باب : مال غنیمت کے اونٹ بکریوں کو تقسیم سے پہلے ذبح کرنا مکروہ ہے
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: Not to slaughter the camels and sheep of the booty (before distribution))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3075.
حضرت رافع بن خدیج ؓسے روایت ہےانھوں نے کہا کہ مقام ذوالحلیفہ میں ہم نے نبی کریم ﷺ کے ہمراہ پڑاؤ کیا۔ لوگوں کو سخت بھوک لگی۔ ادھرغنیمت میں ہمیں اونٹ اور بکریاں ملی تھیں۔ نبی کریم ﷺ لشکر کے پچھلے حصےمیں تھے۔ لوگوں نے جلدی جلدی ذبح کرکے گوشت کی ہنڈیاں چڑھا دیں۔ آپ ﷺ کے حکم پر ان ہنڈیوں کو الٹ دیا گیا۔ پھر آپ نے مال غنیمت تقسیم کیا اور دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر رکھا۔ اتفاق سے مال غنیمت کا ایک اونٹ بھاگ نکلا۔ لشکر میں گھوڑوں کی کمی تھی۔ لوگ اسے پکڑنے کے لیے دوڑے لیکن اونٹ نے سب کو تھکا دیا۔ آخر ایک صحابی نے اسے تیر مارا تو اللہ کے حکم سے اونٹ جہاں تھا وہی رہ گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ان پالتو جانوروں میں بعض دفعہ جنگلی جانوروں کو طرح وحشت آجاتی ہے، اس لیے اگران میں سے کوئی قابو نہ آئے تو اس کے ساتھ یہی سلوک کرو۔‘‘ راوی حدیث نے کہا کہ میرے دادا نے عرض کیا: ہمیں امید یا اندیشہ ہے کہ کل کہیں ہماری دشمن سے مڈ بھیڑ نہ ہوجائے۔ ہمارے پاس کوئی چھری نہیں ہے تو کیا ہم سرکنڈے سے ذبح کرسکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’جو چیز خون بہادے اور ذبح کرتے وقت اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہوتو (اس کا گوشت) کھالو۔ لیکن ذبح کرنے والی چیز دانت یا ناخن نہیں ہونے چاہییں۔ میں تمہارے سامنے اس کی وجہ بھی بیان کرتا ہوں کہ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن اہل حبشہ کی چھری ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ حضرت رافع بن خدیج ؓ کا مطلب یہ تھا کہ کل پرسوں تک دشمن سے جنگ چھڑنے کا اندیشہ ہے، اگر ہم تلواروں سے جانور ذبح کرنا شروع کردیں تو وہ کند ہوجائیں گی اور دشمن کے خلاف استعمال نہیں ہو سکیں گی اور چھریاں ہمارے پاس ہیں نہیں،اس لیے سر کنڈے سے ذبح کی اجازت دی جائے۔ چونکہ ذبح سے مقصد نجس خون بہانا ہے اور وہ سرکنڈے سے بھی ہوسکتا ہے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو شے بھی خون بہادے اس سے ذبح کرسکتے ہو،البتہ دانت ہڈی ہےاورہڈی جنوں کی خوراک ہے جو ذبح کرنے سے نجس ہوجائےگی اور ناخن سے حبشی لوگ ذبح کرتے ہیں اور حبشی لوگ اس وقت کافر تھے تو آپ نے ان کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا۔ 2۔حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے ہنڈیاں الٹا دینے کا حکم دیا کہ کیونکہ جن جانوروں کا گوشت پکایا جا رہا تھا انھیں رسول اللہ ﷺ کی اجازت کے بغیر تقسیم سے پہلے ہی ذبح کردیا گیاتھا،اس لیے آپ نے بطور یہ سزا حکم دیا۔ 3۔اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے مال ضائع کردیا جبکہ دوسری احادیث میں آپ نے مال ضائع کرنے سے روکا ہے؟ ان میں تطبیق کی ایک صورت یہ ہے کہ عمومی حالات میں یہی حکم ہے کہ مال ضائع نہ کیا جائے تاہم کسی مصلحت یا تادیبی کاروائی کے طور پر ایسا کرنا جائز ہے جیساکہ رسول اللہ ﷺ نے کیا ۔اس کی تائید سنن نسائی میں مذکور حضرت حذیفہ ؓ کے واقعے سے بھی ہوتی ہے کہ ایک دفعہ کسی گاؤں کا نمبردار چاندی کے برتن میں ان کےلیے پانی لایا تو انھوں نے وہ برتن پانی سمیت اسے دے مارا۔ (سنن نسائي، الزینة، حدیث:5303)
حضرت رافع بن خدیج ؓسے روایت ہےانھوں نے کہا کہ مقام ذوالحلیفہ میں ہم نے نبی کریم ﷺ کے ہمراہ پڑاؤ کیا۔ لوگوں کو سخت بھوک لگی۔ ادھرغنیمت میں ہمیں اونٹ اور بکریاں ملی تھیں۔ نبی کریم ﷺ لشکر کے پچھلے حصےمیں تھے۔ لوگوں نے جلدی جلدی ذبح کرکے گوشت کی ہنڈیاں چڑھا دیں۔ آپ ﷺ کے حکم پر ان ہنڈیوں کو الٹ دیا گیا۔ پھر آپ نے مال غنیمت تقسیم کیا اور دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر رکھا۔ اتفاق سے مال غنیمت کا ایک اونٹ بھاگ نکلا۔ لشکر میں گھوڑوں کی کمی تھی۔ لوگ اسے پکڑنے کے لیے دوڑے لیکن اونٹ نے سب کو تھکا دیا۔ آخر ایک صحابی نے اسے تیر مارا تو اللہ کے حکم سے اونٹ جہاں تھا وہی رہ گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ان پالتو جانوروں میں بعض دفعہ جنگلی جانوروں کو طرح وحشت آجاتی ہے، اس لیے اگران میں سے کوئی قابو نہ آئے تو اس کے ساتھ یہی سلوک کرو۔‘‘ راوی حدیث نے کہا کہ میرے دادا نے عرض کیا: ہمیں امید یا اندیشہ ہے کہ کل کہیں ہماری دشمن سے مڈ بھیڑ نہ ہوجائے۔ ہمارے پاس کوئی چھری نہیں ہے تو کیا ہم سرکنڈے سے ذبح کرسکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’جو چیز خون بہادے اور ذبح کرتے وقت اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہوتو (اس کا گوشت) کھالو۔ لیکن ذبح کرنے والی چیز دانت یا ناخن نہیں ہونے چاہییں۔ میں تمہارے سامنے اس کی وجہ بھی بیان کرتا ہوں کہ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن اہل حبشہ کی چھری ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت رافع بن خدیج ؓ کا مطلب یہ تھا کہ کل پرسوں تک دشمن سے جنگ چھڑنے کا اندیشہ ہے، اگر ہم تلواروں سے جانور ذبح کرنا شروع کردیں تو وہ کند ہوجائیں گی اور دشمن کے خلاف استعمال نہیں ہو سکیں گی اور چھریاں ہمارے پاس ہیں نہیں،اس لیے سر کنڈے سے ذبح کی اجازت دی جائے۔ چونکہ ذبح سے مقصد نجس خون بہانا ہے اور وہ سرکنڈے سے بھی ہوسکتا ہے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو شے بھی خون بہادے اس سے ذبح کرسکتے ہو،البتہ دانت ہڈی ہےاورہڈی جنوں کی خوراک ہے جو ذبح کرنے سے نجس ہوجائےگی اور ناخن سے حبشی لوگ ذبح کرتے ہیں اور حبشی لوگ اس وقت کافر تھے تو آپ نے ان کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا۔ 2۔حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے ہنڈیاں الٹا دینے کا حکم دیا کہ کیونکہ جن جانوروں کا گوشت پکایا جا رہا تھا انھیں رسول اللہ ﷺ کی اجازت کے بغیر تقسیم سے پہلے ہی ذبح کردیا گیاتھا،اس لیے آپ نے بطور یہ سزا حکم دیا۔ 3۔اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے مال ضائع کردیا جبکہ دوسری احادیث میں آپ نے مال ضائع کرنے سے روکا ہے؟ ان میں تطبیق کی ایک صورت یہ ہے کہ عمومی حالات میں یہی حکم ہے کہ مال ضائع نہ کیا جائے تاہم کسی مصلحت یا تادیبی کاروائی کے طور پر ایسا کرنا جائز ہے جیساکہ رسول اللہ ﷺ نے کیا ۔اس کی تائید سنن نسائی میں مذکور حضرت حذیفہ ؓ کے واقعے سے بھی ہوتی ہے کہ ایک دفعہ کسی گاؤں کا نمبردار چاندی کے برتن میں ان کےلیے پانی لایا تو انھوں نے وہ برتن پانی سمیت اسے دے مارا۔ (سنن نسائي، الزینة، حدیث:5303)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابو عوانہ وضاح شکری نے بیان کیا ‘ ان سے سعید بن مسروق نے ‘ ان سے عبایہ بن رفاعہ نے اور ان سے ان کے دادا رافع بن خدیج ؓ نے بیان کیا کہ مقام ذوالحلیفہ میں ہم نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ پڑاؤ کیا ۔ لوگ بھوکے تھے ۔ ادھر غنیمت میں ہمیں اونٹ اور بکریاں ملی تھیں ۔ آنحضرت ﷺ لشکر کے پیچھے حصے میں تھے ۔ لوگوں نے ( بھوک کے مارے ) جلدی کی ہانڈیاں چڑھادیں ۔ بعد میں نبی کریم ﷺ کے حکم سے ان ہانڈیوں کو اوندھا دیا گیا پھر آپ نے غنیمت کی تقسیم شروع کی دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر رکھا اتفاق سے مال غنیمت کا ایک اونٹ بھاگ نکلا ۔ لشکر میں گھوڑوں کی کمی تھی ۔ لوگ اسے پکڑنے کے لئے دوڑے لیکن اونٹ نے سب کو تھکادیا ۔ آخر ایک صحابی ( خود رافع ؓ ) نے اسے تیر مارا ۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اونٹ جہاں تھا وہیں رہ گیا ۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ان ( پالتو ) جانوروں میں بھی جنگلی جانوروں کی طرح بعض دفعہ وحشت ہو جاتی ہے ۔ اس لئے اگر ان میں سے کوئی قابو میں نہ آئے تو اس کے ساتھ ایسا ہی کرو ۔ عبایہ کہتے ہیں کہ میرے دادا ( رافع ؓ ) نے خدمت نبوی میں عرض کیا ‘ کہ ہمیں امید ہے یا ( یہ کہا کہ ) خوف ہے کہ کل کہیں ہماری دشمن سے مڈبھیڑ نہ ہو جائے ۔ ادھر ہمارے پاس چھری نہیں ہے ۔ توکیا ہم بانس کی کھپچیوں سے ذبح کر سکتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو چیز خون بہادے اور ذبح کرتے وقت اس پر اللہ تعالیٰ کا نام بھی لیا گیا ہو ‘ تو اس کا گوشت کھانا حلال ہے ۔ البتہ وہ چیز ( جس سے ذبح کیا گیا ہو ) دانت اور ناخن نہ ہونا چاہئے ۔ تمہارے سامنے میں اس کی وجہ بھی بیان کرتا ہوں دانت تو اس لئے نہیں کہ وہ ہڈی ہے اور ناخن اس لئے نہیں کہ وہ حبشیوں کی چھری ہیں ۔ باب فتح کی خوش خبری دینا
حدیث حاشیہ:
رافع ؓ کے کلام کا مطلب یہ ہے کہ تلوار سے ہم جانوروں کو اس لئے نہیں کاٹ سکتے کہ کل پرسوں جنگ کا اندیشہ ہے۔ ایسا نہ ہو تلواریں کند ہو جائیں۔ تو کیا ہم بانس کی کھپچیوں سے کاٹ لیں کہ ان میں بھی دھار ہوتی ہے۔ ہڈی جنوں کی خوراک ہوتی ہے ذبح کرنے سے نجس ہو جائے گی۔ ناخن حبشیوں کی چھریاں ہیں حبشی اس وقت کافر تھے تو آپ نے ان کی مشابہت سے منع فرمایا۔ باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں:وموضع الترجمة منه أمرہ صلی اللہ علیه وسلم بإکفاء القدور فإنه مشعر بکراهة ما صنعوا من الذبح بغیر إذن (ف) یعنی باب کا مطلب اس سے ظاہر ہے کہ رسول کریمﷺ نے ہانڈیوں کو الٹا کر دیا۔ اس لئے کہ بغیر اجازت ان کا ذبیحہ مکروہ تھا۔ شوربا بہا دیا گیا۔ وأما اللحم فلم یتلف بل یحمل علٰی أنه جمع ورد إلی المغانم۔ یعنی گوشت کو تلف کرنے کی بجائے جمع کر کے مال غنیمت میں شامل کر دیا گیا۔واللہ أعلم بالصواب
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abaya bin Rifaa (RA): My grandfather, Rafi said, "We were in the company of the Prophet (ﷺ) at DhulHulaifa, and the people suffered from hunger. We got some camels and sheep (as booty) and the Prophet (ﷺ) was still behind the people. They hurried and put the cooking pots on the fire. (When he came) he ordered that the cooking pots should be upset and then he distributed the booty (amongst the people) regarding ten sheep as equal to one camel then a camel fled and the people chased it till they got tired, as they had a few horses (for chasing it). So a man threw an arrow at it and caused it to stop (with Allah's Permission). On that the Prophet (ﷺ) said, 'Some of these animals behave like wild beasts, so, if any animal flee from you, deal with it in the same way." My grandfather asked (the Prophet (ﷺ) ), "We hope (or are afraid) that we may meet the enemy tomorrow and we have no knives. Can we slaughter our animals with canes?" Allah's Apostle (ﷺ) replied, "If the instrument used for killing causes the animal to bleed profusely and if Allah's Name is mentioned on killing it, then eat its meat (i.e. it is lawful) but won't use a tooth or a nail and I am telling you the reason: A tooth is a bone (and slaughtering with a bone is forbidden ), and a nail is the slaughtering instrument of the Ethiopians."