کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیوں کر شروع ہوئی
(
باب : جنوں کا بیان اور ان کو ثواب اور عذاب کا ہونا۔
)
Sahi-Bukhari:
Beginning of Creation
(Chapter: The mention of Jinn, their reward and retribution)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کیوں کہ اللہ نے ( سورۃ انعام میں ) فرمایا ، اے جنو اور آدمیو ! کیا تمہارے پاس تمہارے ہی میں سے رسول نہیں آئے ؟ جو میری آیتیں تم کو سناتے رہے آخر تک ۔ ( قرآن مجید میں سورۃ جن میں ) بخسا بمعنی نقصان کے ہے ۔ مجاہد نے کہا سورۃ الصافات میں جو یہ ہے کہ کافروں نے پروردگار اور جنات میں ناتا ٹھہرایا ہے ، قریش کہا کرتے تھے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں اور ان کی مائیں سردار جنوں کی بیٹیاں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں فرمایا ، جن جانتے ہیں کہ ان کافروں کو حساب کتاب دینے کے لیے حاضر ہونا پڑے گا ( سورۃ ےٰسٓ میں جو یہ ہے ) ﴾ولہم جند محضرون﴿ یعنی حساب کے وقت حاضر کئے جائیں گے ۔تشریح : نیچریوں اور دہریوں نے جہاں فرشتوں اور شیطان کا انکار کیا ہے، وہاں جنوں کا بھی انکار کیا ہے۔ قسطلانی نے کہا جنوں کا وجود قرآن مجید اور حدیث اور اجماع امت اور تواتر سے ثابت ہے اور فلاسفہ اور نیچریوں کا انکار قابل اعتبار نہیں۔ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما نے کہا، اللہ پاک نے آدم سے دو ہزار برس پہلے جنوں کو پیدا فرمایا تھا۔ ( وحیدی )
3296.
حضرت عبداللہ بن عبدالرحمان بن ابو صعصعہ انصاری سے روایت ہے کہ حضرت ابو سعید خدری ؓنے ان سےکہا: میں تمھیں دیکھتا ہوں کہ تمھیں جنگل میں رہ کر بکریاں چرانا بہت پسند ہے، اسلیے جب کبھی تم اپنی بکریوں کے ساتھ جنگل میں ہوا کرو تو نمازکے لیے اذان کہہ لیاکرو۔ اور اذان دیتے وقت اپنی آواز کو خوب بلندکیا کرو کیونکہ موذن کی آواز کو جو بھی انسان، جن یا اور کوئی چیز سنے گی تو قیامت کے دن اس کے لیے گواہی دے گی۔ حضرت ابو سعید ؓ نے کہا: میں نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی۔
تشریح:
1۔ اس حدیث میں مؤذن کی آواز کو جنوں کے بھی سننے کا ذکر ہے۔ اس سے جنوں کا وجود ثابت ہوا۔ پھر اس حدیث میں ان کی گواہی کاذکر ہے اورگواہی اچھے عمل کی دی جاتی ہے۔ اورگواہی بھی وہ دیتا ہے جو قابل اعتماد ہو۔ اس سے ان کے اچھے ہونے کا ثبوت ہے کیونکہ شیطان کے متعلق تو پہلے ذکر ہواہے کہ وہ اذان کی آواز سن کر پادتا ہوا بھاگ جاتاہے۔ 2۔ بہرحال اس حدیث سے ان کے وجود اور ان کے اچھے ہونے کاذکر ملتا ہے۔قرآن مجید میں ہے کہ جنوں نے کہا:﴿وَأَنَّا مِنَّا الصَّالِحُونَ وَمِنَّا دُونَ ذَٰلِكَ ۖ كُنَّا طَرَائِقَ قِدَدًا﴾’’ہم میں سے کچھ نیک لوگ ہیں اور کچھ اس سے کم درجہ کے ہیں اور ہم مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔‘‘ (الجن 14/72، 15) اس آیت کریمہ سے بھی ان کے ثواب عقاب کا پتہ چلتا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3171
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3296
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3296
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3296
تمہید کتاب
محدثین کرام نے کتب حدیث کو مضامین کے اعتبار سے مختلف قسموں میں تقسیم کیا ہے جن میں سے ایک"الجامع"ہےاس سے مرادوہ کتاب ہے جس میں مؤلف نے عقائد عبادات ، معاملات، سیرت ، جہاد مناقب ، رقاق ، آداب ، فتن تاریخ اورا حوال آخرت سے متعلقہ احادیث کو ایک خاص ترتیب سے جمع کیا ہو۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی تالیف بھی"الجامع"کہلاتی ہے جس میں مختلف قسم کے علوم و فنون جمع ہیں۔ ان میں سے ایک تاریخ بھی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں سے تاریخ بیان کرنا شروع کی ہے۔ یہ سلسلہ کتاب التفسیر تک چلے گا۔ ہمارے نزدیک کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقل کتاب نہیں بلکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ہی کا ایک حصہ ہے چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ کی وفات کے ابواب بھی بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے بہر حال اسے آغاز تخلیق سے شروع کیا ہے۔اس کے بعد احادیث انبیاء پھر مناقب وغیرہ بیان ہوں گے اس کے بعد مغازی کا ذکر ہوگا۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تاریخی حقائق بیان کرنے کے لیے ایک سو ساٹھ احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں بائیس معلق اور باقی ایک سواڑتیس احادیث متصل سند سے مروی ہیں ان مرفوع احادیث میں ترانوے احادیث مکرر اور تریسٹھ خالص ہیں پندرہ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اورتابعین عظام رحمۃ اللہ علیہ سے مروی چالیس آثار بھی ہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث و آثار پر تقریباً سترہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے مختلف تاریخی حقائق پرروشنی ڈالنا مقصود ہے۔اس میں تاریخ کا وہ حصہ بیان کیا گیا ہے جس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی تخلیق سے ہے۔ اس کے بعد حضرات انبیاء کا ذکر ہوگا جسے ایک الگ عنوان سے بیان کیا جائے گا۔ بہر حال آغاز تخلیق اور مخلوقات کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جو احادیث پیش کی ہیں وہ دلچسپ اور معلومات افزا ہیں ان کے متعلق تشریحی فوائد بھی ہم نے بڑی محنت سے مرتب کیےہیں۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ خلوص نیت سے پیش کردہ احادیث اور تشریحی فوائد کا مطالعہ کریں۔ امید ہے کہ یہ مطالعہ آپ کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قیامت کے دن گروہ محدثین سے اٹھائے اور خدام حدیث کی رفاقت اور ان کا ساتھ نصیب کرے۔آمین۔
تمہید باب
دہریوں نے جہاں فرشتوں اورشیطان کا انکار کیا ہے وہاں وہ جنات کے بھی انکاری ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان آیات اور پیش کردہ احادیث سے جنات کے وجود اور ان کے ثواب وعقاب کو ثابت کیا ہے۔اس بنا پر ان فلاسفہ اورملاحدہ کا انکار ناقابل التفات ہے۔صحیح بات یہ ہے کہ جنات میں تابع فرمان اورنافرمان دونوں پائے جاتے ہیں ۔ان میں نیک جنات کو ثواب اور گناہ گاروں کو عذاب دیا جائے گا،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جنات کا قول نقل کیا ہے:(وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقَاسِطُونَ ۖ فَمَنْ أَسْلَمَ فَأُولَـٰئِكَ تَحَرَّوْا رَشَدًا ﴿١٤﴾ وَأَمَّا الْقَاسِطُونَ فَكَانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَبًا)"ہم میں سے کچھ مسلمان اور کچھ بے انصاف ہیں اور جوفرمانبردار بن گیا تو ایسے لوگوں نے بھلائی کا راستہ اختیار کیا اور جو بے انصاف ہیں تو وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے۔"(الجن 72/11)پہلے عنوان سے یہ وہم ہوسکتا ہے کہ جب شیطان ،جنات میں سے ہے،تو ان سے شر کے علاوہ کسی نیکی کی اُمید نہیں کی جاسکتی ۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان سے اس وہم کو دور کیا ہے کہ جنات بھی انسانوں کی طرح مکلف ہیں اور مکلف ہونے کی وجہ سے جزاوسزا کے مستحق ہوں گے۔شیطان،اگرچہ انھی جنات میں سے ہے لیکن وہ اپنی شیطنت کی وجہ سے راندہ درگاہ ہوا ہے۔جن ہونے کی وجہ سے اسے بارگاہ الٰہی سے دور نہیں کیا گیا۔واللہ اعلم۔
کیوں کہ اللہ نے ( سورۃ انعام میں ) فرمایا ، اے جنو اور آدمیو ! کیا تمہارے پاس تمہارے ہی میں سے رسول نہیں آئے ؟ جو میری آیتیں تم کو سناتے رہے آخر تک ۔ ( قرآن مجید میں سورۃ جن میں ) بخسا بمعنی نقصان کے ہے ۔ مجاہد نے کہا سورۃ الصافات میں جو یہ ہے کہ کافروں نے پروردگار اور جنات میں ناتا ٹھہرایا ہے ، قریش کہا کرتے تھے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں اور ان کی مائیں سردار جنوں کی بیٹیاں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں فرمایا ، جن جانتے ہیں کہ ان کافروں کو حساب کتاب دینے کے لیے حاضر ہونا پڑے گا ( سورۃ ےٰسٓ میں جو یہ ہے ) ﴾ولہم جند محضرون﴿ یعنی حساب کے وقت حاضر کئے جائیں گے ۔تشریح : نیچریوں اور دہریوں نے جہاں فرشتوں اور شیطان کا انکار کیا ہے، وہاں جنوں کا بھی انکار کیا ہے۔ قسطلانی نے کہا جنوں کا وجود قرآن مجید اور حدیث اور اجماع امت اور تواتر سے ثابت ہے اور فلاسفہ اور نیچریوں کا انکار قابل اعتبار نہیں۔ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما نے کہا، اللہ پاک نے آدم سے دو ہزار برس پہلے جنوں کو پیدا فرمایا تھا۔ ( وحیدی )
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عبدالرحمان بن ابو صعصعہ انصاری سے روایت ہے کہ حضرت ابو سعید خدری ؓنے ان سےکہا: میں تمھیں دیکھتا ہوں کہ تمھیں جنگل میں رہ کر بکریاں چرانا بہت پسند ہے، اسلیے جب کبھی تم اپنی بکریوں کے ساتھ جنگل میں ہوا کرو تو نمازکے لیے اذان کہہ لیاکرو۔ اور اذان دیتے وقت اپنی آواز کو خوب بلندکیا کرو کیونکہ موذن کی آواز کو جو بھی انسان، جن یا اور کوئی چیز سنے گی تو قیامت کے دن اس کے لیے گواہی دے گی۔ حضرت ابو سعید ؓ نے کہا: میں نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث میں مؤذن کی آواز کو جنوں کے بھی سننے کا ذکر ہے۔ اس سے جنوں کا وجود ثابت ہوا۔ پھر اس حدیث میں ان کی گواہی کاذکر ہے اورگواہی اچھے عمل کی دی جاتی ہے۔ اورگواہی بھی وہ دیتا ہے جو قابل اعتماد ہو۔ اس سے ان کے اچھے ہونے کا ثبوت ہے کیونکہ شیطان کے متعلق تو پہلے ذکر ہواہے کہ وہ اذان کی آواز سن کر پادتا ہوا بھاگ جاتاہے۔ 2۔ بہرحال اس حدیث سے ان کے وجود اور ان کے اچھے ہونے کاذکر ملتا ہے۔قرآن مجید میں ہے کہ جنوں نے کہا:﴿وَأَنَّا مِنَّا الصَّالِحُونَ وَمِنَّا دُونَ ذَٰلِكَ ۖ كُنَّا طَرَائِقَ قِدَدًا﴾’’ہم میں سے کچھ نیک لوگ ہیں اور کچھ اس سے کم درجہ کے ہیں اور ہم مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔‘‘ (الجن 14/72، 15) اس آیت کریمہ سے بھی ان کے ثواب عقاب کا پتہ چلتا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: "اے جنوں اورانسانوں کے گروہ!کیا تمہارے پاس تمھی سے رسول نہیں آئے تھے جو تم پر میری آیات بیان کرتے۔ ۔ ۔ "
بَخْسًا کے معنی نقص کے ہیں۔ امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ارشاد باری تعالیٰ: "انھوں نے اللہ اور جنوں کے درمیان قرابت قائم کی۔ "اس کی تفسیر یہ ہے کہ کفار قریش نے کہا تھا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اور ان کی مائیں سردار جنوں کی بیٹیاں ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: " بلاشبہ جنات نے جان لیاہے کہ وہ ضرور ضرور حاضر کیے جائیں گے۔ "انھیں عنقریب حساب دینے کے لیے حاضر ہوناپڑے گا، نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "وہ جتھے بھی پیش کیے جائیں گے۔ "یعنی حساب کے وقت حاضر کیے جائیں گے
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے عبدالرحمن بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی صعصعہ انصاری نے اور انہیں ان کے والد نے خبردی کہ ان سے حضرت ابوسعید خدری ؓ نے کہا میں دیکھتا ہوں کہ تم کو جنگل میں رہ کر بکریاں چرانا بہت پسند ہے۔ اس لیے جب کبھی اپنی بکریوں کے ساتھ تم کسی بیابان میں موجود ہو اور (وقت ہونے پر) نماز کے لیے اذان دو تو اذان دیتے ہوئے اپنی آواز خوب بلند کرو، کیوں کہ مؤذن کی آواز اذان کو جہاں تک بھی کوئی انسان، جن یا کوئی چیز بھی سنے گی تو قیامت کے دن اس کے لیے گواہی دے گی۔ حضرت ابوسعید ؓ نے کہا کہ یہ حدیث میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی۔
حدیث حاشیہ:
حدیث ہٰذا میں مؤذن کی اذان کی آواز کو جنوں کے بھی سننے کا ذکر ہے۔ اس سے جنوں کا وجود ثابت ہوا اور یہ بھی کہ جن قیامت کے دن بعض انسانوں کے اعمال خیر مثل اذان پر اللہ کے ہاں اس بندے کے حق میں خیر کی گواہی دیں گے۔ جنوں کا ذکر آنے سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abdur-Rahman bin Abdullah bin Abdur-Rahman bin Abi Sasaa Ansari (RA): That Abu Sa'id Al-Khudri(RA) said to his father. "I see you are fond of sheep and the desert, so when you want to pronounce the Adhan, raise your voice with it for whoever will hear the Adhan whether a human being, or a Jinn, or anything else, will bear witness, in favor on the Day of Resurrection." Abu Said added, "I have heard this from Allah's Apostle (ﷺ) ."