باب : تالیف قلوب کے لیے آنحضرت ﷺ کا بعضے کافروں وغیرہ نو مسلموں یا پرانے مسلمانوں کو خمس میں سے دینا
)
Sahi-Bukhari:
One-fifth of Booty to the Cause of Allah (Khumus)
(Chapter: What the Prophet saws used to give to those Muslims whose faith was not so firm)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس کو عبداللہ بن زید ؓ نے آنحضرت ﷺ سے روایت کیا ہے ۔
3147.
حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو ہوازن کے مال میں سے جتنا بھی بطور غنیمت دیا تو اس میں سے آپ نے قریش کے بعض لوگوں کو سو، سو اونٹ دیے۔ اس پر انصار کے چند لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺ کو معاف فرمائے آپ قریش کو اتنا دے رہے ہیں اور ہمیں نظر انداز کررہے، حالانکہ ہماری تلواروں سے ان (کافروں) کا خون ٹپک رہا ہے۔ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے جب ان کی بات بیان کی گئی تو آپ نے انصار کو بلا کر انھیں ایک چمڑے کے خیمے میں جمع کیا لیکن ان کے ساتھ کسی اور کو نہ بلایا۔ جب وہ جمع ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور پوچھا: ’’یہ کیا بات ہے جو تمہاری طرف سے مجھے پہنچی ہے؟‘‘ ان کے عقلمند لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! ہم میں سے اہل خرد نے کچھ نہیں کہا، ہاں! چند نو خیز لڑکے ہیں انھوں نے ہی یہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺ کو بخش دے، آپ قریش کو تو دے رہے ہیں اور ہمیں نہیں دیتے، حالانکہ ہماری تلواریں اب بھی ان کے خون ٹپکا رہی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں بعض ایسے لوگوں کو دیتا ہوں جن کے کفر کا زمانہ ابھی ابھی گزرا ہے، یعنی وہ نئے نئے مسلمان ہوئے ہیں۔ کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ لوگ مال و دولت لے کر جائیں اور تم اپنے گھروں کو اللہ کا رسول ﷺ لے کر واپس جاؤ۔ اللہ کی قسم! جو تم لے کر جاؤ گے وہ اس سے بہتر ہے جو وہ لے کر جائیں گے۔‘‘ انصار نے بیک زبان کہا: کیوں نہیں یا رسول اللہ ﷺ !ہماس پر راضی اور خوش ہیں۔ پھر آپ نے ان سے فرمایا: ’’میرے بعد تم دیکھو گے کہ تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی، اس وقت صبر سے کام لینا حتیٰ کہ تم اللہ سے ملو اور اس کے رسول ﷺ سے حوض کوثر پر ملاقات کرو۔‘‘ حضرت انس ؓ نے فرمایا: لیکن اس کے باوجود ہم سے صبر نہ ہوسکا۔
تشریح:
1۔ جن لوگوں کو رسول اللہ ﷺنے عطا کیا تھا وہ قریش کے سردار اور رئیس تھے جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی دلجوئی کے پیش نظر انھیں بہت سامال دیا۔ ان کے دلوں کو اسلام کی طرف مزید مائل کرنا مقصود تھا تاکہ وہ اسلام پر ثابت قدم رہیں۔ ایسے حالات میں انھیں زکاۃ دینا بھی جائز تھا جیسا کہ قرآن کریم نے بیان کیا ہے ان حضرات کو جو کچھ دیا گیا اس کا ذکر صرف تاریخ میں با قی رہ گیا مگر انصار کو آپ نے اپنی ذات گرامی سے جو شرف بخشا وہ رہتی دنیا تک کے لیے درخشاں و تاباں ہے۔ اس شرف کی برکت سے مدینہ طیبہ کو وہ اعزاز ملا جو دنیا میں کسی بھی شہر کو نصیب نہیں ہو سکا۔ 2۔ رسول اللہ ﷺ کو غزوہ حنین کےموقع پر اس قدر مال غنیمت ملا جس کا شمار مشکل ہے روایات میں قیدیوں کی تعداد چھ ہزارچوبیس ہزار اونٹ، چارہزار اوقیے چاندی اور چالیس ہزار سے زیادہ بکریوں کا ذکر ملتا ہے۔ رسول اللہ ﷺنے اپنے صوابدیدی اختیارات کے مطابق مال غنیمت مؤلفہ القلوب میں تقسیم کیا اور جن لوگوں نے اس پر اعتراض کیا وہ کامل الایمان نہیں تھے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3030
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3147
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3147
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3147
تمہید کتاب
غزوہ بدر کے اختتام پر اس قسم کی صورتحال پیداہو گئی کہ جس فریق نے غنیمت کا مال لوٹا وہ اپنے آپ ہی کو اس کا حقدار سمجھنے لگا۔ کچھ لوگ کفار کا تعاقب کرنے والے تھے انھوں نے دعوی کیا کہ ہم بھی مال غنیمت میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ اگر ہم کفار کا تعاقب نہ کرتے تو کفار واپس آکر حملہ کر سکتے تھے جس سے فتح کا شکست میں بدل جانا ممکن تھا کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت پر مامور تھے۔ انھوں نے کہا: ہم بھی اس مال میں برابر کے حصے دار ہیں۔کیونکہ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت نہ کرتے تو آپ کوکوئی حادثہ پیش آسکتا تھا جو جنگ کا پانسہ پلٹنے میں بنیادی کردار ادا کرتا۔ لیکن جن لوگوں نے مال غنیمت پر قبضہ کیا وہ ایسی باتیں قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے لہٰذا مجاہدین میں کشیدگی کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے بھی وحی الٰہی کی آمد تک خاموشی اختیار کیےرکھی۔ بالآخراللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا :کہ دوران جنگ میں ملنے والے تمام اموال اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں ان کے متعلق جو فیصلہ ہوگا۔ وہ سب کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ پھر اس کی تفصیل نازل ہوئی، کہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے قرابت داروں،مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔(الانفال:8/41)دراصل میدان جنگ میں حاصل ہونے والے مال کی چند قسمیں حسب ذیل ہیں۔1۔مال غنیمت:۔مجاہدین کے قتال کے بعد کفار کی شکست کی صورت میں وہاں سے جو مال حاصل ہو اسے مال غنیمت کہا جاتا ہے۔ یہ پہلی امتوں پر حرام تھا بلکہ آسمان سے آگ آکر اسے جلا دیتی تھی مگر اس امت پر اسے حلال کردیا گیا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے مال کے پانچ حصے ہوں گے، جن میں سے چار مجاہدین میں تقسیم ہوں گے اور ایک حصہ اللہ اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرابت داروں ، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے جو بیت المال میں جائے گا۔2۔مال فے:۔اس میں ہر وہ مال شامل ہے جو مسلمانوں کو لڑے ے بغیر مل جائے۔اس کے متعلق قرآنی فیصلہ یہ ہے کہ وہ سارے کا سارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔(اور آپ کے بعد شرعی حاکم کے لیے ہے)اور وہ اپنی صوابدید کے مطابق اسے خرچ کرنے کے مجاز ہیں۔3۔مال سلب:۔ اس سے مراد وہ مال ہے جو ایک مجاہد مقتول دشمن کے جسم سے اتارتا ہے۔ اس کے متعلق شرعی فیصلہ ہے کہ وہ قاتل مجاہد کو دیا جائے لیکن حاکم وقت صوابدیدی اختیاربد ستور باقی رہتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر میں ابوجہل کے سازوسامان کے متعلق موقف اختیار کیا تھا۔4۔ایسی اشیاء جن کا تعلق غذا سے ہو یا ایسی چیز یں جو عموماً غذا کا فائدہ دیتی ہوں۔اسی طرح جانوروں کی گھاس وغیرہ ایسی تمام اشیاء کو تقسیم سے پہلے ہی استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے ۔ اس میں حاکم وقت سے اجازت لینا ضروری نہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت ایسی احادیث جمع کی ہیں جن کا تعلق مال غنیمت کے خمس سے ہے۔مال غنیمت کے متعلق اس امر پر اتفاق ہے کہ اس کے چار حصے مجاہدین کے لیے ہیں۔ اس سےدو حصے گھوڑے کے لیے اور ایک حصہ مجاہد کے لیے مختص ہوتا ہے۔ اگر کسی کے پاس گھوڑا نہ ہو تو وہ صرف ایک حصے کا حق دار ہے۔ واضح رہے کہ چار حصے ان مجاہدین میں تقسیم کیے جاتے جو جنگ میں شریک ہوتے۔ باقی پانچواں حصہ یعنی خمس کے لیے قرآن کریم نے چھ مصرف بیان کیے ہیں ان میں اللہ کا ذکر تو بطور تبرک ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حصہ ہے وہ آپ کی گھریلو ضروریات کے لیے مقرر ہوا ۔آپ کی خانگی ضروریات سے جو بچتا اسے جہاد کی ضروریات میں صرف کردیا جاتا۔آپ کی وفات کے بعد یہ مصرف ختم ہوگیا۔ اس خمس کا ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں ، یعنی بنو ہاشم کے لیے تھا۔ آپ کی وفات کے بعد ان کا حصہ بھی ختم ہو گیا۔ اب تین مصرف باقی ہیں۔یعنی یتیموں مسکینوں اور مسافروں کی ضروریات کو پورا کرنا۔ حاکم وقت کو ان کے متعلق بھی اختیار کہ جسے چاہے دے سکتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو اختیار کرکے امام مالک کی تائید کی ہے اور اس کے لیے چار حسب ذیل عنوان قائم کیے ہیں۔1۔پانچواں حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مساکین کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ہے۔2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مالک نہیں بلکہ آپ کو صرف تقسیم کرنے کا اختیار تھا۔3۔خمس مسلمانوں کی ضروریات کے لیے ہے۔4۔خمس حاکم وقت کے لیے ہے۔ان سب عنوانات کا ایک ہی مقصد ہے کہ حاکم وقت اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کرنے کا مجاز ہے اس خمس کا مالک نہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خمس کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیےپینسٹھ(65)متصل احادیث بیان کی ہیں۔اور ان پر بیس(20) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل آئندہ بیان ہو گی۔ایک اہم مسئلہ جس کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ دور نبوی میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین رضا کارانہ طور پر اسے فریضہ سمجھ کر جہاد پر جاتے اور جنگ میں شریک ہو تے تھے اس سلسلے میں سواری اور ہتھیاروں کا اہتمام بھی خود کرتے تھے بلکہ بعض اوقات ذاتی خدمت کے لیے اپنے خرچے پر مزدورساتھ لے جاتے۔ ان خدمات کے عوض ان مجاہدین کو مال غنیمت سے حصہ ملتا تھا مگر دور حاضر میں فوج کا محکمہ ہی الگ ہے۔ اس محکمے میں شامل فوجی باقاعدہ تنخواہ دار ہوتے ہیں۔ ایام جنگ کے علاوہ بھی انھیں تنخواہ ملتی رہتی ہے۔ان کے لیے اسلحہ اور سواری کا اہتمام بھی حکومت کے ذمے ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں عام مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت ساقط ہے اور تنخواہ دار ہونے کی وجہ سے ان فوجی اور مجاہدین میں مال غنیمت کی تقسیم کا قصہ بھی ختم ہوا۔امیر جیش یعنی چیف کمانڈر حصہ بھی ختم ہوا کیونکہ وہ بھی سر کاری خزانے سے بھاری تنخواہ وصول کرتا ہے فقراء کی ضرورتوں کو پورا کرنا ویسے ہی اسلامی حکومت کا فریضہ ہوتا ہے۔ ان مسائل میں اجتہاد کی ضرورت ہے کہ موجودہ دور میں ان شرعی نصوص کا انطباق کیسے ہو؟ ضرورت ہے کہ ان جیسے بیسیوں مسائل کے لیے اہل علم پر مشتمل ایک مجلس شوریٰ کا اہتمام کیا جائے۔ کاش کہ مسلک حقہ کی علمبردار جماعت اہل حدیث اس طرف توجہ دے اور جدید مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے وقت کی ضرورت کے پیش نظر خمس اور جزیے وغیرہ کے متعلق الگ الگ دو بڑے عنوان قائم کیے ہیں۔ حالانکہ ان کا تعلق جہاد ہی سے ہے۔چونکہ خمس اور جزیے کے مسائل کی بہت سی قسمیں ہیں جو تشریح و تفصیل کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی افادیت و اہمیت کے پیش نظر انھیں الگ عنوان کے تحت بیان کیا ہے۔ قارئین سے استدعا ہے کہ وہ ہماری تشریحات کو مد نظر رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینی معاملات میں بصیرت عطا فرمائےپھر ان پر عمل کی توفیق دے۔آمین یا رب العالمین ۔
تمہید باب
اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے کہ غزوہ حنین میں جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مال غنیمت دیا تو آپ نے تالیف قلبی کے لیے اسے نو مسلم حضرات میں تقسیم کیا۔"(صحیح البخاری المغازی حدیث 4330)
اس کو عبداللہ بن زید ؓ نے آنحضرت ﷺ سے روایت کیا ہے ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو ہوازن کے مال میں سے جتنا بھی بطور غنیمت دیا تو اس میں سے آپ نے قریش کے بعض لوگوں کو سو، سو اونٹ دیے۔ اس پر انصار کے چند لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺ کو معاف فرمائے آپ قریش کو اتنا دے رہے ہیں اور ہمیں نظر انداز کررہے، حالانکہ ہماری تلواروں سے ان (کافروں) کا خون ٹپک رہا ہے۔ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے جب ان کی بات بیان کی گئی تو آپ نے انصار کو بلا کر انھیں ایک چمڑے کے خیمے میں جمع کیا لیکن ان کے ساتھ کسی اور کو نہ بلایا۔ جب وہ جمع ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور پوچھا: ’’یہ کیا بات ہے جو تمہاری طرف سے مجھے پہنچی ہے؟‘‘ ان کے عقلمند لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! ہم میں سے اہل خرد نے کچھ نہیں کہا، ہاں! چند نو خیز لڑکے ہیں انھوں نے ہی یہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺ کو بخش دے، آپ قریش کو تو دے رہے ہیں اور ہمیں نہیں دیتے، حالانکہ ہماری تلواریں اب بھی ان کے خون ٹپکا رہی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں بعض ایسے لوگوں کو دیتا ہوں جن کے کفر کا زمانہ ابھی ابھی گزرا ہے، یعنی وہ نئے نئے مسلمان ہوئے ہیں۔ کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ لوگ مال و دولت لے کر جائیں اور تم اپنے گھروں کو اللہ کا رسول ﷺ لے کر واپس جاؤ۔ اللہ کی قسم! جو تم لے کر جاؤ گے وہ اس سے بہتر ہے جو وہ لے کر جائیں گے۔‘‘ انصار نے بیک زبان کہا: کیوں نہیں یا رسول اللہ ﷺ !ہماس پر راضی اور خوش ہیں۔ پھر آپ نے ان سے فرمایا: ’’میرے بعد تم دیکھو گے کہ تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی، اس وقت صبر سے کام لینا حتیٰ کہ تم اللہ سے ملو اور اس کے رسول ﷺ سے حوض کوثر پر ملاقات کرو۔‘‘ حضرت انس ؓ نے فرمایا: لیکن اس کے باوجود ہم سے صبر نہ ہوسکا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ جن لوگوں کو رسول اللہ ﷺنے عطا کیا تھا وہ قریش کے سردار اور رئیس تھے جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی دلجوئی کے پیش نظر انھیں بہت سامال دیا۔ ان کے دلوں کو اسلام کی طرف مزید مائل کرنا مقصود تھا تاکہ وہ اسلام پر ثابت قدم رہیں۔ ایسے حالات میں انھیں زکاۃ دینا بھی جائز تھا جیسا کہ قرآن کریم نے بیان کیا ہے ان حضرات کو جو کچھ دیا گیا اس کا ذکر صرف تاریخ میں با قی رہ گیا مگر انصار کو آپ نے اپنی ذات گرامی سے جو شرف بخشا وہ رہتی دنیا تک کے لیے درخشاں و تاباں ہے۔ اس شرف کی برکت سے مدینہ طیبہ کو وہ اعزاز ملا جو دنیا میں کسی بھی شہر کو نصیب نہیں ہو سکا۔ 2۔ رسول اللہ ﷺ کو غزوہ حنین کےموقع پر اس قدر مال غنیمت ملا جس کا شمار مشکل ہے روایات میں قیدیوں کی تعداد چھ ہزارچوبیس ہزار اونٹ، چارہزار اوقیے چاندی اور چالیس ہزار سے زیادہ بکریوں کا ذکر ملتا ہے۔ رسول اللہ ﷺنے اپنے صوابدیدی اختیارات کے مطابق مال غنیمت مؤلفہ القلوب میں تقسیم کیا اور جن لوگوں نے اس پر اعتراض کیا وہ کامل الایمان نہیں تھے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عبداللہ بن زید ؓ نے اس سلسلے میں نبی کریم ﷺسے روایت بیان کی ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھے انس بن مالک ؓ نے خبر دی کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو قبیلہ ہوازن کے اموال میں سے غنیمت دی اور آپ ﷺ قریش کے بعض آدمیوں کو (تالیف قلب کی غرض سے) سو سو اونٹ دینے لگے تو بعض انصاری لوگوں نے کہا اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کی بخشش کرے۔ آپ قریش کو تو دے رہے ہیں اور ہمیں چھوڑ دیا۔ حالانکہ ان کا خون ابھی تک ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے۔ (قریش کے لوگوں کو حال ہی میں ہم نے مارا، ان کے شہر کو ہم ہی نے فتح کیا) انس ؓ نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ ﷺ نے انصار کو بلایا اور انہیں چمڑے کے ایک ڈیرے میں جمع کیا، ان کے سوا کسی دوسرے صحابی کو آپ نے نہیں بلایا۔ جب سب انصاری لوگ جمع ہو گئے تو آنحضرت ﷺ بھی تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ آپ لوگوں کے بارے میں جو بات مجھے معلوم ہوئی وہ کہاں تک صحیح ہے؟ انصار کے سمجھ دار لوگوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! ہم میں جو عقل والے ہیں، وہ تو کوئی ایسی بات زبان پر نہیں لائے ہیں، ہاں چند نو عمر لڑکے ہیں، انہوں نے یہ کہا ہے کہ اللہ رسول اللہ ﷺ کی بخشش کرے، آپ ﷺ قریش کو تو دے رہے ہیں اور ہم کو نہیں دیتے حالانکہ ہماری تلواروں سے ابھی تک ان کے خون ٹپک رہے ہیں۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں بعض ایسے لوگوں کو دیتا ہوں جن کا کفر کا زمانہ ابھی گزرا ہے۔ (اور ان کو دے کر ان کا دل ملاتا ہوں) کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ جب دوسرے لوگ مال و دولت لے کر واپس جا رہے ہوں گے، تو تم لوگ اپنے گھروں کو رسول اللہ ﷺ کو لے کر واپس جا رہے ہو گے۔ اللہ کی قسم! تمہارے ساتھ جو کچھ واپس جا رہا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو دوسرے لوگ اپنے ساتھ واپس لے جائیں گے۔ سب انصاریوں نے کہا بے شک یا رسول اللہ! ہم اس پر راضی اور خوش ہیں۔ پھر آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا، میرے بعد تم یہ دیکھو گے کہ تم پر دوسرے لوگوں کو مقدم کیا جائے گا، اس وقت تم صبر کرنا، (دنگا فساد نہ کرنا) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ سے جا ملو اور اس کے رسول سے حوض کوثر پر۔ انس ؓ نے بیان کیا، پھر ہم سے صبر نہ ہو سکا۔
حدیث حاشیہ:
یہ لوگ قریش کے سردار اور رؤسا تھے جو حال ہی میں مسلمان ہوئے تھے، آپ ﷺ نے انکی دلجوئی کے لیے ان کو بہت سامان دیا۔ ان لوگوں کے نام یہ تھے۔ ابوسفیان، معاویہ بن ابی سفیان، حکیم بن حزام، حارث بن حارث، حارث بن ہشام، سہل بن عمرو، حویطب بن عبدالعزی، علاءبن حارثہ ثقفی، عیینہ بن حصین، صفوان بن امیہ، اقرع بن حابس، مالک بن عوف، ان حضرات کو رسول کریم ﷺ نے جو بھی کچھ دیا اس کا ذکر صرف تاریخ میں باقی رہ گیا، مگرانصار کو آپ نے اپنی ذات گرامی سے جو شرف بخشا وہ رہتی دنیا تک کے لیے درخشاں و تاباں ہے۔ جس شرف کی برکت سے مدینۃ المنورہ کو وہ خاص شرف حاصل ہے جو دنیا میں کسی بھی شہر کو نصیب نہیں۔ اموال ہوازن کے متعلق جو غنیمت میں حاصل ہوا، صاحب ''لمعات '' لکھتے ہیں۔ ما أفاءاللہ في هذا الإبهام تفخیم و تکثیر لما أفاء فإن الفيئ الحاصل منهم کان عظیماً کثیراً مما لایعد ولایحصی و جاء في الروایات سنة آلاف من السبي وأربع و عشرون ألفا من الإبل وأربعۃ آلاف أوقیة من الفضة وأکثر أربعین ألف شاة الخ(حاشیۃ بخاری، کراتشی ج: 1، ص:445)یعنی اموال ہوازن اس قدر حاصل ہوا جس کا شمار کرنا بھی مشکل ہے۔ روایات میں قیدیوں کی تعداد چھ ہزار، اور چوبیس ہزار اونٹ اور چار ہزار اوقیہ چاندی اور چالیس ہزار سے زیادہ بکریاں مذکور ہوئی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): When Allah favored His Apostle (ﷺ) with the properties of Hawazin tribe as Fai (booty), he started giving to some Quarries men even up to one-hundred camels each, whereupon some Ansari men said about Allah's Apostle, "May Allah forgive His Apostle (ﷺ) ! He is giving to (men of) Quraish and leaves us, in spite of the fact that our swords are still dropping blood (of the infidels)" When Allah's Apostle (ﷺ) was informed of what they had said, he called the Ansar and gathered them in a leather tent and did not call anybody else along, with them. When they gathered, Allah's Apostle (ﷺ) came to them and said, "What is the statement which, I have been informed, and that which you have said?" The learned ones among them replied," O Allah's Apostle (ﷺ) ! The wise ones amongst us did not say anything, but the youngsters amongst us said, 'May Allah forgive His Apostle; he gives the Quarish and leaves the Ansar, in spite of the fact that our swords are still dribbling (wet) with the blood of the infidels.' " Allah's Apostle (ﷺ) replied, I give to such people as are still close to the period of Infidelity (i.e. they have recently embraced Islam and Faith is still weak in their hearts). Won't you be pleased to see people go with fortune, while you return with Allah's Apostle (ﷺ) to your houses? By Allah, what you will return with, is better than what they are returning with." The Ansar replied, "Yes, O Allah's Apostle, we are satisfied' Then the Prophet (ﷺ) said to them." You will find after me, others being preferred to you. Then be patient till you meet Allah and meet His Apostle (ﷺ) at Al-Kauthar (i.e. a fount in Paradise)." (Anas added:) But we did not remain patient.