراگاہ میں غریبوں کے جانوروں کا پہلے حق ہے کیونکہ اگر ان کے جانور بھوکے مر گئے تو بیت المال سے انھیں نقد وظیفہ دینا پڑے گا، اس کے برعکس اگر مال داروں کے جانور ہلاک ہو گئے تو وہ اپنے باغات اور زراعت کی طرف رجوع کرلیں گے۔ اور بیت المال سے نقد وظیفے کا مطالبہ نہیں کریں گے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی گاؤں کی شاملات جہاں لوگ مویشی وغیرہ چراتے ہیں وہ گاؤں والوں کا حق ہے حاکم وقت انھیں فروخت نہیں کر سکتا ۔ 2۔امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان حضرت عمر ؓ کے ارشاد سے ثابت کیا۔ ’’وہ زمین انھی کی تھی زمانہ جاہلیت میں انھوں نے اس کے لیے لڑائیاں لڑیں اور اسلام لانے کے بعد انھی کی ملکیت میں رہی۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ کافر کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد اسلام لانے کے بعد اسی کی رہتی ہے اگرچہ وہ دارالحرب ہی میں رہے جبکہ کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ صرف منقولہ جائیداد کے حق دار ہیں لیکن غیر منقولہ جائیداد حکومت کی ملکیت ہوگی مذکورہ حدیث کی بنا پر یہ موقف محل نظر ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا ‘ ان سے زید بن اسلم نے ‘ ان سے ان کے والد نے کہ عمر بن خطاب ؓ نے ہنی نامی اپنے ایک غلام کو ( سرکاری ) چراگاہ کا حاکم بنایا ‘ تو انہیں یہ ہدایت کی ‘ اے ہنی ! مسلمانوں سے اپنے ہاتھ روکے رکھنا ( ان پر ظلم نہ کرنا ) اور مظلوم کی بدعا سے ہر وقت بچتے رہنا ‘ کیونکہ مظلوم کی دعا قبول ہوتی ہے ۔ اور ہاں ابن عوف اورابن عفان اور ان جیسے ( امیر صحابہ ) کے مویشیوں کے بارے میں تجھے ڈرتے رہنا چاہئے ۔ ( یعنی ان کے امیر ہونے کی وجہ سے دوسرے غریبوں کے مویشیوں پر چراگاہ میں انہیں مقدم نہ رکھنا ) کیونکہ اگر ان کے مویشی ہلاک بھی ہو جائیں گے تو یہ رؤسا اپنے کھجور کے باغات اور کھیتوں سے اپنی معاش حاصل کر سکتے ہیں ۔ لیکن گنے چنے اونٹوں اورگنی چنی بکریوں کا مالک ( غریب ) کہ اگر اس کے مویشی ہلاک ہو گئے ‘ تو وہ اپنے بچوں کو لے کر میرے پاس آئے گا ‘ اور فریاد کرے گا یا امیر المؤمنین ! یا امیرالمؤمنین ! ( ان کو پالنا تیرا باپ نہ ہو ) تو کیا میں انہیں چھو ڑ دوں گا ؟ اس لئے ( پہلے ہی سے ) ان کیلئے چارے اورپانی کا انتظام کر دینا میرے لئے اس سے زیادہ آسان ہے کہ میں ان کیلئے سونے چاندی کا انتظام کروں اور خدا کی قسم ! وہ ( اہل مدینہ ) یہ سمجھتے ہوں گے کہ میں نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہے کیونکہ یہ زمینیں انہیں کی ہیں ۔ انہوں نے جاہلیت کے زمانہ میں اس کے لئے لڑائیاں لڑیں ہیں اور اسلام لانے کے بعد بھی ان کی ملکیت کو بحال رکھا گیا ہے ۔ اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر وہ اموال ( گھوڑے وغیرہ ) نہ ہوتے جن پر جہاد میں لوگوں کو سوار کرتا ہوں تو ان کے علاقوں میں ایک بالشت زمین کو بھی میں چراگاہ نہ بناتا ۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ اور حضرت عثمان غنی ؓ ہر دو مالدار تھے‘ حضرت عمر ؓ کا مطلب یہ تھا کہ ان کے تمول سے مرعوب ہو کر ان کے جانوروں کو مقدم نہ کیا جائے بلکہ غریبوں کے جانوروں کا حق پہلے ہے۔ اگر غریبوں کے جانور بھوکے مر گئے تو بیت المال سے ان کو نقد وظیفہ دینا پڑے گا۔ آخر حدیث میں حضرت عمر ؓ کا جو قول مروی ہے اسی سے ترجمہ باب نکلتا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے زمین کی نسبت فرمایا کہ اسلام کی حالت میں بھی ان ہی کی رہی‘ تو معلوم ہوا کہ کافر کی جائیداد غیر منقولہ بھی اسلام لانے کے بعد اسی کی ملک میں رہتی ہے گو وہ کافر دارالحرب میں رہے۔ (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aslam (RA): Umar bin Al-Khattab (RA) appointed a freed slave of his, called Hunai, manager of the Hima (i.e. a pasture devoted for grazing the animals of the Zakat or other specified animals). He said to him, "O Hunai! Don't oppress the Muslims and ward off their curse (invocations against you) for the invocation of the oppressed is responded to (by Allah); and allow the shepherd having a few camels and those having a few sheep (to graze their animals), and take care not to allow the livestock of 'Abdur-Rahman bin 'Auf and the livestock of ('Uthman) bin 'Affan, for if their livestock should perish, then they have their farms and gardens, while those who own a few camels and those who own a few sheep, if their livestock should perish, would bring their dependents to me and appeal for help saying, 'O chief of the believers! O chief of the believers!' Would I then neglect them? (No, of course). So, I find it easier to let them have water and grass rather than to give them gold and silver (from the Muslims' treasury). By Allah, these people think that I have been unjust to them. This is their land, and during the pre-lslamic period, they fought for it and they embraced Islam (willingly) while it was in their possession. By Him in Whose Hand my life is! Were it not for the animals (in my custody) which I give to be ridden for striving in Allah's Cause, I would not have turned even a span of their land into a Hima."