Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter: The description of the Prophet (saws))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3553.
حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نےکہا کہ رسول اللہ ﷺ دوپہر کے وقت وادی بطحاء کی طرف تشریف لے گئے۔ آپ نے وضو کیا پھر ظہر کی دو رکعات اور عصر کی دو رکعات ادا کیں اور آپ کے سامنے برچھا گاڑا ہوا تھا۔ (راوی حدیث)عون نے یہ اضافہ بیان کیا ہےکہ برچھے کے پیچھے سے لوگ گزرے رہے تھے۔ نماز کے بعد لوگ کھڑے ہوئے اور آپ کے ہاتھ پکڑ کر اپنے چہروں پر ملنے لگے، چنانچہ میں نے آپ کا ہاتھ پکڑکر اپنے چہرے پررکھا تو وہ برف سے زیادہ ٹھنڈا اور کستوری سے زیادہ خوشبو دار تھا۔
تشریح:
1۔حضرت جابربن سمرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے مدینہ طیبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ظہر پڑھی،پھرآپ اپنے اہل خانہ کے ہاں تشریف لے گئے۔میں بھی آپ کے ساتھ ہولیا۔بچوں نے آپ کا استقبال کیا۔آپ کمال شفقت اور پیار سے ایک ایک کے رخسار پر ہاتھ پھیرتے۔چونکہ میں بھی بچہ تھا۔آپ نے میرے رخسار پر بھی ہاتھ پھیرا تو میں نے آپ کے ہاتھ میں ایسی ٹھنڈک اور خوشبو محسوس کی گویا آپ نے اسے ابھی ابھی عطار کے عطر دان سے نکالا ہے۔(صحیح مسلم، الفضائل، حدیث:6052(2329)حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ سفید چمک دار،پسینہ گویا موتی،چلتے تو قدرے جھکاؤ کے ساتھ آگے بڑھتے۔میں نے کوئی ریشم ایسا نہیں چھوا جو آپ کی ہتھیلی سے زیادہ نرم ہو اور نہ کوئی مشک عنبر ہی سونگھا جو آپ کی خوشبو سے بڑھ کر ہو۔(صحیح مسلم، الفضائل، حدیث:6054(2330)خوشبو آپ کی صفت کریمہ تھی اگرچہ آپ خوشبو استعمال نہ کریں۔حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی راستے سے تشریف لے جاتے اور آپ کے بعد کوئی دوسرا وہاں سے گزرتا تو آپ کے عطر بیز جسم اورپسینے کی خوشبو سے معلوم کرلیتا کہ گزرگیا ہے ادھر سے وہ کاروان بہار۔2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک برف سے زیادہ ٹھنڈے ہونے میں حکمت یہ کہ آپ کے ہاتھ کی ٹھنڈک آپ کے جسم اطہر کی ہرعیب سے سلامتی پر دلالت کرتی ہے۔(عمدةالقاري:299/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3420
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3553
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3553
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3553
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
تمہید باب
اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تقریباً28 احادیث بیان کی ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ دراصل کتاب المناقب کا تیسرا حصہ ہے جس میں صورت و سیرت کو ایک بہترین پیرائے میں بیان کیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کے متعلق ایک مستند کتاب(الرسول كأنك تراه) ہے جسے سر زمین حجاز کے عالم دین الشیخ ابراییم بن عبد اللہ الحازمی نے مرتب کیا ہے راقم نے "آئینہ جمال نبوت"کے نام سے اس کا اُردو ترجمہ کیا اور دارالاسلام لاہور نے شائع کرنے کی سعادت حاصل کی ہے واللہ الحمد۔
حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نےکہا کہ رسول اللہ ﷺ دوپہر کے وقت وادی بطحاء کی طرف تشریف لے گئے۔ آپ نے وضو کیا پھر ظہر کی دو رکعات اور عصر کی دو رکعات ادا کیں اور آپ کے سامنے برچھا گاڑا ہوا تھا۔ (راوی حدیث)عون نے یہ اضافہ بیان کیا ہےکہ برچھے کے پیچھے سے لوگ گزرے رہے تھے۔ نماز کے بعد لوگ کھڑے ہوئے اور آپ کے ہاتھ پکڑ کر اپنے چہروں پر ملنے لگے، چنانچہ میں نے آپ کا ہاتھ پکڑکر اپنے چہرے پررکھا تو وہ برف سے زیادہ ٹھنڈا اور کستوری سے زیادہ خوشبو دار تھا۔
حدیث حاشیہ:
1۔حضرت جابربن سمرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے مدینہ طیبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ظہر پڑھی،پھرآپ اپنے اہل خانہ کے ہاں تشریف لے گئے۔میں بھی آپ کے ساتھ ہولیا۔بچوں نے آپ کا استقبال کیا۔آپ کمال شفقت اور پیار سے ایک ایک کے رخسار پر ہاتھ پھیرتے۔چونکہ میں بھی بچہ تھا۔آپ نے میرے رخسار پر بھی ہاتھ پھیرا تو میں نے آپ کے ہاتھ میں ایسی ٹھنڈک اور خوشبو محسوس کی گویا آپ نے اسے ابھی ابھی عطار کے عطر دان سے نکالا ہے۔(صحیح مسلم، الفضائل، حدیث:6052(2329)حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ سفید چمک دار،پسینہ گویا موتی،چلتے تو قدرے جھکاؤ کے ساتھ آگے بڑھتے۔میں نے کوئی ریشم ایسا نہیں چھوا جو آپ کی ہتھیلی سے زیادہ نرم ہو اور نہ کوئی مشک عنبر ہی سونگھا جو آپ کی خوشبو سے بڑھ کر ہو۔(صحیح مسلم، الفضائل، حدیث:6054(2330)خوشبو آپ کی صفت کریمہ تھی اگرچہ آپ خوشبو استعمال نہ کریں۔حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی راستے سے تشریف لے جاتے اور آپ کے بعد کوئی دوسرا وہاں سے گزرتا تو آپ کے عطر بیز جسم اورپسینے کی خوشبو سے معلوم کرلیتا کہ گزرگیا ہے ادھر سے وہ کاروان بہار۔2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک برف سے زیادہ ٹھنڈے ہونے میں حکمت یہ کہ آپ کے ہاتھ کی ٹھنڈک آپ کے جسم اطہر کی ہرعیب سے سلامتی پر دلالت کرتی ہے۔(عمدةالقاري:299/11)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوعلی حسن بن منصور نے بیان کیا ، کہا ہم سے حجاج بن محمد الاعور نے مصیصہ ( شہر میں ) بیان کیا ، کہاہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے حکم نے بیان کیا کہ میں نے ابوجحیفہ ؓ سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ دوپہر کے وقت سفر کے ارادہ سے نکلے ۔ بطحاءنامی جگہ پر پہنچ کر آپ نے وضو کیا اور ظہر کی نماز دو رکعت ( قصر ) پڑھی پھر عصر کی بھی دورکعت ( قصر ) پڑھی ۔ آپ کے سامنے ایک چھوٹا سا نیزہ ( بطور سترہ ) گڑا ہواتھا ۔ عون نے اپنے والد سے اس روایت میں یہ زیادہ کیا ہے کہ ابوجحیفہ ؓ نے کہا کہ اس نیزہ کے آگے سے آنے جانے والے آجارہے تھے ۔ پھر صحابہ آپ کے پاس آگئے اور آپ کے مبارک ہاتھوں کو تھام کر اپنے چہروں پر پھیرنے لگے ۔ ابوجحیفہ ؓ نے بیان کیا کہ میں نے بھی آپ کے دست مبارک کو اپنے چہرے پر رکھا ۔ اس وقت وہ برف سے بھی زیادہ ٹھنڈا اور مشک سے بھی زیادہ خوشبودار تھا ۔
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں ہے، آپ نے ایک ڈول پانی میں کلی کرکے وہ پانی کنویں میں ڈال دیا تو کنویں میں سے مشک جیسی خوشبو آنے لگی۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے آپ کا پسینہ جمع کرکے رکھا، خوشبو میں ملا یا تو وہ دوسری خوشبو سے زیادہ معطر تھا۔ ابویعلیٰ اور بزار نے باسناد صحیح نکالا کہ آپ جب مدینہ کے کسی راستے سے گزرتے تو وہ مہک جاتا۔ ایک غریب عورت کے پاس خوشبو نہ تھی۔ آپ نے شیشی میں اپنا تھوڑا پسینہ اسے دے دیا تو اس سے سارے مدینہ والے مشک کی سی خوشبو پاتے۔ اس کے گھر کانام بیت المطیبین پڑ گیا تھا۔ ( أبویعلیٰ، طبراني)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Juhaifa (RA): Once Allah's Apostle (ﷺ) went to Al-Batha' at noon, performed the ablution and offered' a two Rakat Zuhr prayer and a two-Rak'at 'Asr prayer while a spearheaded stick was planted before him and the passersby were passing in front of it. (After the prayer), the people got up and held the hands of the Prophet (ﷺ) and passed them on their faces. I also took his hand and kept it on my face and noticed that it was colder than ice, and its smell was nicer than musk.