کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیوں کر شروع ہوئی
(
باب : فرشتوں کا بیان۔
)
Sahi-Bukhari:
Beginning of Creation
(Chapter: The reference to angels)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے رسول الہ ﷺسے عرض کیا کہ جبرئیل علیہ السلام کو یہودی فرشتوں میں سے اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ ابن عباس ؓ نے سورۃ والصافات میں بیان کیا کہ لنحن الصافون میں مراد ملائکہ ہیں۔ تشریح : یہودی اپنی جہالت سے جبرئیل علیہ السلام کو اپنا دشمن سمجھتے اور کہتے تھے کہ ہمارے راز کی باتیں وہی آنحضرت ﷺ سے کہہ جاتا ہے یا یہ کہ یہ ہمیشہ عذاب لے کر ہی اترتا ہے۔ اس اثر کو خود امام بخاری نے باب الہجرۃ میں وصل فرمایا ہے۔ لنحن الصافون فرشتوں کی زبان سے نقل کیا کہ ہم قطار باندھنے والے اللہ کی پاکی بیان کرنے والے ہیں۔ اس اثر کو طبرانی نے وصل کیا ہے
3208.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے، انھوں نےکہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بتایا جو کہ صادق ومصدوق ہیں: ’’تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں مکمل کی جاتی ہے۔ چالیس دن تک نطفہ رہتا ہے، پھر اتنے ہی وقت تک منجمد خون کی شکل اختیار کرتا ہے۔ پھر اتنے ہی روز تک گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک فر شتہ بھیجتا ہے۔ اور اسےچار باتوں کاحکم دیا جاتاہے اور اسے کہا جاتا ہے کہ اس کا عمل، اس کا رزق اور اس کی عمر لکھ دے اور یہ بھی لکھ دے کہ بدبخت یا نیک بخت۔ اس کے بعد اس میں روح پھونک دی جاتی ہے پھر تم میں سے کوئی ایسا ہوتا ہے جو نیک عمل کرتا ہے کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے مگر اس پر نوشتہ تقدیر غالب آجاتا ہے اور وہ اہل جہنم کا کام کربیٹھتا ہے۔ ایسے ہی کوئی شخص برے کام کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے۔ پھر تقدیر کا فیصلہ غالب آجاتا ہے۔ تو وہ اہل جنت کے سے کام کرنے لگتا ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ حضرت مالک بن حویرث ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے: ’’جب مرد،عورت سے صحبت کرتا ہے تو مرد کا پانی عورت کے ہررگ وریشے میں سما جاتاہے،پھر ساتویں دن اللہ تعالیٰ اسے اکٹھا کرکے اس سے ایک صورت جوڑتا ہے۔‘‘ (فتح الباري:585/11 و السلسلة الصحیحة للألباني، حدیث:3330) 2۔ جدید طب کا دعویٰ ہے کہ چار ماہ سے پہلے ہی حمل میں جان پڑجاتی ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث میں روح سے مراد نفس ناطقہ مدرکہ ہے جو ختم نہیں ہوتا بلکہ موت کے وقت نکلتا ہے۔ اسے روح انسانی بھی کہتے ہیں اورقرآن کریم نے اسے " أَمْرِ رَبِّي " قراردیاہے۔ اس کے برعکس روح حیوانی پہلے ہی سے بلکہ نطفے کے اندر بھی موجود رہتی ہے۔ یہ روح حیوانی موت کے وقت ختم ہوجاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں چار ماہ سے پہلے حرکت، حرکت نمواور اور بڑھوتری ہوتی ہے۔ 3۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے فرشتوں کا وجود ثابت کیا ہے کہ وہ اللہ کی مخلوق ہیں اور ان کی کئی ایک قسمیں ہیں جن کی تعداد اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ان میں سے فرشتوں کی ایک قسم رحم مادر سے متعلق ہے، چنانچہ حضرت انس ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے عورت کے رحم پر ایک فرشتہ مقرر کررکھا ہے جو کہتا ہے:پروردگار! اب نطفہ پڑا۔ پروردگار اب یہ خون بن گیا۔ پروردگار! اب یہ لوتھڑا بن گیا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ اس کی پیدائش کے متعلق حکم کردیتاہے تو فرشتہ پوچھتا ہے کہ یہ مرد ہے یا عورت؟ بدبخت ہے یا نیک بخت؟ اس کی روزی کیا ہے؟ اس کی عمر کیا ہے؟ پھر ماں کے پیٹ ہی میں اس بچے کے ہوتے ہوئے یہ سب کچھ لکھ دیاجاتاہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الحیض، حدیث:318)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3086
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3208
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3208
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3208
تمہید کتاب
محدثین کرام نے کتب حدیث کو مضامین کے اعتبار سے مختلف قسموں میں تقسیم کیا ہے جن میں سے ایک"الجامع"ہےاس سے مرادوہ کتاب ہے جس میں مؤلف نے عقائد عبادات ، معاملات، سیرت ، جہاد مناقب ، رقاق ، آداب ، فتن تاریخ اورا حوال آخرت سے متعلقہ احادیث کو ایک خاص ترتیب سے جمع کیا ہو۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی تالیف بھی"الجامع"کہلاتی ہے جس میں مختلف قسم کے علوم و فنون جمع ہیں۔ ان میں سے ایک تاریخ بھی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں سے تاریخ بیان کرنا شروع کی ہے۔ یہ سلسلہ کتاب التفسیر تک چلے گا۔ ہمارے نزدیک کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقل کتاب نہیں بلکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ہی کا ایک حصہ ہے چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ کی وفات کے ابواب بھی بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے بہر حال اسے آغاز تخلیق سے شروع کیا ہے۔اس کے بعد احادیث انبیاء پھر مناقب وغیرہ بیان ہوں گے اس کے بعد مغازی کا ذکر ہوگا۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تاریخی حقائق بیان کرنے کے لیے ایک سو ساٹھ احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں بائیس معلق اور باقی ایک سواڑتیس احادیث متصل سند سے مروی ہیں ان مرفوع احادیث میں ترانوے احادیث مکرر اور تریسٹھ خالص ہیں پندرہ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اورتابعین عظام رحمۃ اللہ علیہ سے مروی چالیس آثار بھی ہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث و آثار پر تقریباً سترہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے مختلف تاریخی حقائق پرروشنی ڈالنا مقصود ہے۔اس میں تاریخ کا وہ حصہ بیان کیا گیا ہے جس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی تخلیق سے ہے۔ اس کے بعد حضرات انبیاء کا ذکر ہوگا جسے ایک الگ عنوان سے بیان کیا جائے گا۔ بہر حال آغاز تخلیق اور مخلوقات کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جو احادیث پیش کی ہیں وہ دلچسپ اور معلومات افزا ہیں ان کے متعلق تشریحی فوائد بھی ہم نے بڑی محنت سے مرتب کیےہیں۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ خلوص نیت سے پیش کردہ احادیث اور تشریحی فوائد کا مطالعہ کریں۔ امید ہے کہ یہ مطالعہ آپ کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قیامت کے دن گروہ محدثین سے اٹھائے اور خدام حدیث کی رفاقت اور ان کا ساتھ نصیب کرے۔آمین۔
تمہید باب
اس عنوان کے تحت جتنی بھی احادیث لائی گئی ہیں وہ سب اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ فرشتے موجود ہیں اور ان کاثبوت ہے۔یہی اس عنوان کی غرض ہے۔اللہ تعالیٰ نے انھیں نور سے پیدا کیا ہے۔انھیں لطیف جسم دیاگیا ہے اور انھیں ہر قسم کی شکل اختیار کرنے کی قدرت ہے۔ان کا مسکن آسمان ہے۔اللہ کے فرشتوں پر ایمان لانا اصول ایمان میں سے ہے۔ان کا انکار کفر ہے۔یہودی اپنی جہالت کی بنا پر حضرت جبریل علیہ السلام کو اپنا دشمن سمجھتے تھے کہ یہ ہماری راز کی باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاتا ہے اور ہمیشہ عذاب ہی لے کر آتا ہے۔عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اثر کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے(کتاب احادیث الانبیاء حدیث:3329) میں اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اثر کو طبری نے اپنی تفسیر(133/23) میں متصل سند سے بیان کیاہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے رسول الہ ﷺسے عرض کیا کہ جبرئیل علیہ السلام کو یہودی فرشتوں میں سے اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ ابن عباس ؓ نے سورۃ والصافات میں بیان کیا کہ لنحن الصافون میں مراد ملائکہ ہیں۔ تشریح : یہودی اپنی جہالت سے جبرئیل علیہ السلام کو اپنا دشمن سمجھتے اور کہتے تھے کہ ہمارے راز کی باتیں وہی آنحضرت ﷺ سے کہہ جاتا ہے یا یہ کہ یہ ہمیشہ عذاب لے کر ہی اترتا ہے۔ اس اثر کو خود امام بخاری نے باب الہجرۃ میں وصل فرمایا ہے۔ لنحن الصافون فرشتوں کی زبان سے نقل کیا کہ ہم قطار باندھنے والے اللہ کی پاکی بیان کرنے والے ہیں۔ اس اثر کو طبرانی نے وصل کیا ہے
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے، انھوں نےکہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بتایا جو کہ صادق ومصدوق ہیں: ’’تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں مکمل کی جاتی ہے۔ چالیس دن تک نطفہ رہتا ہے، پھر اتنے ہی وقت تک منجمد خون کی شکل اختیار کرتا ہے۔ پھر اتنے ہی روز تک گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک فر شتہ بھیجتا ہے۔ اور اسےچار باتوں کاحکم دیا جاتاہے اور اسے کہا جاتا ہے کہ اس کا عمل، اس کا رزق اور اس کی عمر لکھ دے اور یہ بھی لکھ دے کہ بدبخت یا نیک بخت۔ اس کے بعد اس میں روح پھونک دی جاتی ہے پھر تم میں سے کوئی ایسا ہوتا ہے جو نیک عمل کرتا ہے کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے مگر اس پر نوشتہ تقدیر غالب آجاتا ہے اور وہ اہل جہنم کا کام کربیٹھتا ہے۔ ایسے ہی کوئی شخص برے کام کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے۔ پھر تقدیر کا فیصلہ غالب آجاتا ہے۔ تو وہ اہل جنت کے سے کام کرنے لگتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت مالک بن حویرث ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے: ’’جب مرد،عورت سے صحبت کرتا ہے تو مرد کا پانی عورت کے ہررگ وریشے میں سما جاتاہے،پھر ساتویں دن اللہ تعالیٰ اسے اکٹھا کرکے اس سے ایک صورت جوڑتا ہے۔‘‘ (فتح الباري:585/11 و السلسلة الصحیحة للألباني، حدیث:3330) 2۔ جدید طب کا دعویٰ ہے کہ چار ماہ سے پہلے ہی حمل میں جان پڑجاتی ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث میں روح سے مراد نفس ناطقہ مدرکہ ہے جو ختم نہیں ہوتا بلکہ موت کے وقت نکلتا ہے۔ اسے روح انسانی بھی کہتے ہیں اورقرآن کریم نے اسے " أَمْرِ رَبِّي " قراردیاہے۔ اس کے برعکس روح حیوانی پہلے ہی سے بلکہ نطفے کے اندر بھی موجود رہتی ہے۔ یہ روح حیوانی موت کے وقت ختم ہوجاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں چار ماہ سے پہلے حرکت، حرکت نمواور اور بڑھوتری ہوتی ہے۔ 3۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے فرشتوں کا وجود ثابت کیا ہے کہ وہ اللہ کی مخلوق ہیں اور ان کی کئی ایک قسمیں ہیں جن کی تعداد اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ان میں سے فرشتوں کی ایک قسم رحم مادر سے متعلق ہے، چنانچہ حضرت انس ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے عورت کے رحم پر ایک فرشتہ مقرر کررکھا ہے جو کہتا ہے:پروردگار! اب نطفہ پڑا۔ پروردگار اب یہ خون بن گیا۔ پروردگار! اب یہ لوتھڑا بن گیا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ اس کی پیدائش کے متعلق حکم کردیتاہے تو فرشتہ پوچھتا ہے کہ یہ مرد ہے یا عورت؟ بدبخت ہے یا نیک بخت؟ اس کی روزی کیا ہے؟ اس کی عمر کیا ہے؟ پھر ماں کے پیٹ ہی میں اس بچے کے ہوتے ہوئے یہ سب کچھ لکھ دیاجاتاہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الحیض، حدیث:318)
ترجمۃ الباب:
حضرت انس بن مالک ؓبیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ فرشتوں میں سے حضرت جبرئیلؑ یہودیوں کے دشمن ہیں۔حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: آیت کریمہ"ہم تو صف باندھنے والے ہیں۔ "سے مراد فرشتے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے حسن بن ربیع نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالاحوص نے، ان سے اعمش نے، ان سے زید بن وہب نے اور ان سے عبداللہ ؓ نے بیان کیا کہ ہم سے صادق المصدوق رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا اور فرمایا کہ تمہاری پیدائش کی تیاری تمہاری ماں کے پیٹ میں چالیس دنوں تک پھر ایک بستہ خون کے صورت میں اختیار کئے رہتا ہے اور پھر وہ اتنے ہی دنوں تک ایک مضغہ گوشت رہتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں (کے لکھنے) کا حکم دیتا ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کے عمل، اس کا رزق، اس کی مدت زندگی اور یہ کہ بد ہے یا نیک، لکھ لے۔ اب اس نطفہ میں روح ڈالی جاتی ہے (یاد رکھ) ایک شخص (زندگی بھر نیک) عمل کرتا رہتا ہے اور جب جنت اور اس کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر سامنے آ جاتی ہے اور دوزخ والوں کے عمل شروع کردیتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص (زندگی بھر برے) کام کرتا رہتا ہے اور جب دوزخ اور اس کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر غالب آجاتی ہے اور جنت والوں کے کام شروع کردیتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت میں ہے کہ جب مرد عورت سے صحبت کرتا ہے تو مرد کا پانی عورت کے ہر رگ و پے میں سما جاتا ہے۔ ساتویں دن اللہ اس کو اکٹھا کرکے اس سے ایک صورت جوڑتا ہے۔ پھر نفس ناطقہ چوتھے چلہ میں یعنی چار مہینے کے بعد اس سے متعلق ہوجاتا ہے۔ جو لوگ اعتراضاً کہتے ہیں کہ چار ماہ سے قبل ہی حمل میں جان پڑ جاتی ہے ان کا جواب یہ ہے کہ حدیث میں روح سے نفس ناطقہ مدرکہ مراد ہے اسے روح انسانی کہا جاتا ہے اور روح حیوانی پہلے ہی سے بلکہ نطفہ کے اندر بھی موجود رہتی ہے۔ لہٰذا اعتراض باطل ہوا۔ اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ اعتبار خاتمہ کا ہے اس لیے آدمی کیسے ہی اچھے کام کررہا ہو پھر بھی خرابی خاتمہ سے ڈرتے رہنا چاہئے۔ بزرگوں نے تجربہ کیا ہے کہ جو لوگ حدیث شریف سے محبت رکھتے ہیں اور اسی فن شریف میں مشغول رہتے ہیں، اکثر ان کی عمر دراز ہوتی ہے اور خاتمہ بالخیر نصیب ہوتا ہے۔ یا اللہ! اپنے حقیر ناچیز بندے محمد داؤد راز کو بھی حدیث کی یہ برکا عطا فرمائیو اور میرے جملہ معاونین کرام کو جن کی حدیث دوستی نے مجھ کو اس عظیم خدمت کے انجام دینے کے لیے آمادہ کیا۔ اللہ پاک ان سب کو برکات دارین سے نوازیو۔ آمین ثم آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Mus'ud (RA): Allah's Apostle, the true and truly inspired said, "(The matter of the Creation of) a human being is put together in the womb of the mother in forty days, and then he becomes a clot of thick blood for a similar period, and then a piece of flesh for a similar period. Then Allah sends an angel who is ordered to write four things. He is ordered to write down his (i.e. the new creature's) deeds, his livelihood, his (date of) death, and whether he will be blessed or wretched (in religion). Then the soul is breathed into him. So, a man amongst you may do (good deeds till there is only a cubit between him and Paradise and then what has been written for him decides his behavior and he starts doing (evil) deeds characteristic of the people of the (Hell) Fire. And similarly a man amongst you may do (evil) deeds till there is only a cubit between him and the (Hell) Fire, and then what has been written for him decides his behavior, and he starts doing deeds characteristic of the people of Paradise."