باب : تالیف قلوب کے لیے آنحضرت ﷺ کا بعضے کافروں وغیرہ نو مسلموں یا پرانے مسلمانوں کو خمس میں سے دینا
)
Sahi-Bukhari:
One-fifth of Booty to the Cause of Allah (Khumus)
(Chapter: What the Prophet saws used to give to those Muslims whose faith was not so firm)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس کو عبداللہ بن زید ؓ نے آنحضرت ﷺ سے روایت کیا ہے ۔
3144.
حضرت عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک دن اعتکاف کرنے کی نذرمانی تھی تو آپ نے انھیں منت پوراکرنے کاحکم دیا۔ راوی بیان کرتا ہے کہ حضرت عمر ؓ کو حنین کی قیدی عورتوں میں سے وہ لونڈیاں ملی تھیں جن کو انھوں نے مکہ مکرمہ کے ایک مکان میں رکھاتھا۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ نے حنین کے قیدیوں پر احسان کیا (اورانھیں آزاد کردیا) تو وہ گلی کوچوں میں دوڑنے لگے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اے عبداللہ ؓ!دیکھو کیابات ہے؟ انھوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے قیدیوں پر احسان کرتے ہوئے آزادکردیا ہے حضرت عمر نے فرمایا: جاؤ، تم بھی ان دونوں لونڈیوں کو آزاد کردو۔ حضرت نافع ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مقام جعرانہ سے عمرہ نہیں کیا تھا۔ اگرآپ نے وہاں سے عمرہ کیا ہوتا تو حضرت عبداللہ بن عمر ؓ پر مخفی نہ رہتا۔ (راوی حدیث) جریرکی روایت میں ہے کہ وہ دونوں لونڈیاں مال خمس سے ملی تھیں۔ معمر نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے نذر اعتکاف کا جو قصہ بیان کیا ہے اس میں ’’ایک دن‘‘ کا لفظ ذکر نہیں کیا۔
تشریح:
1۔ اس روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مال خمس سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دو لونڈیاں دی تھیں۔ امام بخاری ؒ نے خمس کے متعلق امام وقت کے صوابدیدی اختیارات ثابت کرنے کے لیے اس حدیث کو پیش کیا ہے اس روایت میں مقام جعرانہ سے عمرے کے لیے احرام نہ باندھنے کا ذکر ہے حالانکہ دیگر بہت سی روایات میں ہے کہ رسول اللہﷺ جب حنین اور طائف سے فارغ ہوئے تو آپ نے جعرانہ سے عمرے کا احرام باندھا؟ ممکن ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ اسے بھول گئے ہوں یا انھیں یاد ہو لیکن انھوں نے اس امر کو نافع سے بیان نہ کیا ہو۔ بہر حال رسول اللہ ﷺنے جعرانہ سے عمرے کا احرام باندھا ہے۔ 2۔حنین کے قیدیوں کو بلا معاوضہ آزاد کردینا رسول اللہ ﷺکا وہ عظیم کارنامہ ہے جس پر امت مسلمہ جس قدر بھی فخر کرے۔ کم ہے۔ اس سے بڑھ کر انسانیت پروری اور کیا ہو سکتی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3027
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3144
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3144
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3144
تمہید کتاب
غزوہ بدر کے اختتام پر اس قسم کی صورتحال پیداہو گئی کہ جس فریق نے غنیمت کا مال لوٹا وہ اپنے آپ ہی کو اس کا حقدار سمجھنے لگا۔ کچھ لوگ کفار کا تعاقب کرنے والے تھے انھوں نے دعوی کیا کہ ہم بھی مال غنیمت میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ اگر ہم کفار کا تعاقب نہ کرتے تو کفار واپس آکر حملہ کر سکتے تھے جس سے فتح کا شکست میں بدل جانا ممکن تھا کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت پر مامور تھے۔ انھوں نے کہا: ہم بھی اس مال میں برابر کے حصے دار ہیں۔کیونکہ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت نہ کرتے تو آپ کوکوئی حادثہ پیش آسکتا تھا جو جنگ کا پانسہ پلٹنے میں بنیادی کردار ادا کرتا۔ لیکن جن لوگوں نے مال غنیمت پر قبضہ کیا وہ ایسی باتیں قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے لہٰذا مجاہدین میں کشیدگی کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے بھی وحی الٰہی کی آمد تک خاموشی اختیار کیےرکھی۔ بالآخراللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا :کہ دوران جنگ میں ملنے والے تمام اموال اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں ان کے متعلق جو فیصلہ ہوگا۔ وہ سب کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ پھر اس کی تفصیل نازل ہوئی، کہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے قرابت داروں،مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔(الانفال:8/41)دراصل میدان جنگ میں حاصل ہونے والے مال کی چند قسمیں حسب ذیل ہیں۔1۔مال غنیمت:۔مجاہدین کے قتال کے بعد کفار کی شکست کی صورت میں وہاں سے جو مال حاصل ہو اسے مال غنیمت کہا جاتا ہے۔ یہ پہلی امتوں پر حرام تھا بلکہ آسمان سے آگ آکر اسے جلا دیتی تھی مگر اس امت پر اسے حلال کردیا گیا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے مال کے پانچ حصے ہوں گے، جن میں سے چار مجاہدین میں تقسیم ہوں گے اور ایک حصہ اللہ اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرابت داروں ، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے جو بیت المال میں جائے گا۔2۔مال فے:۔اس میں ہر وہ مال شامل ہے جو مسلمانوں کو لڑے ے بغیر مل جائے۔اس کے متعلق قرآنی فیصلہ یہ ہے کہ وہ سارے کا سارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔(اور آپ کے بعد شرعی حاکم کے لیے ہے)اور وہ اپنی صوابدید کے مطابق اسے خرچ کرنے کے مجاز ہیں۔3۔مال سلب:۔ اس سے مراد وہ مال ہے جو ایک مجاہد مقتول دشمن کے جسم سے اتارتا ہے۔ اس کے متعلق شرعی فیصلہ ہے کہ وہ قاتل مجاہد کو دیا جائے لیکن حاکم وقت صوابدیدی اختیاربد ستور باقی رہتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر میں ابوجہل کے سازوسامان کے متعلق موقف اختیار کیا تھا۔4۔ایسی اشیاء جن کا تعلق غذا سے ہو یا ایسی چیز یں جو عموماً غذا کا فائدہ دیتی ہوں۔اسی طرح جانوروں کی گھاس وغیرہ ایسی تمام اشیاء کو تقسیم سے پہلے ہی استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے ۔ اس میں حاکم وقت سے اجازت لینا ضروری نہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت ایسی احادیث جمع کی ہیں جن کا تعلق مال غنیمت کے خمس سے ہے۔مال غنیمت کے متعلق اس امر پر اتفاق ہے کہ اس کے چار حصے مجاہدین کے لیے ہیں۔ اس سےدو حصے گھوڑے کے لیے اور ایک حصہ مجاہد کے لیے مختص ہوتا ہے۔ اگر کسی کے پاس گھوڑا نہ ہو تو وہ صرف ایک حصے کا حق دار ہے۔ واضح رہے کہ چار حصے ان مجاہدین میں تقسیم کیے جاتے جو جنگ میں شریک ہوتے۔ باقی پانچواں حصہ یعنی خمس کے لیے قرآن کریم نے چھ مصرف بیان کیے ہیں ان میں اللہ کا ذکر تو بطور تبرک ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حصہ ہے وہ آپ کی گھریلو ضروریات کے لیے مقرر ہوا ۔آپ کی خانگی ضروریات سے جو بچتا اسے جہاد کی ضروریات میں صرف کردیا جاتا۔آپ کی وفات کے بعد یہ مصرف ختم ہوگیا۔ اس خمس کا ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں ، یعنی بنو ہاشم کے لیے تھا۔ آپ کی وفات کے بعد ان کا حصہ بھی ختم ہو گیا۔ اب تین مصرف باقی ہیں۔یعنی یتیموں مسکینوں اور مسافروں کی ضروریات کو پورا کرنا۔ حاکم وقت کو ان کے متعلق بھی اختیار کہ جسے چاہے دے سکتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو اختیار کرکے امام مالک کی تائید کی ہے اور اس کے لیے چار حسب ذیل عنوان قائم کیے ہیں۔1۔پانچواں حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مساکین کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ہے۔2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مالک نہیں بلکہ آپ کو صرف تقسیم کرنے کا اختیار تھا۔3۔خمس مسلمانوں کی ضروریات کے لیے ہے۔4۔خمس حاکم وقت کے لیے ہے۔ان سب عنوانات کا ایک ہی مقصد ہے کہ حاکم وقت اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کرنے کا مجاز ہے اس خمس کا مالک نہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خمس کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیےپینسٹھ(65)متصل احادیث بیان کی ہیں۔اور ان پر بیس(20) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل آئندہ بیان ہو گی۔ایک اہم مسئلہ جس کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ دور نبوی میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین رضا کارانہ طور پر اسے فریضہ سمجھ کر جہاد پر جاتے اور جنگ میں شریک ہو تے تھے اس سلسلے میں سواری اور ہتھیاروں کا اہتمام بھی خود کرتے تھے بلکہ بعض اوقات ذاتی خدمت کے لیے اپنے خرچے پر مزدورساتھ لے جاتے۔ ان خدمات کے عوض ان مجاہدین کو مال غنیمت سے حصہ ملتا تھا مگر دور حاضر میں فوج کا محکمہ ہی الگ ہے۔ اس محکمے میں شامل فوجی باقاعدہ تنخواہ دار ہوتے ہیں۔ ایام جنگ کے علاوہ بھی انھیں تنخواہ ملتی رہتی ہے۔ان کے لیے اسلحہ اور سواری کا اہتمام بھی حکومت کے ذمے ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں عام مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت ساقط ہے اور تنخواہ دار ہونے کی وجہ سے ان فوجی اور مجاہدین میں مال غنیمت کی تقسیم کا قصہ بھی ختم ہوا۔امیر جیش یعنی چیف کمانڈر حصہ بھی ختم ہوا کیونکہ وہ بھی سر کاری خزانے سے بھاری تنخواہ وصول کرتا ہے فقراء کی ضرورتوں کو پورا کرنا ویسے ہی اسلامی حکومت کا فریضہ ہوتا ہے۔ ان مسائل میں اجتہاد کی ضرورت ہے کہ موجودہ دور میں ان شرعی نصوص کا انطباق کیسے ہو؟ ضرورت ہے کہ ان جیسے بیسیوں مسائل کے لیے اہل علم پر مشتمل ایک مجلس شوریٰ کا اہتمام کیا جائے۔ کاش کہ مسلک حقہ کی علمبردار جماعت اہل حدیث اس طرف توجہ دے اور جدید مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے وقت کی ضرورت کے پیش نظر خمس اور جزیے وغیرہ کے متعلق الگ الگ دو بڑے عنوان قائم کیے ہیں۔ حالانکہ ان کا تعلق جہاد ہی سے ہے۔چونکہ خمس اور جزیے کے مسائل کی بہت سی قسمیں ہیں جو تشریح و تفصیل کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی افادیت و اہمیت کے پیش نظر انھیں الگ عنوان کے تحت بیان کیا ہے۔ قارئین سے استدعا ہے کہ وہ ہماری تشریحات کو مد نظر رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینی معاملات میں بصیرت عطا فرمائےپھر ان پر عمل کی توفیق دے۔آمین یا رب العالمین ۔
تمہید باب
اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے کہ غزوہ حنین میں جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مال غنیمت دیا تو آپ نے تالیف قلبی کے لیے اسے نو مسلم حضرات میں تقسیم کیا۔"(صحیح البخاری المغازی حدیث 4330)
اس کو عبداللہ بن زید ؓ نے آنحضرت ﷺ سے روایت کیا ہے ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک دن اعتکاف کرنے کی نذرمانی تھی تو آپ نے انھیں منت پوراکرنے کاحکم دیا۔ راوی بیان کرتا ہے کہ حضرت عمر ؓ کو حنین کی قیدی عورتوں میں سے وہ لونڈیاں ملی تھیں جن کو انھوں نے مکہ مکرمہ کے ایک مکان میں رکھاتھا۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ نے حنین کے قیدیوں پر احسان کیا (اورانھیں آزاد کردیا) تو وہ گلی کوچوں میں دوڑنے لگے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اے عبداللہ ؓ!دیکھو کیابات ہے؟ انھوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے قیدیوں پر احسان کرتے ہوئے آزادکردیا ہے حضرت عمر نے فرمایا: جاؤ، تم بھی ان دونوں لونڈیوں کو آزاد کردو۔ حضرت نافع ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مقام جعرانہ سے عمرہ نہیں کیا تھا۔ اگرآپ نے وہاں سے عمرہ کیا ہوتا تو حضرت عبداللہ بن عمر ؓ پر مخفی نہ رہتا۔ (راوی حدیث) جریرکی روایت میں ہے کہ وہ دونوں لونڈیاں مال خمس سے ملی تھیں۔ معمر نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے نذر اعتکاف کا جو قصہ بیان کیا ہے اس میں ’’ایک دن‘‘ کا لفظ ذکر نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مال خمس سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دو لونڈیاں دی تھیں۔ امام بخاری ؒ نے خمس کے متعلق امام وقت کے صوابدیدی اختیارات ثابت کرنے کے لیے اس حدیث کو پیش کیا ہے اس روایت میں مقام جعرانہ سے عمرے کے لیے احرام نہ باندھنے کا ذکر ہے حالانکہ دیگر بہت سی روایات میں ہے کہ رسول اللہﷺ جب حنین اور طائف سے فارغ ہوئے تو آپ نے جعرانہ سے عمرے کا احرام باندھا؟ ممکن ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ اسے بھول گئے ہوں یا انھیں یاد ہو لیکن انھوں نے اس امر کو نافع سے بیان نہ کیا ہو۔ بہر حال رسول اللہ ﷺنے جعرانہ سے عمرے کا احرام باندھا ہے۔ 2۔حنین کے قیدیوں کو بلا معاوضہ آزاد کردینا رسول اللہ ﷺکا وہ عظیم کارنامہ ہے جس پر امت مسلمہ جس قدر بھی فخر کرے۔ کم ہے۔ اس سے بڑھ کر انسانیت پروری اور کیا ہو سکتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عبداللہ بن زید ؓ نے اس سلسلے میں نبی کریم ﷺسے روایت بیان کی ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے نافع نے کہ عمر بن خطاب ؓ نے عرض کیا یارسول اللہ! زمانہ جاہلیت (کفر) میں میں نے ایک دن کے اعتکاف کی منت مانی تھی، تو رسول کریم ﷺ نے اسے پورا کرنے کا حکم فرمایا۔ نافع نے بیان کیا کہ حنین کے قیدیوں میں سے عمر ؓ کو دو باندیاں ملی تھیں۔ تو آپ نے انہیں مکہ کے کسی گھر میں رکھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر آنحضرت ﷺ نے حنین کے قیدیوں پر احسان کیا (اور سب کو مفت آزاد کر دیا) تو گلیوں میں وہ دوڑنے لگے۔ عمر ؓ نے کہا، عبداللہ! دیکھو تو یہ کیا معاملہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ رسول کریم ﷺ نے ان پر احسان کیا ہے (اور حنین کے تمام قیدی مفت آزاد کر دئیے گئے ہیں) حضرت عمر ؓ نے کہا کہ پھر جا ان دونوں لڑکیوں کو بھی آزاد کر دے۔ نافع نے کہا کہ رسول ﷺ نے مقام جعرانہ سے عمرہ کا احرام نہیں باندھا تھا۔ اگر آنحضرت ﷺ وہاں سے عمرہ کا احرام باندھتے تو عبداللہ بن عمر ؓ کو یہ ضرور معلوم ہوتا اور جریر بن حازم نے جو ایوب سے روایت کی، انہوں نے نافع سے، انہوں نے ابن عمر ؓ سے، اس میں یوں ہے کہ (وہ دونوں باندیاں جو عمر ؓ کو ملی تھیں) خمس میں سے تھیں۔ (اعتکاف سے متعلق یہ روایت) معمر نے ایوب سے نقل کی ہے، ان سے نافع نے، ان سے عبداللہ بن عمر ؓ نے نذر کا قصہ جو روایت کیا ہے اس میں ایک دن کا لفظ نہیں ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ آنحضرت ﷺنے خمس میں سے دو لونڈیاں بطور احسان حضرت عمر ؓ کو دیں۔ روایت میں آنحضرت ﷺکا جعرانہ سے عمرہ کا احرام نہ باندھنا مذکور ہے۔ حالانکہ دوسرے بہت سے لوگوں نے نقل کیا ہے کہ آپ جب حنین اورطائف سے فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے جعرانہ سے عمرے کا احرام باندھا اور اثبات نفی پر مقدم ہے۔ ممکن ہے عبداللہ بن عمر ؓکو اس کی خبر ہو لیکن انہوں نے نافع سے نہ بیان کیا ہو، اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ کوئی شخص حالت کفر میں کوئی نیک کام کرنے کی نذر مانے تو اسلام لانے کے بعد وہ نذر پوری کرنی ہوگی۔ حنین کے قیدیوں کو بھی بلا معاوضہ آزاد کر دینا انسانیت پروری کے سلسلہ میں رسول کریمﷺ کا وہ عظیم کارنامہ ہے جس پر امت مسلمہ ہمیشہ نازاں رہے گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Nafi (RA): 'Umar bin Al-Khattab (RA) said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I vowed to observe Itikaf for one day during the Pre-lslamic period." The Prophet (ﷺ) ordered him to fulfill his vow. 'Umar gained two lady captives from the war prisoners of Hunain and he left them in some of the houses at Makkah. When Allah's Apostle (ﷺ) freed the captives of Hunain without ransom, they came out walking in the streets. 'Umar said (to his son), "O Abdullah! See what is the matter." 'Abdullah replied, "Allah's Apostle (ﷺ) has freed the captives without ransom." He said (to him), "Go and set free those two slave girls." (Nafi added:) Allah's Apostle (ﷺ) did not perform the 'Umra from Al-Jarana, and if he had performed the 'Umra, it would not have been hidden from 'Abdullah.