Sahi-Bukhari:
Jizyah and Mawaada'ah
(Chapter: Caution against treachery)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’اور اگر یہ کافر لوگ آپ کو دھوکا دینا چاہیں ( اے نبی ! ) تو اللہ آپ کے لیے کافی ہے‘‘۔ آخر آیت تک
3176.
حضرت عوف بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریم ﷺ کے پاس آیا جبکہ آپ چمڑے کے ایک خیمے میں تشریف فرما تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’قیامت سے پہلے چھ نشانیاں (ہوں گی انھیں) شمار کرلو: ایک تو میری وفات، دوسری فتح بیت المقدس، تیسری وبا تم میں اس طرح پھیلے گی جیسے بکریوں کی بیماری قعاص پھیلتی ہے۔ چوتھی مال کی اس قدر فراوانی کہ اگر کسی کو سو اشرفیاں دی جائیں گی تو بھی خوش نہیں ہوگا۔ پانچویں ایک فتنہ جس سے عرب کاکوئی گھر نہیں بچے گا۔ چھٹی نشانی وہ صلح جو تمہارے اور رومیوں کے درمیان ہو گی۔ وہ بے وفائی کریں گے اور اسی جھنڈے لے کر تم سے لڑنے آئیں گے اور ہرجھنڈے تلے بارہ ہزار فوج ہوگی۔‘‘
تشریح:
1۔ چھٹی علامت ابھی واقع نہیں ہوئی۔ اہل اسلام اور روم کے عیسائیوں کے درمیان جنگ بندی کی صلح ہو گی جس پر عملدرآمد نہیں ہوگا بلکہ عیسائیوں کی نو لاکھ ساٹھ ہزار فوج مسلمانوں پر حملہ آور ہوگی۔ اس وقت مسلمانوں کا بہت نقصان ہوگا۔ بالآخر حضرت مہدی کی قیادت میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوگی۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ دغا دینا کافروں کا کام ہے اور اس قسم کی بدعہدی قرب قیامت کے وقت ہوگی۔ مسلمانوں کو اس سے بچنا چاہیے۔
پوری دلیل اسی طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہیں لیتے تھے ،پھر اس جادوسے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتھا صرف خیالات میں معمولی سی تبدیلی آئی تھی جیسا کہ آئندہ حدیث میں صر احت ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"مجھے اللہ نے آرام دے دیاہے۔آپ نے اسے قتل کرنے کی بجائے معاف کردیا۔"عنوان میں ذمیوں کا ذکر ہے جبکہ حدیث میں اہل کتاب کے الفاظ ہیں؟اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل کتاب سے مراد اہل عہد ہیں کیونکہ عہد اور ذمہ ہم معنی ہیں،بصورت دیگر حربی تو واجب القتل ہوتا ہے۔اس کے متعلق جمہور کا مسلک یہ ہے کہ معاہدہ جادوگر کو قتل نہ کیاجائے بلکہ اسے سزدی جائے۔اگروہ جادو سے کسی کو قتل کرے تو قصاص کے طور پر اسےقتل کیا جائے گا اور اگر کسی حادثے کا باعث بنے تو اسے گرفتار کیا جائے۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’اور اگر یہ کافر لوگ آپ کو دھوکا دینا چاہیں ( اے نبی ! ) تو اللہ آپ کے لیے کافی ہے‘‘۔ آخر آیت تک
حدیث ترجمہ:
حضرت عوف بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریم ﷺ کے پاس آیا جبکہ آپ چمڑے کے ایک خیمے میں تشریف فرما تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’قیامت سے پہلے چھ نشانیاں (ہوں گی انھیں) شمار کرلو: ایک تو میری وفات، دوسری فتح بیت المقدس، تیسری وبا تم میں اس طرح پھیلے گی جیسے بکریوں کی بیماری قعاص پھیلتی ہے۔ چوتھی مال کی اس قدر فراوانی کہ اگر کسی کو سو اشرفیاں دی جائیں گی تو بھی خوش نہیں ہوگا۔ پانچویں ایک فتنہ جس سے عرب کاکوئی گھر نہیں بچے گا۔ چھٹی نشانی وہ صلح جو تمہارے اور رومیوں کے درمیان ہو گی۔ وہ بے وفائی کریں گے اور اسی جھنڈے لے کر تم سے لڑنے آئیں گے اور ہرجھنڈے تلے بارہ ہزار فوج ہوگی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ چھٹی علامت ابھی واقع نہیں ہوئی۔ اہل اسلام اور روم کے عیسائیوں کے درمیان جنگ بندی کی صلح ہو گی جس پر عملدرآمد نہیں ہوگا بلکہ عیسائیوں کی نو لاکھ ساٹھ ہزار فوج مسلمانوں پر حملہ آور ہوگی۔ اس وقت مسلمانوں کا بہت نقصان ہوگا۔ بالآخر حضرت مہدی کی قیادت میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوگی۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ دغا دینا کافروں کا کام ہے اور اس قسم کی بدعہدی قرب قیامت کے وقت ہوگی۔ مسلمانوں کو اس سے بچنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن علاء بن زبیر نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے بسر بن عبیداللہ سے سنا، انہوں نے ابو ادریس سے سنا، کہا کہ میں نے عوف بن مالک ؓ سے سنا، آپ نے بیان کیا کہ میں غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ اس وقت چمڑے کے ایک خیمے میں تشریف فرما تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، کہ قیام قیامت کی چھ نشانیاں شمار کرلو، میری موت، پھر بیت المقدس کی فتح، پھر ایک وبا جو تم میں شدت سے پھیلے گی جیسے بکریوں میں طاعون پھیل جاتا ہے۔ پھر مال کی کثرت اس درجہ میں ہو گی کہ ایک شخص سو دینار بھی اگر کسی کو دے گا تو اس پر بھی وہ ناراض ہو گا۔ پھر فتنہ اتنا تباہ کن عام ہوگا کہ عرب کا کوئی گھر باقی نہ رہے گا جو اس کی لپیٹ میں نہ آ گیا ہو گا۔ پھر صلح جو تمہارے اور بنی لاصفر (نصارائے روم) کے درمیان ہو گی، لیکن وہ دغا کریں گے اور ایک عظیم لشکر کے ساتھ تم پر چڑھائی کریں گے۔ اس میں اسی جھنڈے ہوں گے اور ہر جھنڈے کے ماتحت بارہ ہزار فوج ہوگی۔ یعنی نو لاکھ ساٹھ ہزار فوج سے وہ تم پر حملہ آور ہوں گے۔
حدیث حاشیہ:
پہلی دوسری نشانی تو ہوچکی۔ تیسری کہتے ہیں وہ بھی ہوچکی ہے یعنی طاعون عمواس جو حضرت عمر ؓ کی خلافت میں آیا تھا۔ جس میں ہزاروں مسلمان مرگئے تھے۔ چوتھی نشانی بھی ہوچکی، مسلمان روم اور ایران کی فتح سے بے حد مالدار ہوگئے تھے۔ پانچویں نشانی کہتے ہیں ہوچکی جس سے بنوامیہ کا فتنہ مراد ہے۔ چھٹی نشانی قیامت کے قریب ہوگی۔ اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ نکالا کہ دغابازی کرنا کافروں کا کام ہے اور یہ بھی قیامت کی ایک نشانی ہے کہ وہ دغابازی عام ہوجائے گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Auf bin Mali (RA): I went to the Prophet (ﷺ) during the Ghazwa of Tabuk while he was sitting in a leather tent. He said, "Count six signs that indicate the approach of the Hour: my death, the conquest of Jerusalem, a plague that will afflict you (and kill you in great numbers) as the plague that afflicts sheep, the increase of wealth to such an extent that even if one is given one hundred Dinars, he will not be satisfied; then an affliction which no Arab house will escape, and then a truce between you and Bani Al-Asfar (i.e. the Byzantines) who will betray you and attack you under eighty flags. Under each flag will be twelve thousand soldiers.