باب : ( حضرت یوسف ؑ کا بیان ) اللہ پاک نے فرمایا کہ بیشک یوسف اور ان کے بھائیوں کے واقعات میں پوچھنے والوں کیلئے قدرت کی بہت سی نشانیاں ہیں
)
Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: The Statement of Allah Taa'la: "Verily, in Yusuf and his brethren there were Ayat...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3387.
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ حضرت لوط ؑ پر رحم فرمائے کہ وہ ایک مضبوط سہارے کی پناہ لینا چاہتے تھے۔ اور اگرمیں اتنی مدت تک قید خانے میں رہتا جتنی دیرحضرت یوسف ؑ رہے تھے، پھر میرے پاس (رہائی کےلیے)کوئی بلانے والا آتا تو میں میں فوراً اس کی دعوت پر لبیک کہتا۔‘‘
تشریح:
1۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے سیدنایوسف ؑ کی تعریف فرمائی ہے کہ انھوں نے اپنی براءت کا صاف شاہی اعلان ہوئے بغیر جیل خانہ چھوڑنا پسند نہیں فرمایا۔ حضرت یوسف ؑ نے اللہ سے دعا کی تھی۔ ’’اے میرےپروردگار! جس چیز کی طرف مجھے مصر کی عورتیں بلا رہی ہیں اس سے تو مجھے قید ہی پسند ہے‘‘ (یوسف:12۔33) 2۔حضرت یوسف ؑ نے جب خواب کی تعمیر اور اس سے بچنے کی تدبیر بتائی عزیز مصر عش عش کر اٹھا۔ کہنے لگا۔ ایسے شخص کو میرے پاس لایا جائے تاکہ میں اس کی زیارت سے فیض یاب ہو سکوں لیکن یوسف ؑ نے قیدسے باہرآنے سے انکار کر دیا، مقصد یہ تھا کہ جب تک اس جرم کی تحقیق نہ کی جائے اور پوری طرح میری بریت واضح نہ ہو جائے میں قید سے باہر آنے کو تیار نہیں ہوں کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ کسی ناواقف کے دل میں یہ شائبہ تک نہ رہے کہ شاید اس معاملے میں یوسف کا بھی کچھ قصور تھا۔ 3۔ رسول اللہ ﷺ نے انکسار اور تواضع کے طور پر ایسا فرمایا۔ بصورت دیگر آپ تو عزم و استقلال کے پہاڑ تھے۔۔۔ صلی اللہ علیه وسلم ۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3259
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3387
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3387
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3387
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
اہل مکہ نے یہود مدینہ سے کہا کہ ہمیں کوئی ایسا سوال بتاؤ جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو لاجواب کردے اور ان کی نبوت کا بھرم کھل جائے۔ انھوں نے سوچ کر ایک تاریخی قسم کا سوال اہل مکہ کو بتایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ،حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کا مسکن تو شام و فلسطین کا علاقہ تھا پھر حضرت یعقوب علیہ السلام (اسرائیل)کی اولاد مصر کیسے جا پہنچی جنھیں اہل مصر (فرعون) کی غلامی سے آزاد کرانے کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام بھیجے گئے تھے؟کفار مکہ کے سوال کے جواب میں سورہ یوسف پوری کی پوری نازل ہوگئی اور حقیقت یہ ہے کہ اس سوال کے جواب سے نہ تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگاہ تھے اورنہ اہل مکہ کو اس کا علم ہی تھا۔اس سورت میں حضرت یوسف علیہ السلام کے حالات زندگی کی پوری داستان بھی آگئی اور کئی ایسی باتوں کی طرف واضح اشارات بھی آگئے۔جو کفار مکہ اور بردران یوسف کے درمیان مشترک طور پر پائے جاتے تھے اور اس میں کفار مکہ کے لیے عبرت کے کئی نشان بھی تھے۔ پہلا نشان تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت تھی کہ آپ نے فوراً ان کے سوال کا جواب دے کرثابت کردیا کہ آپ فی الحقیقت اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں۔ کیونکہ وحی الٰہی کے علاوہ آپ کے پاس معلومات حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا لیکن پھر بھی یہ لوگ مسلمان نہ ہوئے بلکہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے۔ واضح رہے کہ عنوان میں سوال کرنے والوں سے مراد اہل مکہ ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ حضرت لوط ؑ پر رحم فرمائے کہ وہ ایک مضبوط سہارے کی پناہ لینا چاہتے تھے۔ اور اگرمیں اتنی مدت تک قید خانے میں رہتا جتنی دیرحضرت یوسف ؑ رہے تھے، پھر میرے پاس (رہائی کےلیے)کوئی بلانے والا آتا تو میں میں فوراً اس کی دعوت پر لبیک کہتا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے سیدنایوسف ؑ کی تعریف فرمائی ہے کہ انھوں نے اپنی براءت کا صاف شاہی اعلان ہوئے بغیر جیل خانہ چھوڑنا پسند نہیں فرمایا۔ حضرت یوسف ؑ نے اللہ سے دعا کی تھی۔ ’’اے میرےپروردگار! جس چیز کی طرف مجھے مصر کی عورتیں بلا رہی ہیں اس سے تو مجھے قید ہی پسند ہے‘‘ (یوسف:12۔33) 2۔حضرت یوسف ؑ نے جب خواب کی تعمیر اور اس سے بچنے کی تدبیر بتائی عزیز مصر عش عش کر اٹھا۔ کہنے لگا۔ ایسے شخص کو میرے پاس لایا جائے تاکہ میں اس کی زیارت سے فیض یاب ہو سکوں لیکن یوسف ؑ نے قیدسے باہرآنے سے انکار کر دیا، مقصد یہ تھا کہ جب تک اس جرم کی تحقیق نہ کی جائے اور پوری طرح میری بریت واضح نہ ہو جائے میں قید سے باہر آنے کو تیار نہیں ہوں کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ کسی ناواقف کے دل میں یہ شائبہ تک نہ رہے کہ شاید اس معاملے میں یوسف کا بھی کچھ قصور تھا۔ 3۔ رسول اللہ ﷺ نے انکسار اور تواضع کے طور پر ایسا فرمایا۔ بصورت دیگر آپ تو عزم و استقلال کے پہاڑ تھے۔۔۔ صلی اللہ علیه وسلم ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمد بن اسماء ابن اخی جویریہ نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے جویریہ بن اسماءنے بیان کیا‘ ان سے مالک نے بیان کیا‘ ان سے زہری نے بیان کیا‘ ان کو سعید بن مسیب اور ابو عبیدہ نے خبردی اور ان سے حضرت ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا‘ اللہ تعالیٰ لوط ؑ پر رحم فرمائے کہ وہ زبردست رکن (یعنی خداوند کریم) کی پناہ لیتے تھے اور اگر میں اتنی مدت تک قید رہتا جتنی یوسف ؑ رہے تھے اور پھر میرے پاس (بادشاہ کا آدمی) بلانے کے لئے آتا تو میں فوراً اس کے ساتھ چلا جاتا۔
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ حضرت یوسف ؑ کے صبرواستقلال کی تعریف بیان فرما رہے ہیں کہ انہوں نے اپنی برات کا صاف شاہی اعلان ہوئے بغیر جیل خانہ چھوڑ نا پسند نہیں فرمایا۔ ﴿قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ﴾(یوسف:33) آیت سے بھی ان کے مقام رفعت و عظیم مرتبت کا اظہار ہوتا ہے۔ صلی اللہ علیه وسلم أجمعین۔ آمین۔ اللہ کے پیاروں کی یہی شان ہوتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "May Allah bestow His Mercy on Lot. He wanted to have a powerful support. If I were to stay in prison (for a period equal to) the stay of Joseph (prison) and then the offer of freedom came to me, then I would have accepted it." (See Hadith No. 591)