باب: تیمم میں ایک ہی دفعہ مٹی پر ہاتھ مارنا کافی ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Rubbing hands and feet with dust (Tayammum)
(Chapter: Tayammum with one light stroke (on the earth))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
347.
حضرت شقیق بن سلمہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کے پاس بیٹھا تھا، حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے کہا: اگر کسی کو جنابت لاحق ہو جائے اور اسے ایک ماہ تک پانی نہ ملے تو کیا وہ تیمم نہ کر لے اور نماز پڑھے؟ (حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا: نہیں، خواہ اسے ایک ماہ تک پانی نہ ملے۔) حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے فرمایا: آپ سورہ مائدہ کی اس آیت کے متعلق کیا کہیں گے: ’’اگر تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کر لو۔‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: اگر اس بارے میں لوگوں کو رخصے دی جائے تو اندیشہ ہے کہ لوگوں کو جب پانی ٹھنڈا محسوس ہو گا تو وہ پاک مٹی سے تیمم کر لیا کریں گے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری کہتے ہیں: میں نے حضرت ابن مسعود ؓ سے کہا: آپ اس رخصت کو اس مصلحت کے پیش نظر ناپسندیدہ قرار دیتے ہیں؟ حضرت ابن مسعود ؓ نے جواب دیا: جی ہاں! حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے کہا: کیا آپ نے وہ بات نہیں سنی جو حضرت عمار ؓ نے حضرت عمر ؓ سے کہی تھی کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے کسی کام پر بھیجا تھا۔ مجھے وہاں جنابت لاحق ہو گئی اور پانی نہ مل سکا تو میں نے چوپائے کی طرح زمین پر لوٹ پوٹ لگائی (اور نماز پڑھ لی تھی)۔ پھر جب میں نے نبی ﷺ کے حضور عرض کیا تو آپ نے فرمایا: "تمہیں صرف اس طرح کر لینا کافی تھا۔" پھر آپ نے ایک بار زمین پر اپنا ہاتھ مارا، اس سے غبار کو جھاڑا، اس کے بعد اپنے ہاتھ کی پشت کا بائیں ہاتھ سے مسح فرمایا، یا اپنے بائیں ہاتھ کی پشت کا اپنے ہاتھ سے مسح فرمایا، پھر ان سے اپنے چہرے پر مسح کیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ حضرت عمر ؓ حضرت عمار ؓ کے قول سے مطمئن نہیں ہوئے تھے؟ حضرت یعلی بن عبید نے حضرت اعمش سے، انھوں نے شقیق سے قدرے اضافے کے ساتھ روایت کو بیان کیا ہے۔ شقیق نے کہا: میں عبداللہ بن مسعود اور ابوموسیٰ اشعری کے ہمراہ تھا تو حضرت ابوموسیٰ نے کہا: کیا تم نے وہ بات نہیں سنی جو حضرت عمار ؓ نے حضرت عمر ؓ سے کہی تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اور آپ کو کہیں باہر بھیجا تھا۔ اس دوران میں مجھے جنابت لاحق ہو گئی تو میں نے مٹی میں لوٹ لگائی۔ پھر ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صورت حال سے آپ کو آگاہ کیا تو آپ نے فرمایا: ’’تمہیں صرف اس طرح کر لینا کافی تھا۔‘‘ اس کے بعد آپ ﷺ نے اپنے منہ اور ہاتھوں کا ایک مرتبہ مسح فرمایا۔
تشریح:
1۔ امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے کئی ایک کا یہی قول ہے کہ تیمم میں چہرے اور ہتھیلیوں کے لیے ایک ہی ضرب ہے۔ ان میں حضرت علی ؓ ، حضرت عمار ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ ہیں پھر تابعین میں سے حضرت شعبی، حضرت عطاء ؒ ، اورحضرت مکحول ؒ وغیرہ نے بھی یہی کہا ہے۔ اسی طرح آئمہ میں سے امام احمد بن حنبل ؒ اور امام اسحاق بن راہویہ ؒ کا بھی یہی موقف ہے۔ جب کہ کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ تیمم میں ایک ضرب چہرے کے لیے اور دوسری ضرب ہاتھوں کہنیوں تک کے لیے ہے۔ ان میں حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت جابر ؓ ہیں حضرت ابراہیم نخعیؒ ، حسن بصری ؓ اور سفیان ثوری ؒ کا بھی یہی موقف ہے۔ آئمہ میں سے امام مالک ؒ ، امام عبد اللہ بن مبارک ؒ اور امام شافعی ؒ نے اسی موقف کو اپنایا ہے۔ امام بخاری ؒ اس مسئلے میں امام احمد بن حنبل ؒ کی تائید میں ہیں کہ ایک ہی بار زمین پر ہاتھ مارا جائے، پھر چہرے اور ہتھیلیوں کا مسح کر لیا جائے، اگرچہ اس روایت میں اختصار ہے کہ دائیں ہاتھ کی پشت پر بایاں ہاتھ پھیرا یا بائیں ہاتھ کی پشت پر دائیں ہاتھ سے مسح کیا، یعنی اس روایت میں صرف ہاتھ کی پشت کا ذکر ہے، باطن کف یعنی ہاتھ کے اندر کی جانب مسح کا ذکر نہیں ہے، تاہم دیگر روایات میں اس کی وضاحت ہے۔ ابو داود میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے زمین پر ہاتھ مارا ، پھر اسے جھاڑا، پھر بائیں سے دائیں اور دائیں سے بائیں کا، یعنی ہتھیلیوں کا مسح کیا، اس کے بعد چہرے کا مسح کیا۔ (سنن بي داود، الطهارة، حدیث:321) حافظ ابن حجر ؒ نے علامہ اسماعیلی ؒ کے حوالے سے جو روایت نقل کی ہے، وہ بہت ہی واضح ہے۔ رسول ؒﷺ نے حضرت عمار ؒ سے فرمایا :’’ تجھے اتنا ہی کافی تھا کہ اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارتا پھر انھیں جھاڑتا پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کا اور بائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ کا مسح کرتا، اس کے بعد اپنے چہرے کا مسح کرتا۔‘‘(فتح الباري:5959/1) 2 یہ بھی ممکن ہے کہ امام بخاری ؒ جنبی کے لیے تیمم کا طریقہ بتانا چاہتے ہوں کہ جنبی کا تیمم بھی حدث اصغر کے تیمم کی طرح ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنابت کا تیمم کرنے کے لیے بھی مٹی میں لوٹ پوٹ ہونے کی ضرورت نہیں، جیسا کہ حضرت عمار ؓ نے کیا تھا، بلکہ اس کے لیے زمین پر ہاتھ مار کر مسح کر لینا کافی ہے، لیکن ہمارے نزدیک پہلا موقف زیادہ قرین قیاس ہے کہ امام بخاری ؒ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ تیمم میں ایک ہی ضرب کافی ہے، ایسا نہیں کہ ایک دفعہ ضرب لگانے سے وہ مستعمل ہو گئی، پھر چہرے کے لیے دوبارہ ضرب لگائی جائے بلکہ ایک ہی ضرب سے چہرے اور ہتھیلیوں کا مسح کر لیا جائے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
345
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
347
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
347
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
347
تمہید کتاب
"یہ ذکر ہم نے آپ کی طرف اس لیے اتارا ہے تاکہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کر بیان کر دیں۔"( النحل16۔44۔) یہ وہی بیان ہے جس کی حفاظت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:(ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ)"پھر اس (قرآن )کا واضح کر دینا ہمارے ذمے ہے۔"( القیامۃ :75۔19۔) یعنی اس کے مشکل مقامات کی تشریح اور حلال و حرام کی توضیح بھی ہمارے ذمے ہے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے مجملات کی جو تفصیل مبہمات کی توضیح اور اس کے عمومات کی جو تخصیص بیان کی ہے جسے حدیث کہا جا تا ہے یہ سب اللہ کی طرف سے ہے۔ اور اسے تسلیم کرنا گویا قرآن کریم کو ماننا ہے ۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس مبارک تصنیف میں اسی اصول کو پیش نظر رکھا ہے پہلے بنیادی ماخذ قرآنی آیت کاحوالہ دیا۔ پھر اس کی تشریح احادیث و آثار سے فرمائی۔آپ نے کتاب تیمم میں نو چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں دو باب بلا عنوان ہیں۔ باقی سات ابواب میں مندرجہ ذیل مسائل واحکام بیان کیے ہیں۔(فاقد الطهورين) کا کیا حکم ہے؟ جب نماز کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو اور پانی نہ ملے تو حضر میں بھی تیمم کیا جا سکتا ہے۔ تیمم کرنے والا خاک آلود ہاتھوں پر پھونک مار سکتا ہے تیمم چہرے اور ہاتھوں کے مسح سے مکمل ہو جاتا ہے جب پانی نہ ملے تو بندہ مسلم کے لیے پاک مٹی ہی وضو کے پانی کاکام دیتی ہے جب کسی کو پیاس لگی ہو اور وضو کرنے سے پانی ختم ہونے کا اندیشہ ہو یا جنبی آدمی کو پانی استعمال کرنے سے بیماری یا موت کا خطرہ ہو تو پانی کی موجودگی میں بھی تیمم کیا جا سکتا ہے تیمم کرتے وقت صرف ایک مرتبہ زمین پر ہاتھ مارنا کافی ہے۔ اسی طرح بیشتر متعارف و حقائق بیان کیے ہیں جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تیمم سے متعلقہ احکام و مسائل ثابت کرنے کے لیے سترہ(17)مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں دس احادیث مقرر ہیں نیز دو معلق روایات بھی لائے ہیں غیر مقرر احادیث کی تعداد سات ہے جن میں ایک معلق ہے باقی موصول ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین کے دس آثار بھی پیش کیے ہیں جن میں تین موصول ہیں یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فتوی جات باسند بیان کیے ہیں۔معلق روایت یا اثر کا مطلب ہے اسے بے سند بیان یا نقل کرنا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ معلق روایات و آثار کی سند یں دیگر کتب احادیث میں موجود ہیں جن کی تفصیل حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اپنی شرح "فتح الباری"میں بیان کردیتے ہیں اس لیے صحیح بخاری میں بے سند (معلق)ہونے کا مطلب بے سروپا اور بے بنیاد ہونا نہیں بلکہ اختصار کے طور پر سند کا حذف کردینا ہے۔قارئین کرام :سے گزارش ہے کہ وہ ہماری پیش کردہ معروضات کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب تیمم کا مطالعہ فرمائیں اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ اور وہ ہمیں کتاب و سنت کے مطابق حیات مستعار کے چند دن گزار نے کی توفیق دے۔
حضرت شقیق بن سلمہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کے پاس بیٹھا تھا، حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے کہا: اگر کسی کو جنابت لاحق ہو جائے اور اسے ایک ماہ تک پانی نہ ملے تو کیا وہ تیمم نہ کر لے اور نماز پڑھے؟ (حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا: نہیں، خواہ اسے ایک ماہ تک پانی نہ ملے۔) حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے فرمایا: آپ سورہ مائدہ کی اس آیت کے متعلق کیا کہیں گے: ’’اگر تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کر لو۔‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: اگر اس بارے میں لوگوں کو رخصے دی جائے تو اندیشہ ہے کہ لوگوں کو جب پانی ٹھنڈا محسوس ہو گا تو وہ پاک مٹی سے تیمم کر لیا کریں گے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری کہتے ہیں: میں نے حضرت ابن مسعود ؓ سے کہا: آپ اس رخصت کو اس مصلحت کے پیش نظر ناپسندیدہ قرار دیتے ہیں؟ حضرت ابن مسعود ؓ نے جواب دیا: جی ہاں! حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے کہا: کیا آپ نے وہ بات نہیں سنی جو حضرت عمار ؓ نے حضرت عمر ؓ سے کہی تھی کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے کسی کام پر بھیجا تھا۔ مجھے وہاں جنابت لاحق ہو گئی اور پانی نہ مل سکا تو میں نے چوپائے کی طرح زمین پر لوٹ پوٹ لگائی (اور نماز پڑھ لی تھی)۔ پھر جب میں نے نبی ﷺ کے حضور عرض کیا تو آپ نے فرمایا: "تمہیں صرف اس طرح کر لینا کافی تھا۔" پھر آپ نے ایک بار زمین پر اپنا ہاتھ مارا، اس سے غبار کو جھاڑا، اس کے بعد اپنے ہاتھ کی پشت کا بائیں ہاتھ سے مسح فرمایا، یا اپنے بائیں ہاتھ کی پشت کا اپنے ہاتھ سے مسح فرمایا، پھر ان سے اپنے چہرے پر مسح کیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ حضرت عمر ؓ حضرت عمار ؓ کے قول سے مطمئن نہیں ہوئے تھے؟ حضرت یعلی بن عبید نے حضرت اعمش سے، انھوں نے شقیق سے قدرے اضافے کے ساتھ روایت کو بیان کیا ہے۔ شقیق نے کہا: میں عبداللہ بن مسعود اور ابوموسیٰ اشعری کے ہمراہ تھا تو حضرت ابوموسیٰ نے کہا: کیا تم نے وہ بات نہیں سنی جو حضرت عمار ؓ نے حضرت عمر ؓ سے کہی تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اور آپ کو کہیں باہر بھیجا تھا۔ اس دوران میں مجھے جنابت لاحق ہو گئی تو میں نے مٹی میں لوٹ لگائی۔ پھر ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صورت حال سے آپ کو آگاہ کیا تو آپ نے فرمایا: ’’تمہیں صرف اس طرح کر لینا کافی تھا۔‘‘ اس کے بعد آپ ﷺ نے اپنے منہ اور ہاتھوں کا ایک مرتبہ مسح فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے کئی ایک کا یہی قول ہے کہ تیمم میں چہرے اور ہتھیلیوں کے لیے ایک ہی ضرب ہے۔ ان میں حضرت علی ؓ ، حضرت عمار ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ ہیں پھر تابعین میں سے حضرت شعبی، حضرت عطاء ؒ ، اورحضرت مکحول ؒ وغیرہ نے بھی یہی کہا ہے۔ اسی طرح آئمہ میں سے امام احمد بن حنبل ؒ اور امام اسحاق بن راہویہ ؒ کا بھی یہی موقف ہے۔ جب کہ کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ تیمم میں ایک ضرب چہرے کے لیے اور دوسری ضرب ہاتھوں کہنیوں تک کے لیے ہے۔ ان میں حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت جابر ؓ ہیں حضرت ابراہیم نخعیؒ ، حسن بصری ؓ اور سفیان ثوری ؒ کا بھی یہی موقف ہے۔ آئمہ میں سے امام مالک ؒ ، امام عبد اللہ بن مبارک ؒ اور امام شافعی ؒ نے اسی موقف کو اپنایا ہے۔ امام بخاری ؒ اس مسئلے میں امام احمد بن حنبل ؒ کی تائید میں ہیں کہ ایک ہی بار زمین پر ہاتھ مارا جائے، پھر چہرے اور ہتھیلیوں کا مسح کر لیا جائے، اگرچہ اس روایت میں اختصار ہے کہ دائیں ہاتھ کی پشت پر بایاں ہاتھ پھیرا یا بائیں ہاتھ کی پشت پر دائیں ہاتھ سے مسح کیا، یعنی اس روایت میں صرف ہاتھ کی پشت کا ذکر ہے، باطن کف یعنی ہاتھ کے اندر کی جانب مسح کا ذکر نہیں ہے، تاہم دیگر روایات میں اس کی وضاحت ہے۔ ابو داود میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے زمین پر ہاتھ مارا ، پھر اسے جھاڑا، پھر بائیں سے دائیں اور دائیں سے بائیں کا، یعنی ہتھیلیوں کا مسح کیا، اس کے بعد چہرے کا مسح کیا۔ (سنن بي داود، الطهارة، حدیث:321) حافظ ابن حجر ؒ نے علامہ اسماعیلی ؒ کے حوالے سے جو روایت نقل کی ہے، وہ بہت ہی واضح ہے۔ رسول ؒﷺ نے حضرت عمار ؒ سے فرمایا :’’ تجھے اتنا ہی کافی تھا کہ اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارتا پھر انھیں جھاڑتا پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کا اور بائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ کا مسح کرتا، اس کے بعد اپنے چہرے کا مسح کرتا۔‘‘(فتح الباري:5959/1) 2 یہ بھی ممکن ہے کہ امام بخاری ؒ جنبی کے لیے تیمم کا طریقہ بتانا چاہتے ہوں کہ جنبی کا تیمم بھی حدث اصغر کے تیمم کی طرح ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنابت کا تیمم کرنے کے لیے بھی مٹی میں لوٹ پوٹ ہونے کی ضرورت نہیں، جیسا کہ حضرت عمار ؓ نے کیا تھا، بلکہ اس کے لیے زمین پر ہاتھ مار کر مسح کر لینا کافی ہے، لیکن ہمارے نزدیک پہلا موقف زیادہ قرین قیاس ہے کہ امام بخاری ؒ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ تیمم میں ایک ہی ضرب کافی ہے، ایسا نہیں کہ ایک دفعہ ضرب لگانے سے وہ مستعمل ہو گئی، پھر چہرے کے لیے دوبارہ ضرب لگائی جائے بلکہ ایک ہی ضرب سے چہرے اور ہتھیلیوں کا مسح کر لیا جائے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہمیں ابومعاویہ نے خبر دی اعمش سے، انھوں نے شقیق سے، انھوں نے بیان کیا کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کی خدمت میں حاضر تھا۔ حضرت ابوموسی ؓ نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے کہا کہ اگر ایک شخص کو غسل کی حاجت ہو اور مہینہ بھر پانی نہ پائے تو کیا وہ تیمم کر کے نماز نہ پڑھے؟ شقیق کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے جواب دیا کہ وہ تیمم نہ کرے اگرچہ وہ ایک مہینہ تک پانی نہ پائے ( اور نماز موقوف رکھے ) ابوموسی ؓ نے اس پر کہا کہ پھر سورہ مائدہ کی اس آیت کا کیا مطلب ہو گا ’’ اگر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی پر تیمم کر لو۔ ‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعود بولے کہ اگر لوگوں کو اس کی اجازت دے دی جائے تو جلد ہی یہ حال ہو جائے گا کہ جب ان کو پانی ٹھنڈا معلوم ہو گا تو وہ مٹی سے تیمم ہی کر لیں گے۔ اعمش نے کہا میں نے شقیق سے کہا تو تم نے جنبی کے لیے تیمم اس لیے برا جانا۔ انھوں نے کہا ہاں۔ پھر حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے فرمایا کہ کیا آپ کو حضرت عمار کا حضرت عمر بن خطاب ؓ کے سامنے یہ قول معلوم نہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے کسی کام کے لیے بھیجا تھا۔ سفر میں مجھے غسل کی ضرورت ہو گئی، لیکن پانی نہ ملا۔ اس لیے میں مٹی میں جانور کی طرح لوٹ پوٹ لیا۔ پھر میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے لیے صرف اتنا اتنا کرنا کافی تھا۔ اور آپ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر ایک مرتبہ مارا پھر ان کو جھاڑ کر بائیں ہاتھ سے داہنے کی پشت کو مل لیا یا بائیں ہاتھ کا داہنے ہاتھ سے مسح کیا۔ پھر دونوں ہاتھوں سے چہرے کا مسح کیا۔ عبداللہ نے اس کا جواب دیا کہ آپ عمر کو نہیں دیکھتے کہ انھوں نے عمار کی بات پر قناعت نہیں کی تھی۔ اور یعلی ابن عبید نے اعمش کے واسطہ سے شقیق سے روایت میں یہ زیادتی کی ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں عبداللہ اور ابوموسیٰ کی خدمت میں تھا اور ابوموسیٰ نے فرمایا تھا کہ آپ نے عمر سے عمار کا یہ قول نہیں سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اور آپ کو بھیجا۔ پس مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور میں مٹی میں لوٹ پوٹ لیا۔ پھر میں رات رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے صورت حال کے متعلق ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں صرف اتنا ہی کافی تھا اور اپنے چہرے اور ہتھیلیوں کا ایک ہی مرتبہ مسح کیا۔
حدیث حاشیہ:
ابوداؤد کی روایت میں صاف مذکور ہے کہ آپ ﷺ نے تیمم کا طریقہ بتلاتے ہوئے پہلے بائیں ہتھیلی کو دائیں ہتھیلی اور پہنچوں پر مارا پھر دائیں کو بائیں پر مارا اس طرح دونوں پہنچوں پر مسح کرکے پھر منہ پر پھیر لیا۔ بس یہی تیمم ہے اور یہی راحج ہے۔ علمائے محققین نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ دوبار کی روایتیں سب ضعیف ہیں۔ علامہ شوکانی ؒ حدیث عمار رواہ الترمذي کے تحت فرماتے ہیں:''وَالْحَدِيثُ يَدُلُّ عَلَى أَنَّ التَّيَمُّمَ ضَرْبَةٌ وَاحِدَةٌ لِلْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ، وَقَدْ ذَهَبَ إلَى ذَلِكَ عَطَاءٌ وَمَكْحُولٌ وَالْأَوْزَاعِيُّ وَأَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَإِسْحَاقُ وَالصَّادِقُ وَالْإِمَامِيَّةُ، قَالَ فِي الْفَتْحِ: وَنَقَلَهُ ابْنُ الْمُنْذِرِ عَنْ جُمْهُورِ الْعُلَمَاءِ وَاخْتَارَهُ وَهُوَ قَوْلُ عَامَّةِ أَهْلِ الْحَدِيثِ.'' (نیل الأوطار:328/1)’’یعنی یہ حدیث دلیل ہے کہ تیمم میں صرف ایک ہی مرتبہ ہاتھوں کو مٹی پر مارنا کافی ہے اور جمہور علماء وجملہ محدثین کا یہی مسلک ہے۔‘‘
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-A'mash (RA): Shaqiq said, "While I was sitting with 'Abdullah and Abu Musa (RA) Al-Ash-'ari, the latter asked the former, 'If a person becomes Junub and does not find water for one month, can he perform Tayammum and offer his prayer?' (He applied in the negative). Abu Musa (RA) said, 'what do you say about this verse from Surat "Al-Ma'ida": When you do not find water then perform Tayammum with clean earth? 'Abdullah replied, 'If we allowed it then they would probably perform Tayammum with clean earth even if water were available but cold.' I said to Shaqiq, 'You then disliked to perform Tayammum because of this?' Shaqiq said,'Yes.' (Shaqiq added), "Abu Musa (RA) said, 'haven’t you heard the statement of 'Ammar to 'Umar? He said: I was sent out by Allah's Apostle (ﷺ) for some job and I became Junub and could not find water so I rolled myself over the dust (clean earth) like an animal does, and when I told the Prophet (ﷺ) of that he said, 'Like this would have been sufficient.' The Prophet (ﷺ) (saying so) lightly stroked the earth with his hand once and blew it off, then passed his (left) hand over the back of his right hand or his (right) hand over the back of his left hand and then passed them over his face.' So 'Abdullah said to Abu- Musa, 'Don't you know that 'Umar was not satisfied with 'Ammar's statement?' " Narrated Shaqiq (RA): While I was with 'Abdullah and Abu Musa (RA), the latter said to the former, "Haven't you heard the statement of 'Ammar to 'Umar? He said, "Allah's Apostle (ﷺ) sent you and me out and I became Junub and rolled myself in the dust (clean earth) (for Tayammum). When we came to Allah's Apostle (ﷺ) I told him about it and he said, 'this would have been sufficient,' passing his hands over his face and the backs of his hands once only.'