Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: What to say on returning from Jihad)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3086.
حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے کہ وہ اور حضرت ابو طلحہ ؓ نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ایک سفر سے واپس آئے۔ اور نبی کریم ﷺ کے ساتھ حضرت صفیہ ؓ سوار تھیں، جنھیں آپ نے اپنے پیچھے اونٹنی پر بٹھایا ہوا تھا۔ راستے میں اونٹنی کا پاؤں پھسلا تو نبی کریم ﷺ اور حضرت صفیہ ؓ دونوں گر پڑے۔ حضرت انس ؓ کا کہنا ہے کہ میرے خیال کے مطابق وہ (حضرت ابو طلحہ ؓ) اپنے اونٹ ہی سے کود پڑے اور (آپ ﷺ کے پاس آکر) عرض کیا: اللہ کے نبی کریم ﷺ! اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے، کیا آپ کو چوٹ تو نہیں آئی؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں، تم اس عورت (صفیہ) کا پتہ کرو۔‘‘ چنانچہ حضرت ابو طلحہ ؓاپنے چہرے پر کپڑا ڈال کر حضرت صفیہ ؓ کی طرف چل دیے۔ پھر انھوں نے وہ کپڑا ان پر ڈال دیا۔ حضرت صفیہ ؓ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ انھوں نے سواری درست کی تو دونوں اس پر سوار ہوگئے۔ وہ راستے میں چلتے رہے حتیٰ کہ وہ مدینہ کی سرزمین کے قریب پہنچے یا دور سے مدینہ طیبہ کو دیکھا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ہم سفر سے لوٹنے والے ہیں، توبہ کرنے والے، اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور اس کی حمدوثنا کرنے والے ہیں۔‘‘ آپ مسلسل یہ کلمات کہتے رہے حتیٰ کہ مدینہ طیبہ میں داخل ہوگئے۔
تشریح:
1۔حضرت ابوطلحہ ؓنے اپنے منہ پر کپڑا اس لیے ڈالا کہ حضرت صفیہ ؓ پر نظر نہ پڑے۔ سبحان اللہ! صحابہ کرام ؓ میں کس قدر شرم وحیاتھی۔ لیکن ہمارے ہاں اس قدر بے حیائی کادور دورہ ہے کہ بازار میں عورتوں مردوں کو گھور، گھورکردیکھتی ہیں اور انھیں دعوت نظارہ دیتی ہیں۔ العیاذ باللہ۔ 2۔اس حدیث کے پیش نظر اب بھی سنت یہی ہے کہ کسی سفر سے بخیریت واپسی پر اس دعا کو پڑھا جائے، وہ سفر حج کا ہو یاعمرے کایا کسی عزیز واقارب سے ملاقات کا۔ الغرض ہر قسم کے سفر سے واپسی پر مذکورہ دعا پڑھنا سنت ہے۔
حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے کہ وہ اور حضرت ابو طلحہ ؓ نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ایک سفر سے واپس آئے۔ اور نبی کریم ﷺ کے ساتھ حضرت صفیہ ؓ سوار تھیں، جنھیں آپ نے اپنے پیچھے اونٹنی پر بٹھایا ہوا تھا۔ راستے میں اونٹنی کا پاؤں پھسلا تو نبی کریم ﷺ اور حضرت صفیہ ؓ دونوں گر پڑے۔ حضرت انس ؓ کا کہنا ہے کہ میرے خیال کے مطابق وہ (حضرت ابو طلحہ ؓ) اپنے اونٹ ہی سے کود پڑے اور (آپ ﷺ کے پاس آکر) عرض کیا: اللہ کے نبی کریم ﷺ! اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے، کیا آپ کو چوٹ تو نہیں آئی؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں، تم اس عورت (صفیہ) کا پتہ کرو۔‘‘ چنانچہ حضرت ابو طلحہ ؓاپنے چہرے پر کپڑا ڈال کر حضرت صفیہ ؓ کی طرف چل دیے۔ پھر انھوں نے وہ کپڑا ان پر ڈال دیا۔ حضرت صفیہ ؓ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ انھوں نے سواری درست کی تو دونوں اس پر سوار ہوگئے۔ وہ راستے میں چلتے رہے حتیٰ کہ وہ مدینہ کی سرزمین کے قریب پہنچے یا دور سے مدینہ طیبہ کو دیکھا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ہم سفر سے لوٹنے والے ہیں، توبہ کرنے والے، اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور اس کی حمدوثنا کرنے والے ہیں۔‘‘ آپ مسلسل یہ کلمات کہتے رہے حتیٰ کہ مدینہ طیبہ میں داخل ہوگئے۔
حدیث حاشیہ:
1۔حضرت ابوطلحہ ؓنے اپنے منہ پر کپڑا اس لیے ڈالا کہ حضرت صفیہ ؓ پر نظر نہ پڑے۔ سبحان اللہ! صحابہ کرام ؓ میں کس قدر شرم وحیاتھی۔ لیکن ہمارے ہاں اس قدر بے حیائی کادور دورہ ہے کہ بازار میں عورتوں مردوں کو گھور، گھورکردیکھتی ہیں اور انھیں دعوت نظارہ دیتی ہیں۔ العیاذ باللہ۔ 2۔اس حدیث کے پیش نظر اب بھی سنت یہی ہے کہ کسی سفر سے بخیریت واپسی پر اس دعا کو پڑھا جائے، وہ سفر حج کا ہو یاعمرے کایا کسی عزیز واقارب سے ملاقات کا۔ الغرض ہر قسم کے سفر سے واپسی پر مذکورہ دعا پڑھنا سنت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا‘ کہا ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا‘ کہا ہم سے یحییٰ بن ابی اسحاق نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ وہ اور ابو طلحہ ؓ نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے، ام المؤمنین حضرت صفیہ ؓ کو آنحضرت ﷺ نے اپنی سواری پر پیچھے بٹھا رکھا تھا۔ راستے میں اتفاق سےآپ کی اونٹنی پھسل گئی اورآنحضرت ﷺ گر گئے اور ام المؤمنین بھی گر گئیں۔ ابو طلحہ ؓ نے یوں کہا کہ میں سمجھتا ہوں‘ انہوں نے اپنے آپ کو اونٹ سے گرا دیا اور آنحضرت ﷺ کے قریب پہنچ کر عرض کیا‘ اے اللہ کے رسول! اللہ مجھے آپ پر قربان کرے کوئی چوٹ تو حضور کو نہیں آئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں لیکن تم عورت کی خبر لو۔ چنانچہ انہوں نے ایک کپڑا اپنے چہرے پر ڈال لیا‘ پھر ام المؤمنین کی طرف پڑھے اوروہی کپڑا ان پر ڈال دیا۔ اب ام المؤمنین کھڑی ہو گئیں۔ پھر ابو طلحہ ؓ نے آپ دونوں کے لئے اونٹنی کو مضبوط کیا۔ تو آپ سوار ہوئے اور سفر شروع کیا۔ جب مدینہ منورہ کے سامنے پہنچ گئے یا راوی نے یہ کہا کہ جب مدینہ دکھائی دینے لگا تو نبی کریم ﷺ نے یہ دعا پڑھی۔ ’’ہم اللہ کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ توبہ کرنے والے‘ اپنے رب کی عبادت کرنے والے اوراس کی تعریف کرنے والے ہیں! آپ ﷺ یہ دعا برابر پڑھتے رہے‘ یہاں تک کی مدینہ میں داخل ہو گئے۔
حدیث حاشیہ:
یہ بھی جنگ خیبر ہی سے متعلق ہے۔ ہر دو احادیث میں الفاظ مختلفہ کے ساتھ ایک ہی واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ یہ بھی ہر دو میں متفق ہے کہ آنحضرتﷺ کے ساتھ حضرت صفیہ تھیں‘ غزوہ بنو لحیان سے اس واقعہ کا جوڑ نہیں ہے‘ جو ۶ھ میں ہوا اور حضرت صفیہ ؓ کا اسلام اور حرم میں داخلہ ۷ھ سے متعلق ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): That he and Abu Talha came in the company of the Prophet (ﷺ) and Safiya was accompanying the Prophet, who let her ride behind him on his she-camel. During the journey, the she-camel slipped and both the Prophet (ﷺ) and (his) wife fell down. Abu Talha (the sub-narrator thinks that Anas said that Abu Talha jumped from his camel quickly) said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! May Allah sacrifice me for your sake! Did you get hurt?" The Prophet (ﷺ) replied,"No, but take care of the lady." Abu Talha covered his face with his garment and proceeded towards her and covered her with his garment, and she got up. He then set right the condition of their she-camel and both of them (i.e. the Prophet (ﷺ) and his wife) rode and proceeded till they approached Medina. The Prophet (ﷺ) said, "We are returning with repentance and worshipping and praising our Lord." The Prophet (ﷺ) kept on saying this statement till he entered Medina.