Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: What has been said about Bani Israel)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3458.
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ وہ کوکھ پر ہاتھ رکھنے کو مکرو خیال کرتی تھیں اور فرمایاکرتی تھیں کہ ایسا کرنا یہودیوں کا فعل ہے۔ شعبہ نے اعمش سے روایت کرنے میں سفیان کی متابعت کی ہے۔
تشریح:
1۔ حدیث میں اگرچہ مطلق طور پر کوکھ پر ہاتھ رکھنے کومکروہ کہاگیاہے ، تاہم یہ نماز کی حالت سے مقید ہے کیونکہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا دوران نماز میں کوکھ پر ہاتھ رکھنے کو ناپسند کرتی تھیں اورفرمایا:اس طرح یہودی کرتے ہیں۔ (فتح الباري:608/6) 2۔ کہاجاتا ہے کہ اس طرح اہل جہنم آرام کے وقت کریں گے، نیز اس طرح وہ شخص کرتا ہے جسے مصیبت نے نڈھال کردیا ہو۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب شیطان کو زمین پر اتارا گیا تو اس کی یہی حالت تھی۔ چونکہ اس میں تکبر بھی ہے، اس لیے اسے ناپسند قراردیا گیا ہے۔ واللہ أعلم۔ (عمدة القاري:209/11) 3۔چونکہ ضمناً اس حدیث میں یہودیوں کا ذکر آیا ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اس روایت کو ذکر فرمایا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3325
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3458
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3458
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3458
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ وہ کوکھ پر ہاتھ رکھنے کو مکرو خیال کرتی تھیں اور فرمایاکرتی تھیں کہ ایسا کرنا یہودیوں کا فعل ہے۔ شعبہ نے اعمش سے روایت کرنے میں سفیان کی متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حدیث میں اگرچہ مطلق طور پر کوکھ پر ہاتھ رکھنے کومکروہ کہاگیاہے ، تاہم یہ نماز کی حالت سے مقید ہے کیونکہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا دوران نماز میں کوکھ پر ہاتھ رکھنے کو ناپسند کرتی تھیں اورفرمایا:اس طرح یہودی کرتے ہیں۔ (فتح الباري:608/6) 2۔ کہاجاتا ہے کہ اس طرح اہل جہنم آرام کے وقت کریں گے، نیز اس طرح وہ شخص کرتا ہے جسے مصیبت نے نڈھال کردیا ہو۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب شیطان کو زمین پر اتارا گیا تو اس کی یہی حالت تھی۔ چونکہ اس میں تکبر بھی ہے، اس لیے اسے ناپسند قراردیا گیا ہے۔ واللہ أعلم۔ (عمدة القاري:209/11) 3۔چونکہ ضمناً اس حدیث میں یہودیوں کا ذکر آیا ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اس روایت کو ذکر فرمایا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمدبن یوسف نےبیان کیا، ہم سےسفیان بن عیینہ نےبیان کیا، ان سے اعمش نےبیان کیا، ان سے ابوالضحیٰ نے بیان کیا، ان سےمسروق نےبیان کیاکہ حضرت عائشہ ؓ کوکھ پر ہاتھ رکھنے کو ناپسند کرتی تھیں اورفرماتی تھیں کہ اس طرح یہود کرتے ہیں۔ اس روایت کی متابعت شعبہ نے اعمش سےکی ہے۔
حدیث حاشیہ:
کوکھ پرہاتھ رکھنے کی عادت یہود کی تھی اوراس سےتکبیر کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ اسی لیے اسے ناپسند قرار دیا گیا۔ صمنا یہود کاذکر ہے یہی باب سے وجہ مناسبت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): That she used to hate that one should keep his hands on his flanks while praying. She said that the Jew used to do so.